• 18 اپریل, 2024

جامع المناھج والاسالیب (قسط 5)

جامع المناھج والاسالیب
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کا ایک اختصاصی مطالعہ
قسط 5

تحریکی منہج / رجحان

جن مفسرین نے تحریکی اسلوب کو اپناتے ہوئے تفاسیر لکھیں ان میں مولانا مودودی کا نام آتا ہے، بلکہ مولانا کو اس رجحان کا بانی کہا جاتا ہے۔یہ ایک جدید رجحان ہے۔اس منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر میں سے معروف تفاسیر مندرجہ ذیل ہیں۔

تحریکی منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

• تفہیم القرآن از مولانا ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء تا 1979ء)
• نور الاذہان فی تفسیر القرآن از شیخ محمد حسن صلاح الدین (شیعہ تفسیر)

تفسیر کبیر میں تحریکی منہج کی چند مثالیں

’’تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں ہماری روحوں میں ایک پالیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ہماری دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے مخالف یا مد مقابل یا رقیب سے کسی صورت میں بھی دیں گے نہیں۔ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ہم نیکیوں کے مقابلہ میں سست ہوں۔ بلکہ نیکی کے میدان میں اپنے باپ اور بھائی سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے….. قرآن کریم نے فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ کہہ کر اور ایک جگہ وفَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس دنیا میں مقابلہ ہو رہا ہے تمہارا فرض ہےکہ اس مسابقت میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے نفس کو ٹٹولتا رہے اوردین کے ساتھ ایک گہری محبت اور شیفتگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے،بس یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ہے۔ جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ256 پرنٹ ویل امرتسر2010ء)

’’فرماتا ہے کَلَّا ہر گز نہیں مَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ اُس نے اب تک وہ کام نہیں کیا جس کا اُسے حکم دیا گیا تھا۔ مَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ میں اسی طرف اشارہ ہے جس طرف وَمَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی میں اشارہ کیا گیا تھا اور جس کا قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ میں بھی ذکر تھا۔ کہ انسان کے لئے موقع تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اور اپنی عاقبت کو سنوار لے مگر اب تک اس نے اپنے اس فرض ادا نہیں کیا۔ اُس کے لئے روحانی ترقیات حاصل کرنے کا بہت بڑا موقع تھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا میدان کُھلا تھا مگر افسوس کہ اس نے اپنے اس فرض کو کماحقہٗ اب تک سرانجام نہیں دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس پر آجکل بار بار زور دے رہا ہوں اور جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ آئندہ نسلوں تک اِس امانتِ روحانی کو پہنچانے کے لئے اس قدر تن دہی اور اس قدر جانکاہی سے کام لے کہ شیطان ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے اور کفر کے غلبہ کا دنیا میں کوئی امکان نہ رہے۔ آج تک کسی اُمت نے اپنی نسل کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھنے پر زور نہیں دیا اگر ہماری جماعت اس فرض کو سرانجام دے لے تو یقینا یہ ایک بے مثال کام ہو گا اور اس کی نظیر اَور کسی اُمّت میں نہیں مل سکے گی۔ اللہ تعالیٰ اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور افسوس کے ساتھ فرماتا ہے کہ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ ہم نے انسان کو جو حکم دیا تھا اس کو اب تک اُس نے ادا نہیں کیا۔ فرداً فرداً لوگوں نے اپنی اصلاح کی بہت کوششیں کی ہیں مگر قوم کی قوم کو اُبھار کر ترقی کے میدان میں اس طرح بڑھاتے چلے جانا کہ پھر اس کے گرنے کا کوئی امکان نہ رہے اور شیطان اُس کو ورغلانے سے مایوس ہو جائے یہ کام اَیسا ہے جس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی رسول کریمؐ کی اُمت پر چونکہ مُختلف دَور آتے ہیں اس لئے ممکن ہے رسول کریمؐ کے دَوروں میں سے کوئی دَور ایسا بھی آجائے جس میں اس فرض کی ادائیگی ہو سکے جس کا کَلَّا لَمَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب تک الگ الگ کوششیں کر کے اُن کے نتائج کو دیکھا جا چکا ہے صحابہؓ نے تیس سال کوشش کی مگر پھر اُن کی نسلوں میں کمزوری پیدا ہو گئی اور نیکی کا تسلسل جاتا رہا۔ اب ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم اس کام کو سرانجام دینے کے کوشش کریں تاکہ قومی طور پر اسلام دنیا میں اس طرح قائم ہو جائے کہ پھر اس کے گرنے کا امکان ہی نہ رہے۔ یہ کام ایسا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انفرادی رنگ میں بے شک بہت کوششیں ہوئیں مگر قومی طور پر اسلام کی برتری کی ایسی کوشش نہیں کی گئی کہ نیکی کا تسلسل قائم رہتا اور اسلام کے گرنے کا کبھی خطرہ پیدا نہ ہوتا۔ پس کَلَّا لَمَّا یَقۡضِ مَاۤ اَمَرَہٗ میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تک انسان نے وہ بات نہیں کی جس کا ہم نے اسے حکم دیا تھا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ181-182 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’اللہ تعالیٰ اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کی یہ خوبی بیان فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کی اتنی گہری محبت ہے کہ انہیں جوکچھ بھی ملے اس کاایک حصہ وہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے ضرور صرف کرتے ہیں۔ وہ صرف روپیہ دے کر یہ نہیں سمجھ لیتے کہ انہوں نے خدمت کا حق اداکردیا ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کی عطا کردہ ہرچیز میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور اس طرح ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہرچیز کو خداکی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ لوگ جوکسی غریب کو چند پیسے دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر عمل ہوگیا وہ غلطی کرتے ہیں۔ جوشخص پیسے توخرچ کرتاہے مگرزبان سے تبلیغ نہیں کرتا وہ نہیں کہہ سکتاکہ اس نے اس حکم پر پوری طرح عمل کر لیا ہے یا جو تبلیغ بھی کرتا ہے مگر بیواؤں اوریتیموں کی خدمت نہیں کرتا وہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ اس نے اس حکم پر پوری طرح عمل کرلیا ہے……اسی طرح اپنے جذبات کو بھی خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً کسی پر غصہ چڑھا تو معاف کردیا۔ اس حکم میں خدمت خلق سے تعلق رکھنے والے مختلف قسم کے کام بھی شامل ہیں جن کی طرف ہماری جماعت کے نوجوانوں کو خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے اور مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر تمام بنی نوع انسان کی احمدی معیار کے مطابق خدمت کرنی چاہیئے تاکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔

تیسری خوبی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۵۶﴾ جب وہ خدائے واحد کا انکار کرنے والوں سے کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تواس سے اعراض کرلیتے ہیں اوران سے کہتے ہیں کہ تم ہماری دشمنی کیوں کرتے ہو۔ہمارے اعمال کابدلہ ہم کو ملے گا اور تمہارے اعمال کابدلہ تم کو ملے گا۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہی ہیں لیکن ہم کسی جاہل مطلق غصیلے کی صحبت پسند نہیں کرتے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے لوگوں کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں۔ مگرافسوس کہ آج مسلمان بھی جن کی کتاب قرآن ہے اوریورپین امریکن نو مسلم بھی جن کااس آیت میں ذکر ہے سینما اور تھیٹروں کی طرف جاتے ہیں۔ اورلغوسے اعراض کرنے کی بجائے لغوسے محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ رسول کریمؐ نے مردوعورت کے اختلاط کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اور تھیٹر سارے کے سارے مردوعورت کے اختلاط کاہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ اختلاط نہ کریں اوراگر وہ مل کر ناچیں نہیں تو فلم بن ہی نہیں سکتی۔فلم اسی طرح بنتی ہے کہ مرد بھی ناچتے ہیں اور عورتیں بھی ناچتی ہیں اور فلم تیار ہو جاتی ہے۔ اوریہ چیز اسلامی نقطہ ء نگاہ سے ناجائز ہے۔ مگر آج کامسلمان بھی اس لغو پر جان دے رہاہے اور آج کا یورپین اور امریکن نومسلم بھی اس لغو میں ملوّث ہے۔کاش وہ نصیحت حاصل کریں اور اپنے اندریہ خوبیاں پیداکرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ524-525 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

مولانا مودودی صاحب کے خیال کے مطابق آج کی دنیا میں مسلمان جب تک تلوار نہیں اٹھاتا تب تک اسلام کی تحریک دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔ کیا تحریک اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کسی تلوار کی ضرورت ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
’’الٰہی کلام کی مدد سے لوگوں کو دین کی طرف بلاؤ۔ جو دلائل خود قرآن کریم نے دیئے ہیں انہی کو پیش کرو۔اپنے پاس سے ڈھکونسلے نہ پیش کیاکرو۔ آہ! اگر اس گُر کو مسلمان سمجھتے تو یہودیت اور عیسائیت کو کھا جاتے۔ ہمارا ہتھیار قرآن کریم ہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَاہِدۡہُمۡ بِہٖ (فرقان: 53) اس قرآن کی تلوار لے کر دنیاسے جہاد کے لئے نکل کھڑا ہو۔ پر افسوس کہ آج دنیا کی ہر چیز مسلمان کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر نہیں تویہی تلوار، جس کو لے کر نکل کھڑے ہونے کا حکم تھا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ273 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

قرات کا منہج / رجحان

بعض مفسرین کا رجحان قرآنی آیات کی مختلف قرأت کو بیان کر کے ان کے معانی اخذ کرنے کی طرف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن اور ڈاکٹر حافظ محمد حماد اپنے ایک مشترکہ تحقیقی مقالہ میں جو کہ القلم جون 2017 ء کے ایک شمارہ میں چھپا، لکھتے ہیں۔
’’قرأت پر مستقل تفسیر تو معلوم نہیں ہو سکی۔ البتہ تفسیر مظہری اور بیان القرآن میں بالخصوص قرأت سے خاطر خواہ استفاد ہ کیا گیا ہے اور متفرق قرأت بیان بھی کی گئی ہیں۔ قرأت چونکہ دینی مدارس میں مستقلاً پڑھائی جاتی ہیں اور ان کے الگ شعبے قائم ہیں، اس لئے قرأت کی حجیت اور وضاحت کے متعلق جو کتب تصنیف کی گئیں یا جو مضامین تحریر کئے گئے ہیں ان میں جابجا قرآنی آیات مبارکہ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ایسی کتب و مضامین کو ہم قرأت کے رجحان کا حامل تفسیری ادب شمار کر سکتے ہیں۔‘‘

(برصغیر میں قرآن فہمی کے رجحانات اور اثرات ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن ڈاکٹر حافظ محمد حماد القلم جون 2018ء صفحہ 68-69)

قرأت کے منہج پر لکھی جانے والی تفسیر/ تفاسیر

• تفسیر جلالین لامام جلال الدین المحلی (791ھ تا 864ھ) امام جلال الدین السیوطی (849ھ تا 911ھ)

اس تفسیر کے مقدمہ میں امام السیوطی لکھتے ہیں۔

ھذا ما اشتدت الیہ حاجۃ الراغبین فی تکملۃ تفسیر القرآن الکریم الذی الفہ الامام العلامۃ المحقق جلال الدین محمد بن احمد المحلی الشافعی رحمۃ اللہ و تتمیم ما فاتہ وھو من اول سورۃ البقرۃ الی آخر سورۃ الاسراء بتتمۃ علی نمطہ من ذکر ما یفھم بہ کلام اللہ تعالی والاعتماد علی ارجح الاقوال و اعراب ما یحتاج الیہ و تنبیہ علی القراءات المختلفۃ المشہورۃ علی وجہ لطیف و تعبیر وجیز و ترک التطویل بذکر اقوال غیر مرضیۃ و اعاریب محلھا کتب العربیۃ واسال اللہ النفع بہ فی الدنیا و احسن الجزاءِ علیہ فی العُقبیٰ بِمَنّہ و کَرَمِہ۔

(تفسیر جلالین صفحہ7 شرکۃ القدس للنشر والتوزیع القاھرۃ 2006ء)

بعد از حمد و صلوٰۃ و سلام کے، یہ ایک کتاب ہے کہ امام علامہ، محقق جلال الدین محمد بن احمد محلی الشافعی کی کتاب تفسیر القرآن کا تکملہ ہے جو تفسیر اُن سے باقی رہ گئی تھی، اُس کی تتمیم ہے جس کی شدید ضرورت ہے۔ جو اول سورہ بقرہ سے شروع ہوکر آخر سورہ الاسراء تک ہے اور علامہ محلی کے طرز پر جن خصوصیات کی حامل ہے ان میں ایسی چیزوں کا ذِکر ہے جن سے کلامِ الہی سمجھنے میں مدد ملے۔تمام اقوال میں سب سے زیادہ راجح قول پر اعتماد کیا گیا ہے۔ضروری اعراب اور مختلف و مشہور قرأت پر لطیف طریقہ اور مختصر عبارت کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے۔ ناپسندیدہ اقوال اور (غیر ضروری) اعراب کو ذِکر کرکے جن کا اصل محل علوم عربیہ کی کتابیں ہیں، تطویل نہیں کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری درخواست یہ ہے کہ دنیا میں اِس کتاب سے نفع پہنچائے اور آخرت میں بہترین بدلہ مرحمت فرمائے۔

تفسیر کبیر میں قرأت کے منہج
کے حوالے سے ارشادات

’’قرأتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے۔ پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوں سے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ روائتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قرأت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قرأت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میں فرق نہیں ڈالتی۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قرأت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قرأت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی اور اس کی مصدق ہوتی ہے۔ در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قرأتیں ہیں۔ ان قرأتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میں کوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیئے۔ بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیں اور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے۔ لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیں کر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی۔ رسول کریمؐ کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا۔ زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میں ایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میں دوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات رسول کریمؐ کو اللہ تعالی نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاں الفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیں چڑھتے۔ ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں۔ چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیں کر گیا اس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم ا س سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا۔ قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں اب تک بھی ہے تعلیم یا فتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میں بول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔

میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میں آپ کی بات کو سمجھا نہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیں سمجھا۔ جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقعہ پر ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میں ایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں۔ ایک دن اس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو۔ لفظ تو اس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیں کہ ا س کا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو۔ ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اس کے جواب میں کہا سَتِّی ْ ھٰذَا طَیِّبٌ بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو۔ نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ سَتِیْ ھٰذَا طَیِّبٌ۔ میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے۔ آخر آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے۔ نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا۔ اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا۔ نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن بڑا اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں۔ اب جو میں نے توڑ دیا ہے تو آپ ناراض ہو رہی ہیں۔ عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میں جب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کا پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں۔ یمنی زبان میں تَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی! یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو۔ مگر جب تم نہ مانیں اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا۔ اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃ ایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے۔ اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میں بھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائل ِ عرب کو دقت پیش نہ آئے۔ پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے ہیں اور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالی نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قرأت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداً رسول کریمؐ پر نازل ہوا۔ ان الفاظ کے قائمقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میں متحد نہ ہو جاتے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے۔ مدینہ والے مدینہ میں رہتے۔نجد والے نجد میں رہتے۔ طائف والے طائف میں رہتے۔ یمن والے یمن میں رہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے ناواقف ہوتے۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میں حجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا ہے، مال ان کے قبضہ میں تھا اور دنیا کی نگاہیں انہی کی طرف اٹھتیں تھیں۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی۔ پھر کچھ ان لوگوں میں سے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقینا ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہؓ ہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میں یک رنگی پید ا کرتی تھی۔ پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قرأت پڑھی جائے اور کوئی قرأت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عثمانؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیں تھی کہ اور قرأتوں میں بھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معنے بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذر گیا، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا، آئین ِ ملک کا نفاذ اور نظام ِ تعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمانؓ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمانؓ کا سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قرأتوں کو مٹا کر ایک قرأت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قرأتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کا معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریمؐ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریمؐ نے ایک سورۃ عبداللہ بن مسعودؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمرؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمرؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت فرق تھا۔ ایک دن عبداللہ بن مسعودؓ قرآن کریم کی وہی سورۃ پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرؓ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورۃ کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیں اور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو! رسول کریمؐ کے پاس میں ابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورۃ کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورۃ اور طرح ہے۔ غرض وہ انہیں رسول کریمؐ کے پاس لائے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ آپ نے یہ سورۃ مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعودؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریمؐ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم یہ سورۃ کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریمؐ نے فرمایا ڈرو نہیں پڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریمؐ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ در اصل یہی تھی کہ رسول کریمؐ نے سمجھا عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا ہیں۔ اور ان کا اور لہجہ ہے اس لئے ان کے لہجے کے مطابق جو قرأت تھی وہ انہیں پڑھائی۔ حضرت عمرؓ کے متعلق آپؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکّی زبان کی نازل شدہ قرأت بتائی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی اپنی زبان میں سورۃ پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمرؓ کو خالص شہری زبان میں وہ سورۃ پڑھا دی۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قرأتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس ِ مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔

میں ایک دفعہ کراچی میں تھا کہ وہاں ایک ایجنٹ ایک کروڑ پتی تاجر کو مجھ سے ملانے کے لئے لایا۔ ایجنٹ شہری تھا اور تاجر گنواری علاقہ کا۔ جب وہ تاجر مجھ سے بات کرنے لگا تو مجھے مخاطب کر کے کہتا کہ ’’تم نوں‘‘ یہ بات معلوم ہو گی۔ اب اول تو تم کا لفظ شہریوں میں معزز آدمی کو خطاب کرتے ہوئے استعمال نہیں کرتے دوسرے تم کے ساتھ ’نوں‘ لگانا تو اور بھی معیوب ہے۔ اردو میں کہیں گے تم کو نہ کہ تم نوں۔ جب وہ تاجر مجھے تم نوں کہتا تو میں نے دیکھا اسے ساتھ لانے والا ایجنٹ بے حد اضطراب کے ساتھ اپنی کرسی پر پہلو بدلنے لگ جاتا اور میر ی طرف دیکھتا کہ ان پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا ہے اور مجھے تاجر کے تم نوں اور ایجنٹ کی گھبراہٹ پر لطف آرہا تھا۔ اب معنوں کے لحاظ سے ’’آپ کو‘‘ اور ’’تم نوں‘‘ میں کوئی بھی فرق نہیں لیکن ایک شہری کے لئے ’’تم نوں‘‘ کہنا اور ایک انبالہ پٹیالہ کے گنوار کے لئے ’’آپ کو‘‘ کہنا ایک مجاہدہ سے کم نہیں۔ پنجاب میں گجرات کی طرف کے لوگ پکڑنے کو ’’پھدنا‘‘ کہتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ ’’پھڑنا‘‘۔ ہم لوگ پھدنا کہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے گجراتی پھڑنا کہتے ہیں توان کے گلے میں پھندے پڑتے ہیں۔ گورداسپور میں شریر آدمی کو شُہْدا کہتے ہیں۔ ضلع سرگودہا میں شریف اور نیک طبیعت کو شُہْدا کہتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کی ایک عزیزہ آئی کسی ذکر پر اس نے آپ کی نسبت کہا ’’اوساں شہدے نوں انہاں گلاں دا کہہ پتا‘‘ یعنی مولوی صاحب شریف آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں کا کیا علم۔ اس طرف کی مستورات نے ایک دفعہ اس فقرہ کو سنا اور حیا ء کے ماتحت برداشت کر گئیں مگر اتفاق سے اس نے پھر دہرایا تو وہ اس سے دست و گریباں ہونے کو تیار ہو گئیں اور کہا کہ کچھ حیا ء کرو تم تو گالیاں دے رہی ہو۔ اس غریب نے حیرت سے پوچھا کہ میں تعریف کر رہی ہوں کہ گالیاں دیتی ہوں۔ ’’اوہ شُہْدا تے ہے۔‘‘ آخر کسی عورت نے جو اس فرق کو سمجھتی تھی اس جوش کو ٹھنڈا کیا۔ اب دیکھو کسی کتاب میں جو سارے پنجاب کے لئے لکھی گئی ہو کسی بزرگ کی نسبت شُہْدے کا لفظ آجائے تو اس کی توضیح یا دوسرے علاقہ کے لئے دوسرے لفظ کا استعمال مقرر کرنا ضروری ہو گا یا نہیں؟ یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قرأتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قرأتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا اس لئے ان قرأتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئے باقی کتب ِ قرأت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔ پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قرأت کے سوا باقی قرأتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دے دی جو حجازی اور ابتدائی قرأت کے مطابق تھے۔

ابن اُم عبد کا یہ واقعہ بھی اسی قسم کے قرأت کے اختلاف کے متعلق ہے۔ عربی زبان میں مَا کا استعمال کئی معنوں میں ہوتا ہے ما نافیہ بھی ہے اور مصدریہ بھی اور مَا مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ جب مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی مراد ہوں تو ایسے مقام پر مَنْ کا استعمال کرنا یا مصدر کا استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ مصدر ایک معنے دے گا اور مَنْ دوسرے معنے دے گا دونوں معنے کسی ایک طریق کے استعمال سے ظاہر نہ ہوں گے مگر چونکہ ایسے کئی مواقع قرآن کریم میں آتے ہیں جب کہ مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی بتانے مقصود ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایسے مواقع پر مَا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تا یہ دونوں مفہوم ظاہر ہوں۔ مگر بعض عرب قبائل مَا کے مصدری معنے تو کرتے ہیں لیکن مَا کا استعمال مَنْ کی جگہ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے اس استعمال سے ان کے لئے مشکل پیش آجاتی تھی پس اس کو دور کرنے کے لئے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی کی قرأت کی بھی اجازت دے دی گئی۔ جو جملہ ایک حد تک مَا کا مفہوم ادا کر دیتا ہے لیکن چونکہ ویسا مکمل مفہوم ادا نہیں کر تا جیسے مَا اس لئے اصل قرآنی عبارت کے طور پر اسے استعمال نہیں کیا گیا صرف عارضی قرأت کے طور پر اس کا استعمال جائز رکھا گیا۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابوالدرداء کو کوئی غلطی لگی ہو جب وہ خود کہتے ہیں کہ صحابہؓ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی پڑھوں۔ تو اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بارہ میں ضرور کوئی بھول چوک واقعہ ہو گئی ہے ورنہ صحابہؓ کی اکثریت ان پر یہ زور نہ ڈالتی کہ اصل قرأت وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہی ہے وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثی نہیں ہے پس اول تو ضروری نہیں کہ ہم اس کو دوسری قرأت قرار دیں جب کثرت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ یہ قرأت نہیں تو ضروری ہے کہ ہم اسے قرأت قرار نہ دیں بلکہ ابوالدرداء کی رائے کو غلط سمجھیں۔ لیکن اگر اس قرأت کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سے آیت کے معنوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اور قرأت کا اختلاف قرآن کریم کے کسی نقص پر نہیں بلکہ اس کے معنوں کی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔

قریب کے زمانہ میں ایک انگریز نے قرآن کریم کے تین پرانے نسخے نکالے ہیں وہ حلب میں ایک مسیحی مونسٹری MONESTRY میں پروفیسر مقر رتھا۔ اس نے اپنے زعم میں قرآن کریم کے تین پرانے نسخے حاصل کئے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کو اس نے LEAVES FROM THREE DIFFERENT QURANS یعنی ’’قرآن کے پرانے تین نسخوں کے متفرق اوراق‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ جب وہ کتاب شائع ہوئی تو لوگوں میں بڑا شور اٹھا اور عیسائیوں میں یہ سمجھا جانے لگا کہ اب قرآن کریم کی حفاظت کا دعویٰ بالکل باطل ہو گیا ہے۔ میں نے بھی وہ کتاب منگوائی تا کہ میں دیکھوں کہ قرآن کی حفاظت کے خلاف اس میں کون سے دلائل دیئے گئے ہیں۔ جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو نسخے اس کے پیش کئے گئے ہیں ان میں اسی قسم کا اختلاف ہے کی کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ ہے اور کسی جگہ مَنْ کی جگہ مَا ہے۔ کسی جگہ قالُوْا کے آگے الف ہے اور کسی جگہ الف نہیں۔ کسی جگہ ہُ کی بجائے ھُمْ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس قرآنی نسخہ کا اختلاف یا تو بعض قرأتوں پر مبنی تھا یا کتابت کی غلطیاں تھیں اور بس۔ میں نے اسے پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ اگر ان مزعومہ قدیم نسخوں کو درست سمجھا جائے تب بھی اس سے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اس کی عبارات معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں کرتیں۔ صرف کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ اور ہُ کی جگہ ھُمْ کی ضمیر بدلی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتوں کا فرق ہے اور کچھ بھی نہیں۔ غرض عیسائیوں کے کتب خانہ میں سے بھی کوئی کتاب ایسی نہ نکلی جو قرأت کے اس فرق کے علاوہ قرآن کریم کے نسخوں میں کوئی اور فرق ثابت کر سکتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اسی قرأت کے فرق کو بعض جگہ پیش کیا ہے۔ مثلاً وَاِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مَوْتِہٖ کی بجائے ایک قرأت مَوْتِھِمْ بھی آتی ہے جو آپ کے بیان کردہ مضمون کی تائید کرتی ہے۔ پس قرأتوں کا اختلاف یا تو قبائلی زبانوں کے فرق کے ضرر سے بچانے کے لئے ہے یا قرآنی معنوں کی وسعت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ47-52 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

تاریخ میں کچھ مفسرین کا رجحان قرآنی آیات کو فلسفیانہ نظر سے دیکھ کر اس کے علم و معانی کا احاطہ کرنا بھی رہا ہے۔دنیائے اسلام میں جب عہد عباسی میں بالخصوص جب مسلمان علماء نے یونان، فارس اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اقدم علماء کی فلسفہ کی کتب کو ترجمہ کیا تو اس وقت علوم کی مختلف و متنوع جہات ان کے سامنے کھلیں۔جب مسلم علماء نے ان کتب کا مطالعہ کیا تو ان میں ایک فلسفیانہ سوچ نے پروان چڑھا۔ان فلسفیانہ نظریات و عقائد کا احاطہ کرنا اور فلاسفہ کے وحی و الہام پر عقل کو فوقیت دینے کے علاوہ کئی اور معاملات میں کہ جن میں دین اور مذہب پر اعتراضات کئے گئے کے رد کے طور پر فلسفیانہ رجحان کی تفاسیر کو لکھا گیا۔ اسی اصل کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تفسیر میں ایک جگہ کچھ ایسے بیان فرمایا۔
’’اہل فلسفہ کے قرآن مجید پر اعتراضات کے دفیعہ کے لئے مسلمانوں نے فلسفہ وغیرہ علوم کی تجدید کی اور علم منطق کے لئے نئی مگر زیادہ محقق راہ نکلی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد صفحہ پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ مبلغ سلسلہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

قطعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اکتوبر 2022