• 25 اپریل, 2024

صفائی نصف ایمان ہے

حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
…یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو صفائی کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اب پانی سے ناک صاف کرنے کاجو حکم ہے یہ وضو کرتے وقت دن میں پانچ دفعہ ہے اور اگر ناک میں پانی چڑھا کر صاف کیا جائے تو کافی حد تک نزلے وغیرہ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ جرمنی میں کسی کو نزلہ ہو گیا اور ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ تم لوگ جومسلمان ہو، پانچ وقت وضو کرتے ہو تو ناک میں پانی چڑھاتے ہو، تم اگر اس طرح کرو تو کافی حد تک نزلے سے بچ سکتے ہو۔ یہ اس ڈاکٹر کی اپنی سوچ یا تحقیق تھی یا اس پر کوئی اور تحقیق ہو رہی ہے یاہوئی ہے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بہرحال اس میں حقیقت ہے۔ اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے ناک میں پانی چڑھانا مشکل ہو گا کیونکہ ناک میں زور سے پانی چڑھانا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ذرا سی تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن میں نے تجربہ کرکے دیکھا ہے کہ اگر ناک میں پانی ٹھیک طرح چڑھایا جائے اور صاف کیا جائے تو نزلے میں کافی فرق پڑتا ہے۔ پھر ناخن کٹوانا ہے، اس میں ہزار قسم کے گند پھنس جاتے ہیں لیکن آج کل بعض مردوں میں لیکن عورتوں میں تو اکثریت میں یہ فیشن ہو گیا ہے کہ لمبے لمبے ناخن رکھو اور ان کو کوئی گندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ سب پر واضح ہو جانا چاہئے کہ ناخن کٹوانے کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور لمبے ناخن رکھنے کا نقصان ہی ہے فائدہ کوئی نہیں۔ صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا۔ اس کا پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔ اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ اور خدام الاحمدیہ کو وقار عمل بھی کرنا چاہئے۔ اور اگر عمارت کے اندر کا حصہ ہے تو لجنہ کو بھی اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اور اس میں سب سے اہم عمارات مساجد ہیں مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہئے، خوبصورت بنانا چاہئے۔ اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ چند سال پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی خطبہ اس ضمن میں دیا تھا اور توجہ دلائی تھی۔ کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر توجہ کم ہو گئی۔ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں مسجد کے اندر ہال کی صفائی کا بھی باقاعدہ انتظام ہو۔ تنکوں کی وہاں صفیں بچھی ہوتی ہیں۔ صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے، وہاں دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے۔ پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں۔ غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے۔ اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔ لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے، مٹی چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر جمعے کے دن تو بہرحال صفائی ہونی چاہئے۔ اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کوبھی صاف رکھنا چاہئے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ لیکن مسجد میں خوشبو کے لئے بعض لوگ اگر بتیاں جلا لیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک مسجد میں اگر بتی کسی نے لگا دی اور آہستہ آہستہ الماری کو آگ لگ گئی نقصان بھی ہوا۔ ایک تو یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ جب موجود ہوں تب ہی لگے۔ دوسرے بعض اگر بتیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں اتنی تیز خوشبوہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے بجائے آرام کے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس سے اکثر کوسردرد شروع ہو جاتی ہے۔ تو ایسی چیز لگانی چاہئے یا دھونی دینی چاہئے جو ذرا ہلکی ہو۔

(خطبہ جمعہ 23؍اپریل 2004ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ