• 18 مئی, 2024

حضرت شیخ برکت علیؓ

حضرت شیخ برکت علیؓ ۔ راہوں ضلع جالندھر

حضرت شیخ برکت علی رضی اللہ عنہ ولد مکرم شیخ کرم بخش صاحب راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازًا 1843ء میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک نیک سیرت اور صوم و صلوٰۃ کے پابند انسان تھے۔ آپ کی قبول احمدیت کا قطعی علم نہیں کہ کس سال میں کی، آپ کے بیٹے حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ کے مطابق آپ 1897-98ء سے احمدی تھے (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3) اور آپ کے دوسرے بیٹے حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ نے سنہ بیعت 1895ء لکھا ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ آپ نے حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان گوڑیانی رضی اللہ عنہ یکے از 313 (وفات:9؍جون 1921ء) کی تحریک سے قادیان جاکر بیعت کی۔ (الفضل 4جولائی 1933ء صفحہ9) اگر یہ بات درست ہے تو پھر سنہ بیعت 1899ء ہونا چاہیے کہ اسی سال حضرت ڈاکٹر صاحبؓ افریقہ میں تین سال خدمات سر انجام دینے کے بعد ضلع ہوشیارپور میں متعین ہوئے تھےچنانچہ لکھا ہے: ’’افریقہ کے اکثر احباب ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب ساکن گوڑیانی …. کا پتہ پوچھتے ہیں۔ عام اطلاع کے لیے لکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گڑھ شنکر ضلع ہوشیارپور کے ہسپتال میں متعین ہیں۔ اس سے پیشتر ڈاکٹر صاحب (موضع صاحبہ۔ ناقل) ضلع ہوشیار پور کی پلیگ ڈیوٹی پر نہایت قابلیت کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔‘‘ (الحکم 17؍دسمبر 1899ء صفحہ7) بہر کیف قبول احمدیت کے بعد اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی۔ آپ کی اولاد کو بھی زمرہ اصحاب احمد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے 30؍مئی 1933ء کو صبح سات بجے قریباً 90 سال کی عمر میں چک 95/6.R ضلع منٹگمری میں وفات پائی۔ بوجہ موصی (وصیت نمبر 1033) ہونے کے آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ آپ کی وفات پر آپ کے بیٹے حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ نے آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا:
’’میرے والد ماجد برکت علی صاحب مرحوم راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے۔ آپ نے غالبًا 1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت کی جس سے قبل آپ اہل حدیث اور صوم و صلوٰۃ کے پوری طرح پابند تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ … جب میں گڑھ شنکر میں رہتا تھا تو حضرت صاحب کے اشتہارات آیا کرتے تھے۔ میں اور چودھری امیر بخش صاحب مرحوم ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ نشانات تو پورے ہوگئے ہیں، یہ شخص سچا ہی ہوگا۔ پھر وہاں سلسلۂ ملازمت میں ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم آف گوڑیانی تشریف لائے اور ان کی تحریک پر ہم دونوں قادیان گئے، یکہ سے اترتے ہی سامنے دروازہ سے داخل ہوئے۔ وہاں مرزا نظام الدین صاحب حقہ پی رہے تھے۔ کسی نے کہا مرزا صاحب یہی ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا چلو اِن کے پاس چلیں۔ میں نے کہا جو مسیح موعود ہونے کا مدعی ہو اُس کی حالت ایسی ہو سکتی ہے! چودھری صاحب کے پوچھنے پر مرزا صاحب نے کہا اچھا آپ مرزا غلام احمد سے ملنا چاہتے ہیں، وہ تو اس کمرہ میں (گول کمرہ کی طرف اشارہ کر کے) قید ہے، اس کو باہر نکلنے کا حکم نہیں، وہ شام کو باہر نکلتا ہے اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ اس کا پہرہ دار بیٹھا ہے۔ پھر ہم دونوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی۔

دینی تعلیم کے شوق کی وجہ سے والد صاحب نے ایک حافظ صاحب کو اپنے ہاں رکھ کر تمام بچوں کو قرآن شریف پڑھوایا۔ آپ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے اور یتیمی کی حالت میں خالہ کے ہاں پرورش پائی تھی۔ آپ کے بچے بچیاں اور بہوئیں 71 نفوس پر مشتمل ہیں اور تمام خدا کے فضل سے احمدی ہیں۔ بڑھاپے کی عمر سے قبل آپ باقاعدہ تہجد پڑھتے اور قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے تھے …. تدفین سے قبل ہم نے متفقہ طور پر خاندانی حالات کی سر انجام دہی اور اتفاق کے برقرار رکھنے کے لیے اخویم جان محمد صاحب پنشنر سب انسپکٹر پولیس کو امیر خاندان منتخب کیا …..‘‘

(الفضل 4جولائی 1933ء صفحہ9 کالم1)

آپ کی اہلیہ حضرت عظیم بی بی صاحبہ بھی صحابیہ تھیں، مورخہ 23؍اگست 1932ء کو 80 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔

اولاد

  1. حضرت حکیم غلام محمد صاحبؓ آف قبولہ ضلع ساہیوال (وفات: یکم مئی 1940ء)
  2. حضرت شیخ جان محمد صاحبؓ (وفات: اکتوبر 1942ء)
  3. حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ (وفات: 25؍مئی 1983ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)
  4. حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ (وفات: 12؍دسمبر 1967ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)
  5. حضرت ملک عطا محمد صاحب (وفات: 14؍جون 1936ء بعمر 46 سال مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)
  6. حافظ فقیر اللہ صاحب
  7. شیخ فیض محمد صاحب
  8. ملک غلام احمد صاحب بصیرپور ضلع ساہیوال (وفات: 11؍دسمبر 1966ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)

نوٹ:آپ کی تصویر اور اولاد کی تفصیل آپ کے پڑپوتے اور پڑ نواسے مکرم ملک صفی اللہ صاحب آف ٹورانٹو نے مہیا کی ہے، فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ