• 17 مئی, 2024

گھر بستے بستے، بستے ہیں

حدیقة النساء
گھر بستے بستے، بستے ہیں

گھر محض ایک لفظ نہیں بلکہ یہ ایک دنیا ہے ایک پوری کائنات اس کا مطلب بھی ہر کسی کے لیے الگ الگ ہے۔ کوئی اسے جنت نظیر کہتا ہے تو کسی کے لیے گھر کا تصور ہی جہنم سے بدتر ہوتا ہے۔ کوئی اس کے مکینوں پر جان چھڑکتا ہے تو کوئی ان مکینوں سے جان چھڑوانا چاہتا ہے۔ مرد عورت جب نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو پھر وہ ایک گھر کی بنیاد رکھتے ہیں اب یہ ان پر منحصر کرتا ہے کہ وہ اس گھر کی بنیاد سچائی، اخلاص،وفا،اعتبار سے رکھتے ہیں یا اس کی بنیادوں میں دغا بازی،جھوٹ اور نفرت کی اینٹیں لگاتے ہیں۔یہ بنیاد بہت سوچ سمجھ کر رکھنی پڑتی ہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسل کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جس گھر کی بنیاد دعا اور محبت سے ہو وہ گھر کبھی برباد نہیں ہوتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ:
‘‘اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خداتعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا’’

(ملفوظات جلد3 صفحہ232 ایڈیشن 1988ء)

اور یہ نسخہ بہت سے لوگوں کا آزمودہ بھی ہے کہ جن گھروں کے مکین دعا گو ہوتے ہیں ان کے گھر کے حالات اگر وقتی طور پر خراب ہو بھی جائیں تو خدا تعالیٰ دعاؤں کے نتیجے میں بہتر کر دیا کرتا ہے۔ ہر انسان ایک خوبصورت گھر،مخلص ساتھی چاہتا ہے۔ لیکن قانون قدرت ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ سعیٰ کرتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں لوگ دوسروں کے تصاویر اور اسٹیٹس، اسٹوریز دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر وقت اپنا موازانہ دوسروں سے کرتے ہیں۔ نوجوان نسل میں خاص کر عدم برداشت کے سبب انہیں اپنا آپ سب سے کمتر لگتا ہے وہ بھی وہ سب کچھ پانا چاہتے ہیں جو وہ دوسروں کے پاس دیکھتے ہیں۔ اکیلا گھر جہاں سسرال کا کوئی تصور نہ ہو۔ ملازمین، اچھی گاڑی، برینڈڈ اشیاء اور ایک ایسا ساتھی جو ان کے کہے پر دن کو رات اور رات کو کہنے والا اور ناممکن کو ممکن بنا دینے والا ہو لیکن انہیں اس سب کے لیے نہ ہاتھ ہلانا پڑے نہ ہی کوئی قربانی دینے پڑے۔ اول تو جو کچھ ہمیں دوسروں کے بارے میں نظر آرہا ہوتا ہو ضروری نہیں کہ وہ سب سچ ہو۔ بقول شاعر

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

دوسرا جن لوگوں کو یہ سب کچھ حاصل ہوا انہوں نے اس کے لیے کیا کچھ قربان کیا۔ کن تکالیف کے پہاڑ عبور کیے ان کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں۔ ابھی ایک خبر میری نظر سے گزری کہ انڈیا کے ایک گلوکار کو گردے کی ضرورت تھی تو اس کی بھابی نے اسے اپنا گردہ دے دیا حالانکہ وہ پھر بھی زندہ نہیں بچا لیکن یہ کوئی چھوٹی قربانی نہیں تھی اور اس قربانی کے بعد اس کی ساس اس کا شوہر اسے کس قدر عزت و محبت دے رہے تھے اس کا نام کس عقیدت سے لے رہے تھے وہ قابل دید تھا۔ تو انسانی جسم تو ویسے ہی فانی ہے لیکن ایک قربانی سے اس عورت نے اپنا مقام ومرتبہ دنیا کے سامنے کتنا بلند کر لیا۔ اس کے علاوہ بھی اپنے اردگرد دیکھیں تو بے شمار مثالیں دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی عورت اپنی نند کے جہیز کے لیے اپنی خوشی سے اپنا سامان دے دیتی ہے تاکہ اس کے شوہر اور سسرال والوں پر مالی بوجھ کم ہو جائے۔کوئی اپنے شوہر کے مشکل وقت میں اپنے قیمتی زیور فروخت کر کے اس کی مدد کر دیتی ہے۔ کوئی اپنے اپاہج ساس سسر کی خدمت کر کے شوہر کے دل کو فتح کر لیتی ہے تو کسی نے معذور دیور نندوں کے ساتھ کڑا وقت گزار کر اپنے آپ کو بہترین ساتھی کے منصب پر فائز کیا ہوتا ہے۔ کوئی طلاق یافتہ یا بیوہ نند اور اس کے بچوں کی ذمہ داریاں اٹھانے میں اپنے شوہر کا دایاں بازو بنی رہی ہوتی ہے۔ تو کسی نے طویل عرصے غربت کا مزا چکھا ہوتا ہے اور بنا شکوہ و شکایت کیے ہر حال میں وفا نبھائی ہوتی ہے۔ تو ایسے میں وہ رحمان و رحیم ذات بھی اسے مایوس نہیں کرتی بلکہ ہر عمل کا اجر بڑھا کر لوٹاتی ہے۔ ان سب یا ان کے علاوہ بھی اگر آپ نے اپنے گھر کو خوبصورت بنانے کے لیے بے غرض ہو کر قربانیاں دیں لیکن پھر بھی شوہر یا سسرال والوں کے دل نہیں جیت پائیں تو پھر وہی ایک ہتھیار جو اوپر بتایا گیا دعا سچے دل سے تڑپ کر وہی راتوں کے تیر جن کے نشانے کبھی خطا نہیں جاتے کبھی نہیں چوکتے ہمیشہ ٹارگٹ پر لگتے ہیں۔ اسے آزمائیے اور ہمیشہ اسی ذات پر توکل رکھیں کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے

آپ کا بے غرض عمل بھی اور ریاکاری بھی اس کی رسائی تو ہماری سوچ تک ہے۔ تھوہر کے بیج بو کر گلاب کی آرزو عبث۔ اسی لیے بے غرض ہو کر اور اس پاک ذات پر توکل رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں اس بات پر کامل یقین رکھیے کہ

وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا

(مریم: 65)

اور تیرا ربّ بھولنے والا نہیں۔

انسان بھول سکتے ہیں آپ کی نیکیوں کو سراہنا لیکن وہ ہمارے کسی بھی نیک عمل کو ہر گز فراموش نہیں کر سکتا وہ نہ صرف اس کی قدر کرتا ہے بلکہ اس کا اجر کسی نہ کسی رنگ میں ہمیں بڑھا چڑھا کر واپس کرتا ہے۔ تو بس اپنے گھروں کو قربانی کے فرنیچر اور ایثار کے ڈیکوریش سے سجائیں۔ بے ریاری کا چھڑکاؤ کر کے مہکائیں اور خلوص و چاہت کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں۔ دعا کو جگہ جگہ گلدانوں میں سجائیں مکین ایک دوسرے کی صرف خوبیوں پر نظر رکھنے والے ہوں اور خامیوں سے صرف نظر کرنے والے ہوں۔ گرم جوشی اور الفت کی چادر سے ایک دوسرے کو ڈھانپنے والے ہوں پھر دیکھیں آپ کے گھر سے اچھا گھر کرہ ارض پر کسی کا نہ ہو گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ لجنہ خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عورت کے مقام کا وہ حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے جس سے ایک سلجھی ہوئی قابل احترام شخصیت کا تصور ابھرتا ہے۔ وہ جب بیوی ہے تو اپنے گھر کی حفاظت کرنے والی ہے جہاں خاوند جب گھر واپس آئے تو دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنت کا لطف اٹھا رہے ہوں۔ جب ماں ہو تو ایک ایسی ہستی کہ جس کی آغوش میں بچہ اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھ رہا ہے۔ جب بچے کی تربیت کر رہی ہے تو بچے کے ذہن میں ایک ایسی فرشتہ صفت ہستی کا تصور ابھر رہا ہو جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی جس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے اس لئے جو بات کہہ رہی ہے وہ یقینا ًصحیح اور سچ ہے اور پھر بچے کے ذہن میں یہی تصور ابھرتا ہے کہ میں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔ اسی طرح جب وہ بہو ہے تو بیٹیوں سے زیادہ ساس سسر کی خدمت گزار ہو اور جب ساس ہے تو بیٹیوں سے زیادہ بہوؤں سے محبت کرنے والی ہو اسی طرح مختلف رشتوں کو گنتے چلے جائیں جو اسلام کی تعلیم کے بعد عورت اختیار کرتی ہے تو پھر ایسی عورتوں کی باتیں اثر بھی کرتی ہیں اور ماحول میں ان کی چمک بھی نظر آرہی ہوتی ہے

(جلسہ سالانہ جرمنی 2003ء)

تو بس اپنے گھروں کو بسانے کے لیے جو قربانی بھی آپ کے حصے میں آرہی ہو اسے دینے سے دریغ نہ کریں اور یہ یقین رکھ کر قربانی دیں کہ اس کےبے شمار اچھے ثمرات آپ کے گھر کے آنگن میں ہمیشہ اگتے رہیں گے۔ اس بات پر اعتبار کیجیے کہ گھر بستے بستے ہی ہیں۔ ہر کسی کو سب کچھ پلیٹ میں رکھا ہوا نہیں ملتا۔ کچھ لوگوں کو اپنے لیے خود محنت کرنا پڑتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم ایسے محبت بھرے گھر کی بنیاد رکھنے والے ہوں جس کی عمارت اتنی خوبصورت،اتنی دیدہ زیب ہو کہ ہمارے گھر کے افراد دنیا کا ہر سکون، ہر خوشی، ہر راحت بس وہاں محسوس کریں ان کے لیے زمین پر جنت نظیر ہو۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین اللّٰھم آمین

ہر احمدی گھر کے مکین کے لیے صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کے یہ اشعار۔

جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے پہ جان دیں
بھرم محبتوں کا اور عزتوں کا مَان دیں
وہ جن کے سینے چاہت و خلوص کا جہان ہوں
جبیں پہ جن کی ثبت پیار کے حسیں نشان ہوں
جہاں نہ بد لحاظ ہو کوئی نہ بد زبان ہو
جہاں نہ بد سرشت ہو کوئی نہ بد گمان ہو

(’’ہے دراز دست دعا مرا‘‘ صفحہ307-310)

(صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ