• 19 اپریل, 2024

پیکرِ تاباں و رخشاں ہیں وہ مثل ِآفتاب

نذرانۂ عقیدت
بخدمت سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نوٹ: یہ نظم 2 ستمبر2021ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی لیکن غلطی سے مصرعے آگے پیچھے ہو گئے تھے۔ تصحیح کے بعد یہ نظم دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

وہ سراسر خندگی اور لطف سے معمور ہیں
ہم ہوئے مسرور اُن سے خود بھی جو مسرور ہیں
نغمۂ دل ساز اُن کا دل زدوں نے جب سنا
پاگئے تسکینِ خاطر، اب نہ وہ رنجور ہیں
اُس طبیبِ روح و جاں کا نسخۂ معجز نما
کر گیا ہر غم غلط اور درد سب کافور ہیں
اک شجر کے سائے میں دو پل بتانے آئے جو
عمر بھر بیٹھے رہے پھر، دھوپ سے وہ دور ہیں
چشمِ ساقی کر گئی سیراب اُن کو دفعۃً
بن پیے دو گھونٹ بھی وہ بے خود و مخمور ہیں
بھا سکی کچھ بھی نہ پھر رعنائیِ ماہِ تمام
جب تجلّی اُن کی دیکھی جو سراپا نور ہیں
پیکرِ تاباں و رخشاں ہیں وہ مثلِ آفتاب
کر رہے نابود سب ظلمات اور دیجور ہیں
بوئے عنبر مُشکِ آہو یا شمیمِ گلستاں
اُس معطر ذات میں سب نکہتیں مذکور ہیں
اتّباعِ امرِ جاناں حاصلِ مقصودِ جاں
رائگاں اِس کے سوا سب حکم اور دستور ہیں
’’ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف‘‘
رفعتیں سب اُن کی عالی ذات میں مستور ہیں
اُس حسینِ مصر کے تم نے تو بس قصے سنے
ہم جمالِ رشکِ یوسف سے ہوئے مسحور ہیں
اک زماں سے ہجر میں محمود ؔ اُن کے ہے فگار
دل کے سب زخمِ کُہن اب ہو رہے ناسور ہیں

(م م محمود ؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ