• 18 مئی, 2024

ہومیوپیتھی

حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات جماعت پر ہی نہیں ساری دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ہومیوپیتھی کی ترویج واشاعت بھی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اُس وقت جماعت میں ہومیوپیتھی کو رواج دینا شروع کیا جب دنیا اس کو چھوڑ رہی تھی۔

ہو میوپیتھی یوں تو 18 ویں صدی کے آخر میں باقاعدہ دریافت ہو چکی تھی لیکن اسے مقبولیتِ عام انیسویں صدی کے آخر سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک حاصل ہوئی۔ انٹی بائیوٹکس کی دریافت اور پھر ان کی بےحد مقبولیت کے بعد جب دنیا کی ہومیو پیتھی سے توجہ ہٹ رہی تھی اس وقت حضرت مصلح موعودؓ اِس طریقہ علاج کو جماعت میں متعارف فرمارہے تھے۔

اسی حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے ہومیوپیتھک کا شوق ہے اور میں محض خدمت خلق کے طور پر بیس سال سے مفت علاج کر رہا ہوں اور میرے کتب خانہ میں اتنی کتابیں ہیں جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے کتب خانوں میں بھی نہیں۔‘‘

(تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1958ء)

ہومیو پیتھی کی تاریخ تقریباً 200 سا ل سے زیادہ پرا نی ہے۔ ہومیو پیتھی جس طبی فلسفے کے تحت معرض وجود میں آئی، وہ فلسفہ یہ تھا کہ انسانی جسم کو قدرت نے ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ بیماریوں سے خود نبردآزما ہو کر اپنا علاج کر سکتا ہے۔

ہومیو پیتھی طریقہ علاج دراصل اسی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے جسے ’قوت مدافعت‘ کہتے ہیں اسے ’علاج بالمثل‘ کہتے ہیں۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مادہ زیادہ مقدار میں ایک صحت مند انسان کو دیا جائے تو وہ اس شخص میں بیماری کا ذریعہ بنے گا مگر اسی مادے کو ایک بیمار فرد کو خفیف مقدار میں استعمال کروایا جائے تو اس سے اسی بیماری کا علاج ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہومیو پیتھی میں انسانی بدن میں پیدا ہونے والی بیماریوںکا علاج انھی مادوں سے کیا جاتا ہے کہ جو بیماریاں پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ ہومیو پیتھک ادویات پودوں اور قدرتی معدنیات سے حاصل کردہ اجزاء سے تیار کی جاتی ہیں جن کی انتہائی کم مقداراستعمال میں لائی جاتی ہے۔

ہومیو پیتھی طریقہ علاج کا بانی

ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی بنیاد رکھنے کا سہرا جرمن معالج سموئیل ہانیمن کے سر ہے جو 1755ء میں جرمنی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دو سال میڈیکل کی تعلیم لیپزگ میں حاصل کی مگر یہاں پر طبی سہولتوں کے فقدان کے پیش نظروہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا چلےگئے اور یونیورسٹی آف ایرلانگن سے 1779ء میں میڈیکل ڈاکڑ بنے اور ڈریسڈن میں میڈیکل کی عملی پریکٹس شروع کر دی۔ ڈاکڑ ہانیمن کو مختلف زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں انگلش، فرینچ، اٹالین، یونانی اور لاطینی زبانیں شامل ہیں۔ اپنی پریکٹس کے ساتھ ساتھ ڈاکڑ ہانیمن نے بطور مترجم سائینٹیفک اور طب سے متعلقہ کتابوں کا ترجمہ کا کام بھی جاری رکھا۔

ہومیو پیتھی کی ایجاد

1781ء سے شروع ہونے والی میڈیکل پریکٹس کے دوران متعدد بارڈاکڑ ہانیمن ایلو پیتھک دواؤں کے اثرات سے پوری طرح سے مطمئن نہیںتھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بعض دوائیں مریض کیلئے شفاء کا سبب بننے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر ہانیمن اپنے ان خیالات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔

پھر ایسا وقت بھی آیا کہ جب انھوں نے اسی وجہ سے میڈیکل پریکٹس کو خیر باد کہا اور صرف لکھاری اور مترجم کا کام کرنے لگے مگر مختلف دواؤں کے اثرات کے حوالے سے تحقیق بھی جاری رکھی۔ ولیم کولین کی ایک کتاب A Treatise on the Materia Medica کا ترجمہ کرتے ہوئے ڈاکڑ ہانیمن نے اپنے بعض تجربات کو بنیاد بناتے ہوئے علاج بالمثل کانظریہ پیش کیا جو بعد میں ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی بنیاد ثابت ہوا۔

1790ء میں ڈاکڑ ہانیمن نے ہومیو پیتھی کو ایجاد کیا اور پہلی بار اس موضوع پر طبی رسالوں میں مضمون لکھنے شروع کئے جنہیں بہت پذیرائی ملی۔ اس طرح اس فلسفہ کے بارے میں لوگوں کو آگہی ملی۔ ڈاکڑ ہانیمن نے انسانی جسم میں موجود ایک زبردست دفاعی نظام کی تفصیلات کا بہت گہرائی کے ساتھ کھوج لگایا اور پھر اپنے مشاہدات سے اسے ثابت بھی کیا جس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان کو کیسی طاقتیں عطا کر رکھی ہیں اور اس پر یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔

ہومیو پیتھک علاج کی مقبولیت

یہ طریقہ علاج سترھویں صدی کے آخر میں متعارف ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے ایسا مقبول ہوا کہ مختلف یورپی ممالک کے عوام اسی پر اعتماد کرنے لگے، بعدازاں باقی دنیا میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سے استفادہ کرنے لگی۔ اندازاً مجموعی طور پر 20کروڑ افراد باقاعدگی کے ساتھ ہومیو پیتھی کو اپنے طبی مسائل حل کرنے کے سلسلے میںاستعمال کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہومیو پیتھی طریقہ ہائے علاج میں ایلوپیتھک طریقہ علاج کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے جو تقریباً 80 ممالک میں رائج ہے۔ ان ملکوں میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں ہومیو پیتھی کو سرکاری طور پر مستند قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سرفہرست برطانیہ، بلجیم، سوئٹزرلینڈ ہنگری، برازیل، میکسیکو، کیوبا، بھارت، سری لنکا اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔

ہومیو پیتھی کی طلب میں اضافہ

تاز ہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی ہومیو پیتھی ادویات کی مارکیٹ میں 2023ء تک 14.60فیصد اضافہ کے ساتھ اس کا مجموعی حجم 31459ملین امریکی ڈالر ہوجائے گا۔ یورپی ممالک اس مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ ہیں اور 2023ء تک یہاں ہومیو پیتھی ادویات کی مارکیٹ کی مجموعی مالیت 11347ملین امریکی ڈالر ہو جائے گی۔ مشرق وسطی اور افریقی ممالک میں ان ادویات میں اضافہ 16.09فیصد تک ہو جائے گا۔ برطانیہ مسلسل ہومیو پیتھی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے انگلینڈ میں ہر آٹھ لوگوں میں سے ایک فرد ہومیو پیتھی سے استفادہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپ میں ہومیو پیتھی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کا تناسب کل آبادی کا 29فیصد بنتا ہے۔

بھارت میں ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً 10کروڑ افراد ہومیو پیتھی طریقہ علاج کو اختیار کرتے ہیں اور وہاں کل دو لاکھ ہومیو پیتھک ڈاکڑز ہیں جن میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان میںہومیو پیتھی کی ترویج کیلئے ایک ادارہ قائم ہے جس کا نام نیشنل کونسل فار ہومیو پیتھی ہے جو کہ وزارت صحت کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ہومیو پیتھی ڈپلومہ DHMS کو بی ایس سی کے برابر قرار دے رکھا ہے۔ہومیو پیتھی کی افادیت کے پیش نظر اس کو فروغ دینے کیلئے ہومیو میڈیکل یونیورسٹی کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

اگر بات کی جائے مشہور شخصیات کی جو ہومیو پیتھی کو اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال میں لاتے ہیں تو ان میں سے ایک ڈیوڈ بیکم ہیں جو مشہور فٹ بالر ہیں، 2002ء کے عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ میں ایک میچ کے دوران زخمی ہوئے، ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ انھوں نے اپنے علاج کے دوران ہومیو پیتھی طریقہ علاج کو بھی آزمایا جس کے بہت مثبت نتائج ملے، یوں وہ ہومیو پیتھک ادویات کی افادیت کے قائل ہوگئے۔

یوسن بولٹ نے تیز دوڑنے کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ وہ اپنی صحت کے حوالے سے ڈاکڑ ہنس ولیم مولر کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں جو ہومیو پیتھک ادویات کے ذریعے علاج کرنے میں معروف ہیں۔ برطانوی شہزادہ چارلس نہ صرف ہومیو پیتھی کے قائل ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کے استعمال کی طرف راغب کرتے ہیں

(مدثر احمد ریحان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ