• 25 اپریل, 2024

انبیاء اور دنیا داری

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت خلیفہ اوّل سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں؟ اعتراض کرنے والے نے کہا سنا ہے مرزا صاحب پلاؤ کھاتے ہیں؟ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کہا کہ میں نے تو کہیں نہیں پڑھا، نہ قرآن میں نہ حدیث میں کہ اچھا کھانا کھانا نبیوں کو جائز نہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلد5 صفحہ48 روایات حضرت نظام الدین صاحب ٹیلرؓ)۔ کھاتے ہیں تو کیا ہو گیا۔ تو اس قسم کے بھی لوگوں کے اعتراض ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف کڑوے کھانے کھانا ہی بڑی بزرگی ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ اسی سنّت پہ ہمیں چلنا چاہئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمائی۔ آپ نے ایک صحابی کو فرمایا تھا میں اچھا کھانا بھی کھاتا ہوں۔ میں اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں۔ میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ میری اولاد بھی ہے۔ میں سوتا بھی ہوں۔ میں عبادت بھی کرتا ہوں۔ پس یہ میری سنت ہے جس پر تمہیں چلنا چاہئے۔

(تفسیر الدر المنثور جلد3 صفحہ131 تفسیر سورۃ المائدۃ 78تا88 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

بہرحال آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے۔‘‘ (یعنی دنیاوی چیزوں میں منہمک نہیں ہوتے۔) ’’انہماک بیشک ایک زہر ہے۔ ایک بدقماش آدمی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں۔‘‘ (ایک بدقماش آدمی تو دنیاوی نظر سے کھاتا پیتا اور وہ دنیا داری کے سب کام کر رہا ہوتا ہے لیکن ایک صالح آدمی نہیں۔ اگر وہ اس طرح کرے گا تو پھر خدا کی راہیں اس پہ نہیں کھلیں گی۔) فرمایا کہ ’’جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے خدا کو ضرور اس کا پاس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدۃ:9)‘‘ فرمایا کہ ’’تنعّم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔ چوری نہ کرے۔ بلکہ جائز امور میں حد اعتدال سے نہ بڑھے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ375۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

جو جائز چیزیں ہیں ان میں اعتدال رکھنا یہ بھی تقویٰ ہے اور یہ بھی نیکی ہے۔ اپنی تعلیم کے اس حصہ کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ حُکّام کے ساتھ نیکی کیا ہے؟ اور عام تعلقات اور جو عزیزوں سے تعلقات ہیں اس میں نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔ حُکّام کی سچی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (حکومت اور گورنمنٹ کی بھی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے شہریوں کے صحیح طرح فرائض ادا کر رہے ہیں۔) فرمایا کہ ’’جان اور مال ان کے ذریعہ امن میں ہیں اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں۔‘‘ فرمایا ’’البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔‘‘ (نیک برتاؤ کرنا ہے کرو۔ لیکن نیکی کا یہ مطلب نہیں کہ جو ہمارے مخالف ہیں اور ہمارے پہ فتوے لگانے والے ہیں، بدعات میں گرفتار ہیں ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے لگ جاؤ۔ وہ نہیں پڑھنیں۔) فرمایا کہ ’’تاہم ان سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہئے۔‘‘ (لیکن نیک سلوک ان سے بہرحال کرنا ہے۔ جتنے مرضی ہمارے مخالف ہوں۔) فرمایا کہ ’’ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔ جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخرت میں کیا اجر لے گا۔ اس لئے سب کے لئے نیک اندیش ہونا چاہئے۔ ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔ اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مدّنظر رکھنا چاہئے۔‘‘ فرمایا ’’اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفّار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے بسبب بلا وجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔‘‘ (مسلمانوں کو قتل کرتے تھے۔ ان پر ظلم کرتے تھے۔ ان کی سزا کے طور پر ان کو سزا دی گئی) ’’ان کو جو سزا ملی مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔ (اس لئے نہیں تھی کہ انہوں نے انکار کیا۔) ’’محض انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذا رسانی نہ ہو تو وہ اس دنیا میں عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ319-320۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

(خطبہ جمعہ 27؍ اکتوبر 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2021