• 15 مئی, 2024

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس اگر ہم اپنے وجود میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور وجودنہیں بناتے، اپنے آپ کو ایسا نہیں بناتے جو دنیا سے مختلف ہو تو آپ کے ارشاد کے مطابق ہمیں بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

پھر ایک جگہ بعثت کی غرض بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ تمام مذاہبِ موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآنِ کریم لایا ہے اور دار النّجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 392-393 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا ہے۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ200 ایڈیشن 2003ء) ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ہے۔

پس ہم نے یہ غرض بھی پوری کرنے کے لئے بیعت کی ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے ہمیں قرآنِ کریم کی تعلیم کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عمل کریں اور اس تعلیم کو پھیلائیں کیونکہ دنیا کی نجات بھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں ہے۔ پس دنیا کو بتائیں کہ اس لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے جھنڈے تلے آ کر تم بھی نجات حاصل کرو۔

پھر آپ ایک جگہ اپنی آمد کا مقصد بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اسلام کو کُل ملّتوں پر غالب کرے۔ اُس نے مجھے اسی مطلب کے لئے بھیجا ہے اور اسی طرح بھیجا ہے جس طرح پہلے مامور آتے رہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 413 ایڈیشن 2003ء)

پھر اپنے مشن کے غرض کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’اُس نے مجھے بھیجا ہے کہ مَیں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ‘‘ یعنی روشن دلائل کے ساتھ ’’تمام ملّتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 432 ایڈیشن2003ء)

پھر ایک جگہ آپ نے اپنی آمد کا مقصد یہ بھی فرمایا کہ:
’’میں خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کرانا چاہتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے وہ گناہ کی زہر سے بچ جاوے اور اُس کی فطرت اور سرشت میں ایک تبدیلی ہو جاوے۔ اُس پر موت وارد ہو کر ایک نئی زندگی اُس کو ملے۔ گناہ سے لذّت پانے کی بجائے اُس کے دل میں نفرت پیدا ہو۔ جس کی یہ صورت ہو جاوے وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں نے خدا کو پہچان لیا ہے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ اس زمانے میں یہی حالت ہو رہی ہے کہ خدا کی معرفت نہیں رہی۔ کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس منزل پر انسان کو پہنچا دے اور یہ فطرت اُس میں پیدا کرے۔ ہم کسی خاص مذہب پر کوئی افسوس نہیں کر سکتے۔ یہ بلا عام ہو رہی ہے اور یہ وبا خطرناک طور پر پھیلی ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں خدا پر ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے، بلکہ ملائکہ کا مسجود ہوتا ہے۔‘‘ یعنی فرشتے بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ’’نورانی ہو جاتا ہے۔ غرض جب اس قسم کا زمانہ دنیا پر آتا ہے کہ خدا کی معرفت باقی نہیں رہتی اور تباہ کاری اور ہر قسم کی بدکاریاں کثرت سے پھیل جاتی ہیں، خدا کا خوف اُٹھ جاتا ہے اور خدا کے حقوق بندوں کو دئیے جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسی حالت میں ایک انسان کو اپنی معرفت کا نور دے کر مامور فرماتا ہے۔ اُس پر لعن طعن ہوتا ہے اور ہر طرح سے اُس کو ستایا جاتا اور دُکھ دیا جاتا ہے لیکن آخر وہ خدا کا مامور کامیاب ہو جاتا اور دنیا میں سچائی کا نور پھیلا دیتا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں خدا نے مجھے مامور کیا اور اپنی معرفت کا نور مجھے بخشا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 493-494 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 499 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 22 نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

قطعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اکتوبر 2022