• 6 مئی, 2024

قریشِ مکّہ کی قدیم قربانی اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں

قریشِ مکّہ کی قدیم قربانی اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں
ازافاضات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ 

حضرت مصلح موعودؓ نے 52 سال جماعت احمدیہ کی قیادت کی اور اس دور مبارکہ میں آپؓ کی ہدایت اور خاص نظر کے تحت جماعت نے بہت ترقی کی۔ مگر جہاں آپؓ نے جماعت کی حمایت کی اور ہر پریشانی کے وقت جماعت کو سنبھالا، وہاں آپ نے جماعت سے بہت امیدیں بھی رکھیں۔ آپ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

میں اپنے پیاروں کی نسبت
ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
وہ چھوٹے درجہ پہ راضی ہوں
اور اُن کی نگاہ رہے نیچی

(کلام محمود صفحہ142)

پس اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپؓ جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے تو حضرت اسماعیلؑ کو خانہ کعبہ میں اِس لئے بٹھایا تھا کہ وہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کریں لیکن حضرت اسماعیل کی اولاد میں آگے یہ جوش دیر تک قائم نہ رہا جیسے آج بعض سیّد چور بھی ملتے ہیں اور ڈاکو بھی ملتے ہیں۔ کچھ نسل تک تو انہوں نے اِس وعدہ کو یاد رکھا لیکن اِس کے بعد وہ اس وعدے کو بُھول گئے اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سارے عرب میں پھیل گئی۔ بلکہ عرب کے علاوہ شام تک بھی چلی گئی۔ آخر قربِ زمانۂ نبویؐ میں قصَی بن حکیم بن نضر کے دل میں خیال آیا کہ ابراہیمی وعدہ کو تو ہم پورا نہیں کر رہے ہمارے دادا نے تو یہ کہا تھا کہ تم یہاں رہو۔ اِس گھر کی صفائی رکھو۔ خانۂ کعبہ کے حج اور طواف کے لئے جو لوگ آئیں اُن کی خدمت کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنا وقت گذارو مگر ہم اِدھر اُدھر بکھر گئے اور اس خدمت کو جو ہمارے دادا نے ہمارے سپرد کی تھی بھول گئے۔ یہ خیال اُن کے دل میں اتنے زور سے پیدا ہوا کہ انہوں نے بنو نضر کے اندر یہ تحریک شروع کی کہ آؤ ہم لوگ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر مکہ میں جائیں اور خانۂ کعبہ کی خدمت کریں۔ یہ مناسب نہیں کہ ہم دنیوی اغراض کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کو بُھول جائیں اور جو نصیحت انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی اُس کی پروا نہ کریں۔ انہوں نے جب ہمارے سُپرد یہ کام کیا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کی خدمت کریں تو ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم مکہ میں چلے جائیں اور خانہ کعبہ کی خدمت کریں۔ چنانچہ اُن کی قوم نے اُن کی بات مان لی اور وہ سب مکہ میں اکھٹے ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نے کی۔ وہ باہر بڑی بڑی اچھی چراگاہوں میں رہتے تھے، وہ تجارتیں بھی کرتے تھے، وہ زمینداریاں بھی کرتے تھے، وہ اَور کئی قسم کے کاروبار میں بھی حصہ لیتے تھے مگر یکدم ساری قوم نے اپنی زمینیں چھوڑیں، گلہ بانی چھوڑی، زمینداری چھوڑی، تجارت چھوڑی اور ایک وادیٔ غير ذي زرع میں جہاں آمدن کی کوئی صورت نہیں تھی آ بیٹھے۔ میں سمجھتا ہوں اِس قربانی کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی کہ ایک قوم کی قوم اپنے پیشے چھوڑ کر محض اِس لئے ایک وادیٔ غير ذي زرع میں آ بیٹھی کہ اُن کے دادا ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو یہ نصیحت کی تھی کہ تم مکہ میں رہو اور جو لوگ یہاں حج اور طواف اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آئیں اُن کی خدمت کرو۔ یہ ایک بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نے کی۔ پس چونکہ یہ لوگ متفرق ہونے کے بعد پھر اپنے گھر بار چھوڑ کر مکہ میں جمع ہو گئے تھے تا کہ ابراہیمی وعدہ کو پورا کریں اِس لئے اُن کا نام قریش رکھا گیا۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قَرَشَ کے معنے جمع کرنے کے ہیں۔ پس قریش وہ قبیلہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے مکہ میں جمع کیا گیا اور اسی لئے اُن کا نام قریش ہوا۔ انہیں اس لئے قریش نہیں کہتے تھے کہ وہ باقی تمام قبائل عرب پر غالب تھے اور قرش (حضرت مصلح موعودؓ نے بتایا ہے کہ قرش ایک مچھلی کو بھی کہتے ہیں جو باقی تمام سمندری جانوروں پر غالب آ جاتی ہے-ناقل) کی طرح اُن کو کھا جاتے تھے۔ قریش کو عربوں میں یہ شہرت اور عزت رسول کریم ﷺ کے قریب زمانہ میں حاصل ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہ لوگ مجاوروں کی طرح وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور قبائلِ عرب پر ان کو کوئی غلبہ حاصل نہیں تھا۔ پس قریش کے معنے ہیں وہ قبیلہ جو اِرد گرد سے اکٹھا کر کے قصَی بن کلاب بن نضر نے مکہ میں آ بٹھایا تھا یا یوں کہو کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کچھ اولاد قریش کہلائی کیونکہ وہ اِرد گرد سے لا کر مکہ میں بیت اللہ کی خدمت کے لئے لا بٹھائی گئی تھی۔

میں اُوپر بتا چکا ہوں کہ قریش کا نام قریش کیوں پڑا۔ میں نے بتایا ہے کہ اس بارہ میں میری تحقیق یہ ہے کہ اُن کا یہ نام کسی سمندری جانور کی وجہ سے نہیں رکھا گیا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قصی بن کلاب کے وعظ کرنے پر اور یہ توجہ دلانے پر کہ چونکہ ہمارے دادا ابراہیمؑ نے ہمیں مکہ میں رہنے کا ارشاد فرمایا تھا اور ہمارے سپرد خانۂ کعبہ کی خدمت کی تھی ہمیں چاہیے کہ ہم اِرد گرد کے علاقوں کو چھوڑ کر مکہ میں جا بسیں اور وہیں اپنی زندگی بسر کریں۔ وہ مکہ میں آ کر رہنے لگ گئے تھے۔ پس چونکہ وہ قصی بن کلاب بن نضر کے توجہ دلانے پر مختلف مقامات سے اُٹھ کر مکہ میں جا کر بس گئے اِس لئے وہ قریش کہلائے یعنی جمع شدہ لوگ۔ اِس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قریش تو تصغیر کا صیغہ ہے اور معنے یہ ہیں کہ مکہ میں جمع ہو جانے والا ایک چھوٹا سا ٹکڑہ یا ایک چھوٹا سا گروہ پھر کیا وجہ ہے کہ آلِ اسماعیل کو ایک چھوٹا سا گروہ یا چھوٹا سا ٹکڑہ کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکم تو سارے بنو اسماعیل کو تھا کہ وہ مکہ میں رہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور پرستش کریں اور جو لوگ حج اور طواف کے لئے آئیں ان کی خدمت کریں۔ مگر چونکہ بنو کنانہ میں سے صرف نضر بن کنانہ کی اولاد مکہ میں آ کر بسی اور چونکہ وہ سارے بنو اسماعیلؑ میں سے ایک چھوٹا سا گروہ تھا اِس لئے وہ قریش کہلائے یہ بتانے کے لئے ہم تھوڑے سے آدمی ہیں جو اپنے دادا ابراہیم کی بات مان کر یہاں جمع ہو گئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور جو لوگ خانہ کعبہ کے حج کے لئے آئیں اُن کی خدمت کریں۔ اور شاید اس نام میں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ دوسرے قبائل کو بھی مکہ میں جمع ہونے کی تحریک ہوتی رہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی باقی اولاد کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوتا رہے کہ جب ہم سے تھوڑے سے لوگ وہاں بس گئے ہیں اور اُنہوں نے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کر لیا ہے تو ہم بھی تو اولادِ ابراہیمؑ میں سے ہیں اگر ہم بھی وہاں جا بسیں اور اپنے دادا کے حکم کو مان لیں تو اِس میں حرج کیا ہے۔ پس شاید اس تصغیر میں ایک یہ بھی حکمت ہو کہ اس نام سے باقی بنو اسماعیل کے دل میں تحریک ہوتی رہے اور وہ بھی اپنے دادا ابراہیمؑ کی بات کو مانتے ہوئے خدا تعالیٰ کے گھر کی خدمت کے لئے مکہ میں آ بسیں۔ پس ممکن ہے کہ اس نام سے اُنہوں نے دوسرے قبائل کے اندر تحریک کرنے کی ایک صورت پیدا کی ہو اور مکہ میں اُن کے جمع ہونے کے لئے ایک تحریک جاری کی ہو۔

غرض قصی بن کلاب کی تحریک پر یہ لوگ آئے اور مکہ میں بس گئے مگر ابتداء میں عرب کی توجہ حج کی طرف اتنی نہیں تھی کہ وہ مکہ میں کثرت سے آتے جاتے اور خانہ کعبہ کی برکات سے مستفیض ہوتے۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ قوم جو اپنے دادا کی ہدایت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی پیشگوئیوں کے باوجود خانہ کعبہ کو چھوڑ کر چلی گئی۔ اگر حاجی کثرت سے مکہ میں آتے ہوتے تو اِن لوگوں کے رزق کے سامان پیدا ہوتے رہتے اور وہ اُن کو مکہ چھوڑنے کی مجبوری پیش نہ آتی۔ پس آلِ اسماعیل کا مکہ کو چھوڑ کر دوسرے عرب علاقوں میں پھیل جانا اِس امر کا ثبوت ہے کہ اس وقت تک خانہ کعبہ کے حج کا رواج عرب میں کم تھا اور بہت تھوڑے لوگ حج کے لئے آتے تھے۔ مجاوروں کو ہی دیکھ لو اُن کا کام کتنا ذلیل ہے اُسے دیکھ کر شرم آنے لگتی ہے۔ مگر کیا وہ اس ذلیل کام کو بھی آسانی سے چھوڑنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ باوجود اِس کے کہ وہ ایک قابل نفرت کام میں اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہوتے ہیں پھر بھی اس کام سے اُن کا جتنا رزق وابستہ ہوتا ہے چاہے وہ رزق ذلّت سے ہی آئے اُسے وہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ پس اگر بنو اسماعیل نے مکہ چھوڑا تو یقیناً اس کے معنی یہ تھے کہ اُس زمانہ میں بہت ہی کم لوگ حج کیا کرتے تھے اور اُن کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اس لئے یہ لوگ مکہ سے نکلے اور تمام عرب میں پھیل گئے۔ جب قصی بن کلاب کی تحریک پر یہ لوگ مکہ میں جا بسے تو یہی دقّت اُن کو پھر پیش آئی۔ وہ بس تو گئے مگر چونکہ حاجی بہت کم آتے تھے اور یہ لوگ وہیں مکہ میں رہتے تھے باہر کہیں آتے جاتے نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سخت تنگی اور عسر کی حالت میں مبتلا ہو گئے اور اُن کے گذارہ کی کوئی صورت نہ رہی بلکہ بعض لوگوں کی تو فاقہ تک نوبت پہنچ گئی اور ان کے لئے اپنی عزت اور زندگی کا قائم رکھنا مشکل ہو گیا۔ مگر پھر بھی قریش کو داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے ان تمام صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور اپنی زبان پر وہ ایک لمحہ کے لئے بھی حرفِ شکایت نہ لائے۔ اوّل تو اُن کی یہی بہت بڑی قربانی تھی کہ انہوں نے اپنے کام کاج چھوڑے، پیشوں کو ترک کیا، تجارتوں کو نظر انداز کیا، زمینداروں سے مُنہ موڑا اور ایک وادیٔ غير ذي زرع میں جہاں روزی کا کوئی سامان نہ تھا، اہل و عیال کو لے کر رہنا شروع کر دیا۔ مگر پھر بھی کوئی کہہ سکتا تھا کہ قریش کا مکہ میں بسنا کوئی ایسی قربانی نہیں جس کی تعریف کی جا سکے کیونکہ مکہ کی عزت لوگوں میں بہت پھیلی ہوئی تھی اور لوگ وہاں حج کے لئے آتے جاتے تھے اِس لئے ممکن ہے وہ دولت یا عزت کی خواہش کی وجہ سے مکہ میں جا کر بس گئے ہوں۔ سو چونکہ یہ اعتراض پیدا ہو سکتا تھا اِس لئے خدا تعالیٰ نے اُن کی عزت ظاہر کرنے کے لئے پھر دوسری دفعہ ان کو قربانی کا موقع دیا۔ مکہ میں بسنے سے اُن کے گذارہ کی کوئی صورت نہ رہی۔ حج کی طرف عربوں کو بہت کم توجہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ فاقوں کی وجہ سے جانوں کے اتلاف تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ لوگ کافر بھی تھے، مشرک بھی تھے، بے دین بھی تھے اور اُن میں سینکڑوں قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں لیکن اس قوم میں بعض غیر معمولی خوبیاں بھی تھیں۔ مکہ کے لوگوں میں سے کسی خاندان کے پاس کھانے پینے کا سامان بالکل ختم ہو جاتا اور اُس کی حالت غیر ہو جاتی۔ وہ دوست بھی جو ان کی حالت سے آگاہ ہوتے مدد سے لاچار ہوتے کیونکہ وہ خود بھی غریب ہی ہوتے تھے تو وہ فاقہ کش لوگ قصی پر اعتراض نہیں شروع کر دیتے تھے کہ اُس نے ہمیں غلط تعلیم دی تھی ہم مکہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم نے بےوقوفی کی کہ ایسی جگہ آ بسے جہاں روٹی کا کوئی سامان نہیں تھا بلکہ وہ خاندان اُسی وقت اپنا خیمہ اٹھا کر مکہ سے ذرا باہر چلا جاتا (مکانوں کا رواج عرب میں بہت کم تھا بلکہ اب تک بھی بادیہ کے لوگ خیموں میں رہتے ہیں) اور مکہ سے دو تین میل پرے اپنا خیمہ لگا لیتا اور اپنے بیوی بچوں کو بھی وہیں لے جاتا تاکہ اُس کے رشتہ داروں، دوستوں اور محلہ والوں کو اُس کی اِس بُری اور خراب حالت کا پتہ نہ لگے۔ اور وہیں وہ سب کے سب بھوکے مر جاتے۔ میں سمجھتا ہوں یہ اس قسم کی قربانی ہے کہ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو وہ فوراً کسی دوسری جگہ جا کر اپنی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ دوسروں سے سوال کر نے سے بھی گریز نہیں کرتے اور صبر اور برداشت کی قوت کو بالکل کھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے صوفیاء نے ایک لطیفہ لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں شہر چھوڑ کر باہر جنگل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کروں گا وہ کھانا بھیج دے گا تو کھالوں گا اور اگر نہ بھیجے گا تو فاقہ کروں گا۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے شہر سے باہر ڈیر ے لگا لئے ہیں تو ان کی بزرگی اور تعلقات کی وجہ سے دوستوں نے ان کو باقاعدہ صبح و شام کھانا پہنچانا شروع کر دیا مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ انہیں کھانا نہ پہنچا۔ شاید ان سے زیادہ تعلق رکھنے والے لوگ کہیں باہر چلے گئے تھے یا شاید ان میں سے ہر ایک نے یہ سمجھا کہ دوسرے نے کھانا بھیج دیا ہو گا۔ اور اس طرح کوئی شخص بھی کھانا نہ لایا۔ ایک وقت گذرا اور انہیں کھانا نہ ملا۔ دوسرا وقت آیا تب بھی کھانا نہ آیا۔ اس کے بعد تیسرا وقت آ گیا مگر انہیں پھر بھی کھانا نہ پہنچا۔ تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں اور پانچویں کے بعد چھٹا فاقہ اُن پر آ گیا۔ جب چھ فاقے ہو گئے تو اب ان کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو گیا وہ کسی طرح گرتے پڑتے شہر میں آئے اور اپنے کسی دوست کے ہاں جا کر اُس سے خواہش کی کہ وہ اُنہیں کچھ کھانے کو دے۔ اُس نے تین روٹیاں اور اُن پر کچھ سالن رکھ کر پیش کیا۔ انہوں نے روٹیاں اٹھائیں سالن لیا اور باہر جنگل کو چل پڑے۔ کچھ دُور جا کر انہوں نے دیکھا کہ گھر کے مالک کا کتا بھی ان کے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ انہیں خیال آیا کہ اس کتے کا بھی اِن روٹیوں پر حق ہے۔ اس پر انہوں نے ایک روٹی لی اُس پر سالن کا تیسرا حصہ رکھا اور کتے کے آگے ڈال دیا۔ اس نے جلدی جلدی روٹی کھائی اور پھر ان کے پیچھے چل پڑا۔ وہ تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ پھر ان کو خیال آیا کہ کتا تو ابھی پیچھے چلا آ رہا ہے معلوم ہوتا ہے ابھی اِسے سیری نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کتا شاید اس لئے ان کے پیچھے گیا ہو گا کہ وہ اس کے مالک کے دوست تھے اور کتا ان کو اکثر آتے جاتے دیکھتا ہو گا۔ کتا جہاں اپنے آقا کے ساتھ محبت رکھتا ہے وہاں وہ اپنے آقا کے ساتھ ملنے والوں کو بھی خوب پہچانتا ہے بہت ہی ذہین جانور ہے۔ مگر انہوں نے تصوّف کے اثر کے پیچھے یہ سمجھا کہ شاید یہ اپنا حق مانگتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کتے کو دیکھ کر کہا بے شک تیرا حق مجھ سے زیادہ ہے تُو تو ہر وقت وہاں بیٹھا رہتا ہے مگر میں تو کبھی کبھار جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر انہوں نے دوسری روٹی لی اس پر بقیہ سالن کا نصف حصہ رکھا اور اسے کتے کے آگے ڈال دیا۔ کتے نے وہ روٹی بھی کھا لی مگر پھر بھاگ کر ان کے پیچھے چل پڑا۔ اب کتا ان کے پیچھے چلا تو انہیں بہت غصہ آیا اور جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ جانوروں سے بھی باتیں کرنے لگتا ہے۔ ہمارے ملک میں بیل چلانے والے بیل سے باتیں کرتے ہیں۔ گدھے چلانے والے گدھوں سے باتیں کرتے ہیں۔یکے والے آدھی باتیں سواری سے کرتے ہیں اور آدھی باتیں گھوڑے سے کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں شاباش قدم اٹھائے چلا جائیں تجھے خوب گھاس کھلاؤں گا۔ کبھی نہیں چلتا تو غصہ میں اسے گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح جب انہوں نے بھی دیکھا کہ کتا ابھی تک پیچھے چلا آ رہا ہے تو انہوں نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا اور کہا بے حیا دو روٹیاں تو میں ڈال چکا ہوں مگر پھر بھی تو میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ انہوں نے یہ بات کہی ہی تھی کہ ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ وہی کتا ان کے سامنے کھڑا ہے۔ کشف میں جانور بھی باتیں کر لیتے ہیں۔ زمین بھی بات کر لیتی ہے۔ لکڑی بھی بات کر لیتی ہے۔ اس لئے کتے کی بات پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے دیکھا کہ کتا ان کے سامنے کھڑا ہے اور وہ ان سے کہہ رہا ہے کہ بے حیا میں ہوں یا تم۔ میں جس انسان کے دروازہ پر بیٹھا ہوں اسے میں نے کبھی نہیں چھوڑا خواہ فاقوں پر فاقے کیوں نہ آئیں۔ مگر تم محض خدا کے لئے جنگل میں جا بیٹھے تھے لیکن چند فاقے ہی آئے تھے کہ شہر کی طرف اُٹھ بھاگے۔ اس نے اتنا کہا اور کشفی حالت جاتی رہی۔ انہوں نے تیسری روٹی اور باقی سالن بھی کتے کے آگے ڈال دیا اور خود خالی ہاتھ جنگل کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے ہی تھے کہ تھوڑی دیر میں اُن کے دوست اور کئی دوسرے لوگ کھانا لیے ہوئے آ پہنچے اور ان سے معذرت کرنے لگے کہ پچھلے چند دنوں وہ اس خدمت سے محروم رہے۔ ان بزرگ نے کہا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرا امتحان لیا گیا تھا۔ اب اس قصہ کو مکہ کے لوگوں کے حالات سے مقابلہ کر کے دیکھو وہ لوگ مشرک تھے لیکن ان میں محمد رسول اللہ ﷺ کی امت بننے کی قابلیت خدا تعالیٰ پیدا کر رہا تھا۔ یہ کتنی بڑی قربانی ہے کہ وہ مکہ سے کچھ فاصلہ پر خیمے لگا لیتے اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہیں بھوک سے تڑپ کر مر جاتے مگر مکہ کو نہ چھوڑتے تھے اور نہ دوسرے لوگوں سے سوال کرتے۔ اس سے ایک طرف تو ان کے اس جوش کا پتہ لگتا ہے جو ان کے دلوں میں خانہ کعبہ کی خدمت کے متعلق تھا اور دوسری طرف ان کی قناعت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگوں پر بار نہیں بنتے تھے۔ کسی سے کچھ مانگتے نہیں تھے۔ الگ تھلگ ایک خیمہ میں پڑے رہتے اور وہیں سب کے سب مر جاتے۔ میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت جو اس امر کی مدّعی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تعلیم پر ایمان رکھتی اور اُس کے نور کی حال ہے اُس کے افراد کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد اور آپ کے خاص اتباع کی اولاد کو میں ان کے اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ دین کے لئے قربانی اور ایثار کا وہ مادہ ابھی تک ان میں پیدا نہیں ہوا جو احمدیت میں داخل ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ایمان لانے کے بعد اُن میں پایا جانا چاہیے تھا۔ اُن کا قدم نہایت سُست ہے اور اُن کے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ ابھی بہت کم ہے۔ یقیناً اس معیار کے ساتھ ہم کبھی بھی دنیا پر غالب نہیں آ سکتے جب تک ہم میں سے ہر شخص یہ نہیں سمجھ لیتا کہ وہ غرض جس کے لئے وہ اس سلسلہ میں شامل ہوا ہے اور وہ مقصد جس کے لئے اس نے بیعت کی ہے وہ دوسری تمام اغراض اور دوسرے تمام مقاصد پر مقدم ہے اُس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے اپنے ایمان کا کوئی اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اولاد کے لئے تو ایسے کام کرنا جن سے دین کی خدمت میں روک پیدا ہو قطعی طور پر ناجائز ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ ویسا ہی دنیا دار شخص ہے جیسے کوئی اَور لیکن دوسروں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے اندر یہ مادہ ہونا چاہیے کہ جب دین کی طرف سے انہیں آواز آئے وہ اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر فوراً چلے آئیں اور اپنے آپ کو دینی خدمات میں مشغول کر دیں۔ اب اگر وہ دنیا کا کام کرتے ہیں تو اس لئے کہ ابھی دین کو ان کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن اگر ضرورت پیش آ جائے تو پھر ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیعت کے وقت انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ اِس دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کے عہد کے آخر کوئی معنے تو ہونے چاہئیں۔ اس کے تم کوئی ادنی سے ادنی معنی کر لو آخر کسی نہ کسی چیز کو تمہیں بہر حال اپنے کاموں پر مقدّم رکھنا پڑے گا۔ اگر اس عہد میں تم مال شامل کرو تو تمہیں مال پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔ اگر جان شامل کرو تو تمہیں جان پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔ اگر خدمت شامل کرو تو تمہیں ہر قسم کی خدمت پر دین کو مقدّم رکھنا پڑے گا۔ بہر حال کوئی نہ کوئی مفہوم تمہیں اِس اقرار کا تسلیم کرنا پڑے گا اور جب یہ اقرار ہر احمدی نے کیا ہے تو ہماری جماعت کے افراد کو سوچنا چاہیے کہ اس اقرار کے بعد وہ کیا کر رہے ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے احمدی موجود ہیں جو سَو میں سے 51 روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔ مقدّم کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ میں اَور کاموں پر اِس کام کو ترجیح دیتا ہوں۔ اگر انہیں سَو روپیہ اپنے اخراجات کے لئے ملتا ہے اور وہ دیانت داری کے ساتھ اپنے تمام کاموں پر دین کو مقدّم سمجھتے ہیں تو اس کا ثبوت اسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ سَو میں سے 51 روپے دین کے لئے خرچ کرتے ہوں۔ مگر کیا وہ ایسا کرتے ہیں؟ کیا وہ دن رات کے 24 گھنٹے دین کے کاموں پر صَرف کرتے ہیں؟ یا قربانی اور ایثار کے لحاظ سے وہ اپنے بیوی بچوں اور دوسری چیزوں پر دین کو مقدّم کرتے ہیں؟ یا وطن کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدّم سمجھتے ہیں؟ یا جان کے لحاظ سے وہ دین کو دنیا پر مقدّم سمجھتے ہیں؟ آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہیے جس کے لحاظ سے وہ کہہ سکتے ہوں کہ ہم دین کو دینا پر مقدّم کر رہے ہیں۔ اگر ہر احمدی اِس نقطۂ نگاہ سے غور کرے اور اسے اپنے اندر ایک بات بھی ایسی نظر نہ آئے جس میں وہ دین کو دنیا پر مقدّم کر رہا ہو تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ محض منافقت کی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدّم کرتا ہوں مگر عمل یہ ہے کہ وہ کسی ایک چیز کے لحاظ سے بھی دین کو دنیا پر مقدّم نہیں کرتا۔ آخر کوئی ایک چیز تو ہونی چاہیے جس کے متعلق وہ کہہ سکے کہ میں فلاں چیز کے لحاظ سے دین کو دنیا پر مقدّم کر رہا ہوں۔ اور اس عہد کا کوئی نہ کوئی مفہوم تو ہونا چاہیے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عہد ہم سے صرف اتنا تقاضا نہیں کرتا کہ ہم کسی ایک پہلو میں دین کو دنیا پر مقدّم کریں بلکہ ہر بات میں اور اپنے ہر کام میں ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم کریں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے ہر کام میں دین کو دنیا پر مقدّم نہیں کر سکتا اسے کم از کم یہ تو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کسی ایک کام میں ہی دین کو دنیا پر مقدم رکھے تاکہ وہ کہہ سکے کہ میں اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ کوشش خواہ وہ مال کے لحاظ سے کرے، خواہ وطن کی محبت کے لحاظ سے کرے، خواہ ملازمت کے لحاظ سے کرے، خواہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے تعلقات کے لحاظ سے کرے، خواہ عبادت کے لحاظ سے کرے، خواہ قربانی اور ایثار کے لحاظ سے کرے، بہر حال کوئی ایک چیز تو ایسی ہونی چاہیے جسے وہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہو اور کہہ سکتا ہو کہ جن کاموں کا مجھے موقع ملا ہے ان میں میں نے دین کو دنیا پر مقدّم کر لیا ہے اور جو باقی کام ہیں ان میں بھی میں پوری طرح تیار ہوں کہ اس عہد کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروں۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا دعویٰ ٔ ایمان محض ایک منافقانہ فعل ہے جو اس کے کسی کام نہیں آ سکتا۔ تم قریش کے اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ باوجود اس کے کہ یہ لوگ سچے دین کے حامل نہیں تھے، باوجود اس کے کہ یہ لوگ بت پرست تھے، باوجود اس کے کہ یہ لوگ بے دین تھے انہوں نے کتنی عظیم الشان قربانی کی۔ یہ لوگ اپنی قوم پر بوجھ نہیں بنے انہوں نے کہا ہم خدا کے لئے آئے تھے ہماری قوم کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری خدمت کرے۔ وہ خیمہ اُٹھا کر مکہ سے باہر چلے جاتے۔ باپ کے سامنے اس کا بیٹا مرتا، ماں کے سامنے اس کی بیٹی مرتی، بیوی کے سامنے اس کا خاوند مرتا، بچوں کے سامنے اس کا باپ مرتا، دوست کے سامنے دوست اور رشتہ دار کے سامنے رشتہ دار مرتا مگر کیا مجال کہ اُن کی زبان پر کوئی شکایت آتی۔ کیا مجال کہ وہ اُس جگہ کو چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے۔ اتنی بڑی مصیبت دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے اس جگہ کو نہیں چھوڑا۔ وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے، وہ کسی نشان کو دیکھ کر وہاں نہیں آئے تھے، وہ کسی تازہ تعلیم پر ایمان لا کر وہاں نہیں آئے تھے، دو ہزار سال پہلے ان کے دادا ابراہیمؑ نے ایک بات کہی تھی اور وہ اپنے دادا کے وعدہ کے مطابق اس سرزمین میں آ بسے۔ اُن پر فاقے آئے مگر انہوں نے اس جگہ کو نہ چھوڑا۔ اُن میں فاقہ سے موتیں ہوئیں مگر انہوں نے اس جگہ کو نہ چھوڑا۔ انہوں نے سالہا سال غربت اور تنگی اور افلاس میں اپنی زندگی کے دن بسر کیے۔ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا اُن کے پاس گذارہ کا کوئی سامان نہیں تھا مگر انہوں نے کہا ہم اس مقام کو اب نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم مٹ جائیں گے ہم ایک ایک کر کے فنا ہو جائیں گے مگر ہم مکہ کو چھوڑ کر کہیں باہر نہیں جائیں گے۔ یہ اتنی عظیم الشان قربانی ہے کہ یقیناً اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ98-103)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضورؓ کی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(جاذب محمود۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ