• 20 اپریل, 2024

میرا اپنا زلزلہ میں دب کر بچ جانا نشان ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مرزا برکت علی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بندہ 4؍ اپریل 1905ء کے زلزلہ عظیم میں بھاگسو ضلع کانگڑہ بمقام ایردھرم سالہ ایک مکان کے نیچے دب گیا اور بصد مشکل باہر نکالا گیا تھا۔ اُس موقع کے چشم دید گواہ بابو گلاب دین صاحب اوورسیئر پنشر جو اُن ایام میں وہاں پر بطور سب ڈویژنل آفیسر تعینات تھے، آج سیالکوٹ میں زندہ موجود ہیں۔ اس واقعہ کے ایک دو ماہ قبل جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زلزلہ عظیم کی پیشگوئی شائع فرمائی تھی۔ (اُس سے چند ماہ پہلے اس زلزلہ کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی تھی) کہتے ہیں۔ بندہ خود بھی قادیان دارالامان موجود تھا (جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے) اور حضور کے شائع فرمودہ اشتہارات ہمراہ لے کر دھرم سالہ چھاؤنی پہنچا اور وہ اشتہارات متعدد اشخاص کو تقسیم بھی کئے تھے۔ چونکہ بندہ وہاں بطور کلرک کام کرتا تھا اور عارضی ملازمت میں مجھے فرصت حاصل تھی۔ اس لئے بندہ وہاں وقتاً فوقتاً مرزا رحیم بیگ صاحب احمدی صحابی کو بھی ملنے جایا کرتا تھا۔ مرزا صاحب موصوف مغلیہ برادری کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کے دوسرے بھائی احمدی نہ تھے۔ صرف اُن کی اپنی بیوی بچے اُن کے ساتھ احمدی ہوئے اور باقی تمام لوگ اُن کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ اور جو احمدی ہوئے یہ سب لوگ جو تھے وہ محفوظ رہے اور بعض اور احمدی بھی جو مختلف اطراف سے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے وہاں رہتے تھے۔ یہ کہتے ہیں وہ بھی سب کے سب اس زلزلے کی تباہی میں بچ گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حالانکہ میرے خیال میں جو اموات کا اندازہ تھا نوّے فیصد جانوں کا نقصان تھا۔ اور ایسے شدید زلزلے میں ہم سب احمدیوں کا بچ جانا ایک عظیم الشان نشان تھا۔ اس کی تفصیل اگر پوری تشریح سے لکھوں تو یقینا ًہر طالبِ حق خدا تعالیٰ کی نصرت کو احمدیوں کے ساتھ دیکھے گا۔ (یعنی جو حق کو جاننا چاہتا ہے وہ اس زلزلے کے واقعات کو سن کر ہی یقیناً یہ محسوس کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت احمدیوں کے ساتھ ہے۔) کہتے ہیں کہ کیونکہ میرے اہل و عیال بلکہ خانصاحب گلاب خان صاحب کے اہل و عیال اور مستری اللہ بخش صاحب سیالکوٹی اور اُن کے ہمراہ غلام محمد مستری اور دوسرے احمدی احباب کے اس زلزلے کی لپیٹ سے محفوظ رہنے کے متعلق جو قدرتی اسباب ظہور میں آئے اُن میں ایک ایک فرد کے متعلق جدا جدا نشان نظر آتا ہے۔ خصوصاً مستری الٰہی بخش صاحب کی وہاں سے ایک دن قبل اتفاقی روانگی اور ہمارے اہل و عیال کا کچھ عرصہ قبل وہاں سے وطن کی طرف مراجعت کرنا (واپس آنا) اور زلزلے سے پیشتر بعض احباب کا دوکان سے باہر نکل جانا اور زلزلے میں دَب کر عجیب و غریب اسباب سے باہر نکلنا، یعنی جو دب گئے وہ سب باتیں بھی بطور نشان تھیں۔ اور میرا ارادہ ہے کہ اُس پر تفصیل سے ایک مضمون لکھ کر ارسالِ خدمت کروں۔ (پتہ نہیں بعد میں انہوں نے لکھا کہ نہیں لیکن بہر حال کہتے ہیں) فی الحال مختصراً ان مقامات کا تذکرہ کیا گیا ہے (جب انہوں نے روایت درج کروائی ہے) جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کے سلسلے میں پیش آیا۔ کہتے ہیں اس زلزلے کے کچھ دن بعد جب خاکسار قادیان میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور اُن ایام میں آم کے درختوں کے سائے میں مقبرہ بہشتی کے ملحقہ باغ میں خیمہ زن تھے۔ (خیمہ میں رہا کرتے تھے۔) جب بندہ نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے میرے متعلق کئی سوال کئے کہ آپ مکان کے نیچے دَب کر کس طرح زندہ نکل آئے۔ تو بندہ نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے مستری اللہ بخش صاحب احمدی کی چارپائی نے بچایا جو ایک بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھے، (جس نے بڑی دیوار کو اپنے اوپر اُٹھائے رکھا) اور مجھے زیادہ بوجھ میں نہ دبنا پڑا۔ ایسے ہی حضور نے اور احمدیوں کے متعلق سوالات کئے اور بندہ نے سب دوستوں کے محفوظ رہنے کے متعلق شہادت دی۔ حالانکہ حضور اس سے قبل اشتہار میں شائع فرما چکے تھے کہ زلزلے میں ہماری جماعت کا ایک آدمی بھی ضائع نہیں ہوا۔ اور مجھے یقین ہے کہ حضور کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم ہو چکا تھا۔ ورنہ مجھ سے قبل دھرم سالے سے کوئی احمدی حضور کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا۔ (دھرم سالے سے کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں نہیں آیا تھا۔ یہ پہلے آدمی آئے تھے اور ان سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساری تفصیلات معلوم کیں۔ لیکن جو اشتہار تھا کہ اس زلزلے میں کسی بھی احمدی کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، اس بارے میں آپ نے اشتہار فرما دیا تھا۔) تو کہتے ہیں پس حضور سے بندہ کی ملاقات جو زلزلہ کانگڑہ کے بعد ہوئی، اس میں احمدیوں کے بچ جانے کو حضور نے ایک نشان قرار دیا ہے اور خصوصاً میرا اپنا زلزلہ میں دب کر بچ جانا نشان ہے جس کا بذریعہ تحریر اعلان کر دیا گیا ہے۔ مبارک وہ جو اس چشم دیدنشان سے عبرت پکڑیں اور خدا کے فرستادے پر ایمان لائیں‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ۔ جلد3 صفحہ1-3)

(خطبہ جمعہ 20؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

درخواستِ دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اکتوبر 2021