• 19 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے کچھ حصے
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

مکرم عابد خان تحریر فرماتے ہیں کہ
حضور انور کے دورہ کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ ہم میں سے جن کو آپ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملتا ہے انہیں نئے دوست اور تعلقات بنانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ایک دوست جن کو میں پہلی مرتبہ ملا تھا اور ان سے اچھی دوستی ہوگئی وہ ایک نوجوان خادم تھے جن کا نام سمیر احمد تھا۔ ان کی عمر 23 سال تھی اور جرمنی میں پیدا ہوئے اور فرینکفرٹ میں رہتے ہیں۔ میری ان سے پہلی ملاقات جس دن ہوئی اس کے بعد اگلے دو ہفتے ان کو اچھی طرح جاننے کا موقع ملتا رہا۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میری ڈائریز پڑھی ہیں۔جو میں نے حضور انور کے دورہ جات آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مشرقِ بعید کے حوالہ سے گزشتہ سال لکھی تھیں۔ اس بات سے مجھے خوب حیرت ہوئی کیونکہ میرا خیال تھا کہ جرمنی کے لوگ انگلش پڑھنا نہیں جانتے ہوں گے۔

تاہم دوران دورہ (جرمنی) میں ایسے کئی لوگوں سے ملا جنہوں نے یہ ڈائریز پڑھی تھیں اور حضور انور اور آپ کے دورہ جات کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی ملنے پر حوصلہ افزائی کی۔ مکرم سمیر صاحب نے مجھے بتایا کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ خلافت کی اہمیت ان پر زیادہ سے زیادہ عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ‘جب حضور انور تشریف لاتے ہیں تو آپ نے خود بھی خلافت سے جڑی برکات کا مشاہدہ کیا ہو گا اور آپ انہیں حقیقت میں تجربہ کر کے دیکھتے ہیں اور یوں آپ کو آگاہی ملتی ہے کہ یہ محض قصے کہانیاں نہیں ہیں جو ہمارے والدین نے ہمیں بتائی ہیں۔

حضور انور کی رازداری ایک خادم کا اظہار خیال

ایک دلچسپ بات جو سمیر نے حالیہ ایک واقعہ کے بارے میں کہی کچھ یوں ہے کہ اللہ کے فضل سے حضور انور کے دورہ سے چند روز قبل، حضور انور کے صاحبزادے مرزا وقاص احمد صاحب کے ہاں دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ سمیر صاحب نے بتایا کہ ایک دن کے اندر اندر واٹس ایپ اور ٹویٹر پر ایک بچے کی تصویر گردش کرنے لگی۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں بہت سے لوگ جنہیں وہ جانتے تھے انہوں نے وہ تصویر دیکھی تھی اور اس کو دوسروں کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی یہ تصویر دیکھی تھی لیکن انہیں شرح صدر نہ تھا بلکہ وہ اپنے تئیں قصور وارسمجھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حضور انور اپنی زندگی اور وقت کا اتنا حصہ جماعت کو عطا فرماتے ہیں لیکن احمدیوں کو بعض مواقع پر حضور انور کی رازداری کا خیال رکھنا چاہیے خاص طور پر جب یہ آپ کی فیملی کا ذاتی معاملہ ہو۔

میں اس بات پر پوری طرح سمیر صاحب کے ساتھ متفق تھا۔ بعد میں، میں نے اس کا ذکر حضور انور کی خدمت میں کیا اور ایسا لگتا تھا کہ حضور انور نے ان کے جذبات کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

خلافت کے لیے محبت

میں نے حضور انور کے دورہ کے دوران مختلف احباب جماعت سے گفتگو کی اور میں ہمیشہ ان کے جذبات اور خلافت سے محبت جان کر سحر زدہ رہ جاتا۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ ہم میں سے بہت سے لوگ خلافت کی شاید اس طرح قدر نہیں کرتے جس طرح قدر کرنے کا حق ہے۔

میں باقاعدگی سے ایسے لوگوں کو ملتا رہتا ہوں جو حضور انور کے دفتر میں ایک منٹ یا اس سے کچھ کم وقت گزارتے اور بتاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہو۔

ایک نوجوان عزیزم اسجد محمود (بعمر 22 سال) حال ہی میں گجرات (پاکستان) سے جرمنی آیا تھا اور اسائلم کیا تھا۔ میں نے ان کی زندگی کی حضور انور سے پہلی ملاقات سے چند لمحات قبل گفتگو کی اور وہ بالطبع بہت nervous تھے۔ اس نے بتایا کہ اگرچہ وہ حضور انور سے پہلے کبھی نہیں ملا لیکن اس کے دل میں حضور انور کی محبت ہمیشہ کسی بھی دوسرے شخص کی محبت سے زیادہ رہی ہے۔

ایک دوسرے احمدی مکرم عمر فضل الحق جن کی عمر 33 سال تھی، نے مجھے بتایا کہ حضور انور کے دورہ نے ان کے غیر احمدی دوستوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ’میرے ساتھی دیکھتے ہیں کہ میں کام سے چھٹیاں لیتا ہوں تاکہ حضور انور کی قربت میں وقت گزار سکوں اور اپنی ڈیوٹی دے سکوں۔ اس کا ان پر گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ اس بات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں کہ ہمارا ایک leader ہے جو ہمیں قوت کشش کے باعث اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے لیے ہم سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘

مکرم عمر صاحب نے مزید بتایا ’میں یقینا ایمان رکھتا ہوں کہ اگر میں اپنی زندگی میں کوئی کامیابی چاہتا ہوں اور اپنے بچوں کی کامیابیاں چاہتا ہوں تو ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خلافت سے جڑے رہیں۔ خلافت سے تعلق جوڑنا ہی وہ واحد راستہ ہے جو میری آئندہ نسلوں کو بچائے گا۔

ایک ممبر لجنہ اماء اللہ کے تاثرات

مجھے اکثر کسی بھی فیملی کے جملہ ممبران سے بات کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے اور یوں مجھے لجنہ کی ممبرات کے تاثرات جاننے کا موقع بھی ملتا رہتاہے۔ ایک خاتون مکرمہ شکیلہ صاحبہ جب حضور انور کے دفتر سے باہر آئیں تو بہت جذباتی کیفیت میں تھیں۔ یہ ان کی حضور انور سے پہلی ملاقات تھی تو انہوں نے اپنے جذبات یوں بیان کئے کہ ’میں حضور انور کے دفتر میں واقعتاً کانپ رہی تھی کیونکہ میں اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ پا رہی تھی اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سب لوگوں میں سے میں حضور انور کی معیت کا شرف پا رہی تھی۔ آج کے دن میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ انہوں نے حضور انور کی شفقت کا ایک اور واقعہ بھی بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ دوران ملاقات انہوں نے حضور انور کو بتایا کہ حال ہی میں ان کی انگوٹھی گم گئی تھی تو فوراً حضور انور نے اپنے دراز سے ایک انگوٹھی نکالی اور ان کو بطور تحفہ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ سے وہ بے حد خوش ہوئیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہیں کہ ایسے دور میں زندگی بسر کر رہی ہیں جہاں احمدیوں کو خلیفہ وقت سے ملنے کا موقع مل جاتا ہے کیونکہ جس طرح سے جماعت ترقی کر رہی ہے ان کا خیال ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب پوری دنیا میں اتنے احمدی ہوں گے کہ ہر احمدی کے لیےحضور انور کو ملنا ممکن نہ رہے گا۔

حضور انور سے ملاقات کا اثر

میں ایک دوست سے ملا جن کا نام مکرم محمد نور باجوہ تھا ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور بچے بھی اس ملاقات کے لیے حاضر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور کے خلیفۃ المسیح بننے سے قبل کراچی میں انہیں حضور انور کی گاڑی کی ڈرائیونگ کرنے کا موقع تین سے چار مرتبہ ملا۔ اس کے بعد سے ان کی حضور انور سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج وہ جس وجود سے ملے ہیں وہ اس وجود سے بہت مختلف ہے جس کو وہ کئی سال پہلے ملے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حضور انور کا چہرہ نور سے پُر ہے اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور وہ خود پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔

ایک اور نوجوان family جن کی حضور انور سے ملاقات ہوئی وہ مکرم اخلاق ملک صاحب اور ان کی اہلیہ تھیں۔ مکرم اخلاق صاحب نے بتایا کہ‘جب ہم ملاقات کے لیے حضور انور کے دفتر کے باہر کھڑے تھے تو میں نے حضور انور کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے گفتگو فرماتے سنا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے حضور انور کی آواز کو اس قدر قریب سے سنا تھا اور اس آواز کی طاقت، پاکیزگی اور خوبصورتی ایسی تھی کہ میں اس کو بھول نہیں سکوں گا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حضور انور کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے ہی میں ایسی گھبراہٹ اور حضور انور کی محبت میں گھرا ہوا تھا کہ میں آپ کے سامنے کچھ بھی بول نہ سکا۔‘

ایک جذباتی گفتگو

ایک ملاقات جس نے مجھے بہت جذباتی کر دیا وہ مکرم خان افضل صاحب اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ تھی۔ مکرم خان صاحب کی عمر 49 سال تھی مگر آپ کو کبھی بھی خلیفہ وقت سے ملاقات کا شرف نہ ملا تھا۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ مجھے حضور انور کی قربت میں رہنے کا موقع ملتا رہتا ہے اور ساری زندگی خلیفہ وقت کو دیکھتا رہا ہوں۔ مکرم خان افضل صاحب نے بتایا کہ آج کا دن میرے لیے اور میری family کے لیے بہت خوشی اور مسرت بھرا دن ہے۔ میں 49 سال کا ہوں اور آج مجھے پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ سے ملاقات کا شرف ملا ہے۔ میں حضور انور کو ہمیشہ ایم ٹی اے پر دیکھتا تھا یا بہت دور سے اور یہ سوچتا تھا کہ کیا کبھی مجھے بھی ذاتی طور پر آپ سے ملاقات کا شرف نصیب ہو گا۔ آج اللہ تعالی نے میری دعائیں قبول کر لی ہیں اور میں نے کبھی اتنا اطمینان محسوس نہیں کیا جتنا حضور انور کے دفتر میں تھا۔ اور اب جبکہ میں حضور انور کے دفتر سے باہر آ چکا ہوں پھر بھی وہ اطمینان کی کیفیت جاری ہے۔‘

پھر میں نے ان کی اہلیہ سے بات کی اور انہیں بتایا کہ میں حضور انور کے دورہ جات کی ڈائری لکھتا ہوں اور اللہ تعالی کے فضل سے حضور انور بھی وقت نکال کر ان کو خود ملاحظہ فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ جب مرد حضرات میرے سامنے روتے یا آنسو بہاتے ہیں تو میں جسمانی طور پر اپنا ہاتھ ان کے کندھے یا بازو پر رکھ کر انہیں تسلی دیتا ہوں لیکن یقینی طور پر ایک خاتون سے ایسا رویہ برتنا نا مناسب تھا اس لیے میں خاموشی سے کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ انہوں نے خود کو سنبھالا اور کہنے لگیں کہ ’میں پاکستان کے ایک دور دراز علاقے کی ایک سادہ سی خاتون ہوں۔ میں نہ تو زیادہ پڑھی لکھی ہوں اور نہ تعلیم یافتہ۔ لیکن میں اپنے بچوں کو نماز میں باقاعدہ رہنے اور تلاوت قرآن کریم کی تلقین کرتی رہتی ہوں۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اس بات کو اپنی ڈائری میں ضرور لکھیں تاکہ جب حضور انور اس کو پڑھیں تو دعا کریں تاکہ میری یہ خواہش پوری ہو سکے۔‘ ان الفاظ کو ادا کرتے ہی وہ دوبارہ رونے لگیں تو میں نے انہیں بتایا کہ میں ان شاءاللہ ان کے الفاظ اپنی ڈائری میں ضرور شامل کر لوں گا۔

خلافت سے محبت کی ایک اور مثال

ایک اور دوست جنہوں نے حضور انور سے پہلی مرتبہ ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا وہ مکرم ملک فیاض صاحب تھے جن کی عمر 29 سال تھی۔ وہ بھی جذبات سے لبریز تھے اور اپنے تجربہ کو یوں بیان کیا کہ ’وہ یقینی طور پر میری زندگی کے چند بہترین لمحات تھے۔ حضور انور کے چہرے کا نور بہت زیادہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی معیت میں جو دل کا سکون میں نے محسوس کیا وہ ناقابل بیان ہے اور ان چند لمحات میں یقینی طور پر میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اب میں اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ میرے خلیفہ مجھ سے خوش ہوں۔ درحقیقت مجھے علم نہ تھا کہ ایسی خوشی اور مسرت محسوس کی جا سکتی ہے۔‘

ایک سیکیورٹی گارڈ کے تاثرات

جو احباب حضور انور کے ساتھ دورہ میں شریک ہوتے ہیں انہیں خلیفہ وقت کی برکات کو بلا واسطہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس دورہ کے دوران حضور انور کے ایک سیکیورٹی گارڈ مکرم محسن اعوان صاحب تھے۔ مجھے ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کا موقع ملا اور یوں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع بھی ملتا رہتا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ ہر دفعہ جب انہیں حضور انور کے قریب کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہے تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ بہت محتاط رہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے منتخب نمائندہ کے قریب کھڑے ہیں اور وہ ڈیوٹی کے دوران اپنا وقت خاموشی سے درود شریف پڑھتے ہوئے گزارتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا ایمان ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر صرف مستقل دعائیں کرتے ہوئے ہی کر سکتے ہیں۔

(دورہ حضور انورجرمنی 2014 ۔حصہ اول)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

پیغام از حضور انور ایدہ اللہ تعالی برائے عالمی و وزارتی کانفرنس بعنوان ’’آزادی مذہب یا عقیدہ‘‘

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ