قربانیوں کا باب ہے میدانِ کربلا
لت پت ہے خوں میں اب بھی گریبانِ کربلا
ہر کوئی جن کو کہتا ہے خاصانِ کربلا
اپنی مثال آپ تھے یارانِ کربلا
دیکھے کوئی جوانی و جانبازئ حسینؓ
اشعار میں ہو کیسے بیاں شانِ کربلا
گنتی کے چند لوگ اِدھر اُس طرف ہجوم
ایسے میں کرتے کیا وہ غریبانِ کربلا
یہ تُو نے اُن کے ساتھ بتا کیا کیا یزید
آئی نہ شرم وہ تو تھے مہمانِ کربلا
توحید کا چراغ جلا جن کے خون سے
اُمت کا ہے سلام شہیدانِ کربلا
دُنیا میں برپا کر دیا اک انقلاب دین
امن و اماں کا درس ہیں شاہانِ کربلا
نامِ یزید مٹ گیا نامِ حسینؓ سے
بھاگے ہیں دُم دبا کے حریفانِ کربلا
اِک قافلہ ہے دین کا اب تک رواں دواں
رہبر بنے حسینؓ ہیں طوفانِ کربلا
تاریخ میں ملی نہیں ایسی کہیں مثال
ہے اُلفتوں کا باب یہ عنوانِ کربلا
بشریٰؔ رہے وہ راضی خدا کی رضا کے ساتھ
عظمت کی ہے مثال شہیدانِ کربلا
(بشریٰ سعید عاطفؔ ۔ مالٹا)
ماں کی جائے نماز
ہو کوئی محمود اور کوئی بنے اُس کا ایاز
رات کی کیا بات جب مصروف ہو جائے نماز
ہے خدا کی نعمتوں سے بھر گیا میرا مکاں
میرے گھر کی سب سے اچھی چیز ہے جائے نماز
لائق اظہار جب کچھ بھی نہ ہو محشر کے دن
کیا خبر کچھ میرے حق میں بول دے جائے نماز
جاگ اٹھیں بھاگ اُسکے جسکے قدموں کو چھوئیں
دن کو مسجد کی صفیں اور رات کو جائے نماز
خوش نصیبی ہے کہ امّت ہیں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی
ہو گئی جس کے لئے ساری زمیں جائے نماز
اِس ادا سے اِس جہاں سے ہو گئے رخصت کئی
تھا بدن بستر پہ اور آنکھوں میں تھی جائے نماز
ہو گی پیاری اوروں کو ترکہ کی کوئی اور چیز
مجھ کو ہے محبوب میری ماں کی اک جائے نماز
(بشیر احمد۔ ٓآسٹریلیا)
(24 جولائی 2021)