• 14 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 7)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد8 حصہ اول
قسط 7

ہر موصی اپنا جائزہ لےکہ کم آمد لکھوا کر
اپنے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا

ہر موصی کو خود بھی ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کہیں تقویٰ سے ہٹ کرمَیں اپنی کسی آمد کو چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ظاہر نہ کرکے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ پس موصیان اور موصیات جماعت میں چندہ دینے والوں کا وہ گروہ ہے جس کے متعلق یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہیں اور ہر لحاظ سے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہیں جو اپنی آمد اور جائیداد کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی خوشی سے پیش کرتے ہیں۔ نیز اپنے اعمال پر نظر رکھنے والے ہیں اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ہیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ اپنے اخلاق بہترین رنگ میں سنوارنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ حقیقی مومن بننے کی طرف ہر طرح سے کوشش کرتے ہوئے قدم بڑھانے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہر موصی اسی جذبہ سے وصیت کرنے والا اور اس کو قائم رکھنے والا ہو۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ13)

ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے

پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہم اس نبی پر بھی ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے لئے حلال و حرام کا فرق بتا کر دین کے بارہ میں غلط نظریات کے طوق ہماری گردنوں سے اتارے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ باوجود ان واضح ہدایات کے پھر بھی بعض طوق اپنی گردنوں پر ڈال لئے ہیں۔

لیکن ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت کے بعد اس حقیقت کو دوبارہ سمجھے ہیں کہ یہ طوق اپنی گردنوں سے کس طرح اتارنے ہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ قبروں پر سجدے سے ہم بچے ہوئے ہیں۔ پیر پرستی سے عموماً بچے ہوئے ہیں۔ بعض جگہ اِکّا دُکّا شکایات آتی بھی ہیں۔ عمومی طور پر بعض غلط قسم کے رسم و رواج سے ہم بچے ہوئے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بعض چیزیں راہ پا رہی ہیں۔ اگر ہم بے احتیاطیوں میں بڑھتے رہے تو یہ طوق پھر ہمارے گلوں میں پڑ جائیں گے جو آنحضرتﷺ نے ہمارے گلوں سے اتارے ہیں اور جن کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتار نے کی پھر نصیحت فرمائی ہے۔ اور پھر ہم دین سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ اب ظاہر ہے جب ایسی صورت ہو گی تو پھر جماعت سے بھی باہر ہو جائیں گے۔ کیونکہ جماعت سے تو وہی جڑ کر رہ سکتے ہیں جو نو ر سے حصہ لینے والے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور کتاب سے حصہ لے رہے ہیں۔ جو اللہ اور رسول اور اس کی کتاب سے حصہ نہیں لے رہے وہ نور سے بھی حصہ نہیں لے رہے۔ جو نور سے حصہ لینے کی کوشش نہیں کر رہے وہ ایمان سے بھی دور جا رہے ہیں۔ تو یہ تو ایک چکر ہے جو چلتا چلا جاتا ہے۔ پس ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ جو خود بھی نور تھے اور آسمان سے کامل نور آپؐ پر اترا تھا یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ میرے دل اور میرے دیگر اعضاء میں نور رکھ دے۔

(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذانتبہ من اللیل حدیث نمبر6316)

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ38)

اپنے بچوں کی طرح یتامیٰ کا بھی جائزہ لو

اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس طرح فرمایا ہے کہ وَابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی کہ یتیموں کو آزماتے رہو۔ آزمانا کیا ہے؟ کس طرح آزمانا ہے؟

یہی کہ تمہارے سپرد جو یتیم کئے گئے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھو۔ انہیں لاوارث سمجھ کر ان کی تربیت سے غافل نہ ہو جاوٴ، ان کی تعلیم سے غافل نہ ہو جاوٴبلکہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرو۔ اور جس طرح اپنے بچوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتے ہو، اُن کے بھی جائزے لوکہ تعلیمی اور دینی میدان میں وہ خاطر خواہ ترقی کر رہے ہیں یا نہیں؟ پھر جس تعلیم میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اس کے حصول کے لئے ان کی بھر پور مدد کرو۔ یہ نہیں کہ اپنا بچہ اگر پڑھائی میں کم دلچسپی لینے والا ہے تب اس کے لئے تو ٹیوشن کے انتظام ہو جائیں، بہتر پڑھائی کا انتظام ہو جائے اور اس کی پڑھائی کے لئے خاص فکر ہو اور یتیم بچہ جس کی کفالت تمہارے سپرد ہے وہ اگر آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تب بھی اس کی تعلیم پر،اس کی تربیت پر کوئی نظر نہ رکھی جائے۔ نہیں! بلکہ اس کی تمام تر صلاحیتوں کو بھر پور طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اصل حکم ہے۔ اور جتنی بھی اس کی استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے مطابق اس کو موقع میسر کیا جائے کہ وہ آگے بڑھے اور مستقبل میں اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو۔ کبھی اسے یہ خیال نہ ہو کہ مَیں یتیم ہونے کی وجہ سے اپنی استعدادوں کے صحیح استعمال سے محروم رہ گیا ہوں۔ اگر میرے ماں باپ زندہ ہوتے تو مَیں اس وقت سبقت لے جانے والوں کی صف میں کھڑا ہوتا۔

پس چاہے کوئی انفرادی طور پر کسی یتیم کا نگران ہے یا جماعت کسی یتیم کی نگرانی کر رہی ہے اس کی تعلیم و تربیت کا مکمل جائزہ اور دوسرے معاملات میں اس کی تمام تر نگرانی کی ذمہ داری ان کے نگرانوں پر ہے۔ اور پھر یہ جائزہ اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ نکاح کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔ یعنی ایک بالغ ہونے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں۔ ایک بالغ اپنے اچھے اور بُرے ہونے کی تمیز کر سکتا ہے۔ اگر بچپن کی اچھی تربیت ہو گی تو اس عمر میں وہ معاشرے کا ایک بہترین حصہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہاں بھی دیکھیں کہ کتنی گہرائی سے ایک اور سوال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ صرف بالغ ہونا کسی کو اس قابل نہیں بنا دیتا کہ اگر اس کے ماں باپ نے کوئی جائیداد چھوڑی ہے تو اس کو صحیح طور پر سنبھال بھی سکے۔ یہاں عاقل ہونا بھی شرط ہے یعنی ذمہ داری کا احساس اور اس دولت کے صحیح استعمال کا فہم ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ان کی عقل کا جائزہ بھی لو۔ اگر تو ایک بچہ جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اپنی پڑھائی میں بھی اور دوسری تربیت میں بھی، اپنے اٹھنے بیٹھنے میں بھی، چال ڈھال میں بھی عمومی طور پر بہتر نظر آرہا ہے اس کی عقل بھی صحیح ہے تو ظاہر ہے اس کے سپرد اس کا مال کیا جائے۔ اس لئے کہ وہ حق دار بنتا ہے کہ اس کو اس کا ورثہ لوٹایا جائے۔ وہ خود اس کو سنبھالے یا اس کو آگے بڑھائے یا جو بھی کرنا چاہتا ہے کرے۔ لیکن اگر کوئی باوجود بالغ ہونے کے دماغی طور پر اتنی صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے مال کی حفاظت کر سکے تو پھر اس کے مال کی حفاظت کرو۔ اس کے نگران کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ پھر تم اس مال کی نگرانی کرو۔ اور ضرورت کے مطابق اس کے خرچ ادا کرو۔ لیکن اس عرصہ میں بھی جوں جوں اس کی عمر بڑھ رہی ہے، بعضوں کو ذرا دیر سے سمجھ آتی ہے، اسے مالی امور کے جو نشیب و فراز ہیں وہ سمجھاتے رہو تا کہ وہ کسی نہ کسی وقت پھر اپنا مال سنبھال سکے۔ بعض معاملات میں بعض بظاہر کمزور سمجھ رکھنے والے ہوتے ہیں ہر چیز کوپوری طرح نہیں سنبھال سکتے۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجود ان کو پیسے کا استعمال اور پیسے کا رکھنا بڑا اچھا آتاہے۔ سوائے اس کے کہ بالکل کوئی فاتر العقل ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بیوقوف ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں جَھلّا ہے۔ لیکن وہ جَھلّا بھی ایسے ایسے کاروبار کرتا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے نہیں کر رہے ہوتے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ98-99)

اگر ہم جائزہ لیں تو بہت سی باتیں نیکی کی
ہم نظر انداز کر جاتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے جب تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے تو ساتھ ہی تبلیغ کرنے والوں کو عملی حالت کی درستی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ فرمایا۔ وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۳۴﴾َ (حٰمٓ السجدہ: 34)۔ اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے۔ اور کہے کہ مَیں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہترین بات جو تم کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ باقی تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ذرائع میسر ہیں انہیں کام میں لاوٴ اور جب موقع ملے، ان بہترین لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور پھرخدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے اپنے عمل کی طرف بھی توجہ رکھو۔ وہ نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرو جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں سینکڑوں ایسے احکامات ہیں۔ بعض حکم ہیں جن کے کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے۔ بعض باتیں ہیں جن کو نہ کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے۔ تو جب ایک انسان ان چیزوں کے کرنے سے رکتا ہے جن سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اور ان چیزوں کو بجا لانے کی کوشش کرتا ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہ اعمالِ صالحہ ہیں۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو بہت سی باتیں نیکی کی ایسی ہیں روزمرہ کے گھریلو معاملات میں بھی، معاشرے کے معاملات میں بھی، جماعتی طور پر نظام کی پابندی کرنے کے بارے میں بھی اور عبادات بجا لانے میں بھی جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تو ایک داعی الی اللہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ایک شرط اور بہت اہم شرط اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لانے والا ہو۔ اپنے نیک عمل ہوں گے تو تب ہی دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بلایا جا سکتا ہے۔ دوسرے کو بھی کہا جا سکتا ہے کہ آوٴ مَیں تمہیں دکھاوٴں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادہ نے، ایک شخص نے جو اس زمانے کی اصلاح کے لئے آیا ہے، مجھے ایسے راستے بتائے ہیں جن پر چل کر مَیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن گیا ہوں یا اس طرف چل کے مَیں بہت لحاظ سے، ایک حد تک اپنے دل میں سکون اور چین پاتا ہوں اور اس طرف میرے ترقی کے قدم بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی طرف مَیں اس تعلیم کی وجہ سے متوجہ ہوا ہوں۔ آوٴ تم بھی میری باتیں سنو۔ جس طرح مَیں فرمانبردار بننے کی کوشش کر رہا ہوں، تم بھی اس دین کی طرف آوٴ اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کی کوشش کرو۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ169-170)

آنکھیں کھلی رکھ کر گرد و پیش کا جائزہ بھی لیتے رہیں

ایک بغدادی مولوی کے نام سے مشہور تھا اس کا قصہ ہے۔ وہ گالیاں نکالنے میں بھی شیر تھا کیونکہ یہ مولوی جو ہیں اس کام میں بہت شیر ہوتے ہیں۔ بہر حال وہ خاص طور پر وہابیوں کے بڑا خلاف تھا۔ حضور علیہ السلام نے اس کی مہمان نوازی فرمائی یعنی اس کا حکم دیا۔ کسی نے اس بغدادی مولوی کو کہا کہ جن کی مہمان نوازی سے تم لطف اٹھا رہے ہو اور جن کے سامنے بیٹھ کر وہابیوں کو گالیاں دے رہے ہو، یہ بھی وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گالیاں تو بہت زیادہ دیتا تھا لیکن مَیں نے اسے کبھی احساس نہیں ہونے دیا اور کہنے والے کا حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ کہنا کہ یہ بھی وہابی ہیں، فرمایا کہ ایک لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ مَیں بھی قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ161-162 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ)

بہر حال ایسے کئی واقعات ہیں جن کی تفصیلات ہمارے لٹریچر میں، کتب میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عمل کو جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کے اسوہ کو دیکھ کر اپنایا ہم بھی اپنا کر عمل کرنے والے بنیں۔ مہمانوں کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں۔

لیکن ساتھ ہی ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا، اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر گرد و پیش کا جائزہ بھی لیتے رہیں کیونکہ آج کل جماعت کی مخالفت اور دشمنی نے شرارتی عنصر کو ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے عاری کر دیا ہے۔ اور نہ صرف اخلاقی، بلکہ کسی بھی قسم کی شرارت کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ390)

رمضان میں اپنی بعض کمزوریوں کا جائزہ لے کر
انہیں دور کرنے کی کوشش کریں

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)

پھر ایک روایت ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اس ڈھال کو جھوٹ اور غیبت کے ذریعے نہیں پھاڑتا۔

(الجامع الصغیر للسیوطی حرف الصاد حدیث نمبر 5197 جزء اول و دوم صفحہ 320 دارالکتب العلمیة بیروت ایڈیشن 2004ء)

کیونکہ روزہ تو ایک مومن رکھتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو ایمان تو ختم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو خدا تعالیٰ تو بیچ میں سے نکل گیا۔ تب تو شرک پیدا ہو گیا۔ اس لئے روزہ بھی ختم ہو گیا۔ یہ تو خاص روزے کے حالات کے لئے ہے۔ لیکن عام حالات میں بھی جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پس اس رمضان میں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی بعض کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں تبھی ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں۔ ایمان میں مضبوطی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اِنِّیْ قَرِیْبٌ کی آواز کو سن سکتے ہیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ421-422)

آج اگر جائزہ لیں تو ایسے ہی لوگ
مذہب کے نام پر خون کرنے والے ہیں

پس آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی رغبت کا دعویٰ تو ہے لیکن روحانی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے نام پر شیطانی عمل ہیں۔ آج اگر جائزہ لیں تو ایسے ہی لوگ مذہب کے نام پر خون کرنے والے ہیں۔ اس اقتباس میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کا مَیں نے پڑھا، لیلۃ القدر کے حوالے سے ایک بہت اہم بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اصل لیلۃ القدر آنحضرتﷺ کو عطا ہوئی اور اس لیلۃ القدر کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ نیک لوگ سیدھے راستے کی طرف آ رہے ہیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ450)

ایم ٹی اے کے کارکنان کو حقیقی مقام کا احساس ہوگا جب جائزے بھی لے رہے ہونگے

MTA کی تقریب پر مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج MTA کا ہر کارکن چاہے وہ جہاں بھی دنیا میں کام کر رہا ہے، یا کسی بھی کونے میں جہاں کام کر رہا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔ یہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ سے فرمایا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاوٴں گا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بھی پیدا فرمائے ہیں کہ آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے۔ پس یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اور یہ تمام ایجادات اس کی شہادت دے رہی ہیں۔ لیکن ہم اس سوچ کے ساتھ اگر یہ کام کریں کہ ہم اس تبلیغ کا حصہ بن کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بھی بن جائیں۔ اور یہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ آیا ہم بن رہے ہیں کہ نہیں تو تبھی اس کا صحیح حق ادا ہو گا۔ ایسے کارکنوں کو تبھی ان کے حقیقی مقام کا احساس ہو گا جب وہ یہ جائزہ بھی لے رہے ہوں گے۔ اور جب مقام کا احساس ہو گا تو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی جو ذمہ داریاں ہیں اس طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ صرف ٹیکنیکل مدد یا کیمرے کے پیچھے کھڑے ہو جانا یا پروگرام بنا لینا یا اسی طرح کے دوسرے کام کر دینا کافی نہیں ہو گا بلکہ پھر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے عبادتوں کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ ہر کام کے بہتر انجام کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف جھکاوٴ ہو گا اور وَّالنّٰشِرٰتِ نَشۡرًا کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ یعنی عبادتوں کے معیار کے ساتھ عملی کوششیں کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے مسیح کی مدد کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشش ہو گی۔ اور یہ بات صرف MTA تک محدود نہیں ہے یا بعض ویب سائٹس پر جواب دینے کے لئے کچھ لوگوں کی ٹیم بنا دی جاتی ہے، ان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر فردِ جماعت کو اس میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ صحابہ نے جو حق ادا کیا اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم نے اب تک وقت ضائع کیا ہے یا ہماری توجہ پیدا نہیں ہوئی یا احساس نہیں ہوا تو اب اپنے اندر احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ اتمامِ حجت تو ہو چکی ہے لیکن پھر بھی جس حد تک ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح ہر احمدی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جلد ہی ہم ایک انقلاب دیکھیں گے کیونکہ زمانہ اب تیزی سے اس طرف آ رہا ہے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ529)

واقفین زندگی اپنا جائزہ لیں کہ تبلیغ اور تربیت
کا فریضہ سرانجام دینے والے ہوں

آپ کا دین قرآنِ کریم کے ہر حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا تھا۔ پس آپ کے اسوہ پر چلنے کا تو ہر مومن کو حکم ہے لیکن وہ لوگ جو تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرنے والے ہیں، جو دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، جو عام مومنین سے بڑھ کر خیر کی طرف بلانے والے ہیں، جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں ان کو کس قدر اس اُسوہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پس جو واقفینِ زندگی ہیں ان کو اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک مکمل شرعی کتاب ہے تو پھر تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرنے والے اس بات کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ اپنی زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ اپنے نمونے قائم کر کے خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوں۔ احسن رنگ میں تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سرانجام دینے والے ہوں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ542)

جائزے لینے کی عادت سے تبدیلی پیدا ہوگی

اب ہر واقفِ زندگی جائزہ لے جو میدانِ عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفینِ نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفینِ نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفینِ نو مربیان بن بھی چکے ہوں۔ تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن وقار قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔۔ پھر آپ نے واقفینِ زندگی کوہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ682)

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ543)

احمدی کو جہاں حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے سے تسلی ہوتی ہےوہاں فکر بھی ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر آنحضرتﷺ کے اُسوہ اور آپؐ پر اتری ہوئی تعلیم کی پابندی کرنا بھی لازمی ہے۔ اس تعلیم پر پابندی اور آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش ہی اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنے گی۔ اس نور سے حصہ پانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی بھی شرط رکھی ہے۔ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے۔ ایک مومن کو اعمال صالحہ کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فسق و فجور سے بچنے کی ضرورت ہے۔ جو آیت مَیں نے پہلے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ پر ایمان، اس کے رسول پر ایمان اور قرآن کریم پر ایمان ہی نور سے حصہ دلانے والا بنے گا، جنت کا وارث بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ انسان کے ہر عمل سے باخبر ہے۔ اس کے علم میں ہے کہ انسان کون سے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بجا لا رہا ہے۔ اُسوہٴ رسول اور تعلیم پر کس حد تک عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایمان کا دعویٰ دل سے ہے یا صرف زبانی باتیں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو انسانوں پر احسان کیا کہ ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی دنیا و آخرت میں انسان کی بقا ہے تو ان لوگوں کا جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کس قدر یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کریں جو کامل اور مکمل تعلیم ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا جاری احسان دیکھیں کہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الجمعہ: 4) کی خبر دے کر یہ تسلی بھی کروائی کہ آنحضرتﷺ اور قرآن کریم کا فیضان جوفیضان نور ہے یہ جاری ہے۔ اندھیرے زمانہ کے بعد آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور آپﷺ کے نور سے سب سے زیادہ حصہ پانے والے جس امام اور مسیح و مہدی نے آنا ہے اس کے ذریعہ پھر اندھیروں سے نور کی طرف راہنمائی ہو گی۔ آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود نے پھراُمّت کو بھی اور باقی دنیا کو بھی اعتقادی اور عملی اندھیروں سے نکالنا ہے اور جو اس کے ساتھ جڑ جائے گا، جو اسے قبول کرے گا، جو اس سے سچا تعلق رکھے گا، جو دنیا کی لغویات سے بچتے ہوئے اس سے کئے گئے عہد کی پابندی کرے گا وہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے جنتوں کی خوشخبری سنے گا۔

پس ایک احمدی کوجہاں اس بات سے تسلی ہوتی ہے وہاں فکر بھی ہے۔ اپنے جائزے لینے کی ضرورت بھی ہے۔ اس نور سے فائدہ اٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَیَعۡمَلۡ صَالِحًا (التغابن: 10) کی شرط رکھی ہے کہ اللہ پر ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے۔ پس ہمیشہ اپنے مدنظر یہ بات رکھنی چاہئے کہ کون سا عمل صالح ہے اور کون سا غیر صالح ہے۔ بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً خوشیاں ہیں۔ یہ دیکھنے والی بات ہے کہ خوشیاں منانے کے لئے ہماری کیا حدود ہیں اور غموں میں ہماری کیا حدود ہیں۔ خوشی اور غمی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور دونوں چیزیں ایسی ہیں جن میں کچھ حدود اور قیود ہیں۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ32-33)

یتامیٰ کے بھی جائزے لوجس طرح اپنے بچوں کے لیتے ہو

یتیموں کے بارہ میں یہ بعض احکامات ہیں کہ ان سے کس طرح کا سلوک کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شروع ہی اس طرح فرمایا ہے کہ وَابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی کہ یتیموں کو آزماتے رہو۔ آزمانا کیا ہے؟ کس طرح آزمانا ہے؟

یہی کہ تمہارے سپرد جو یتیم کئے گئے ہیں ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھو۔ انہیں لاوارث سمجھ کر ان کی تربیت سے غافل نہ ہو جاوٴ، ان کی تعلیم سے غافل نہ ہو جاوٴبلکہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت مہیا کرو۔ اور جس طرح اپنے بچوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتے ہو، اُن کے بھی جائزے لوکہ تعلیمی اور دینی میدان میں وہ خاطر خواہ ترقی کر رہے ہیں یا نہیں؟ پھر جس تعلیم میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اس کے حصول کے لئے ان کی بھر پور مدد کرو۔ یہ نہیں کہ اپنا بچہ اگر پڑھائی میں کم دلچسپی لینے والا ہے تب اس کے لئے تو ٹیوشن کے انتظام ہو جائیں، بہتر پڑھائی کا انتظام ہو جائے اور اس کی پڑھائی کے لئے خاص فکر ہو اور یتیم بچہ جس کی کفالت تمہارے سپرد ہے وہ اگر آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے تب بھی اس کی تعلیم پر،اس کی تربیت پر کوئی نظر نہ رکھی جائے۔ نہیں! بلکہ اس کی تمام تر صلاحیتوں کو بھر پور طور پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اصل حکم ہے۔ اور جتنی بھی اس کی استعدادیں اور صلاحیتیں ہیں اس کے مطابق اس کو موقع میسر کیا جائے کہ وہ آگے بڑھے اور مستقبل میں اپنے پاوٴں پر کھڑا ہو۔ کبھی اسے یہ خیال نہ ہو کہ مَیں یتیم ہونے کی وجہ سے اپنی استعدادوں کے صحیح استعمال سے محروم رہ گیا ہوں۔ اگر میرے ماں باپ زندہ ہوتے تو مَیں اس وقت سبقت لے جانے والوں کی صف میں کھڑا ہوتا۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ98)

باوجود تمام محنت اور کوشش کے حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں

بعض اوقات بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ دوسری نیکیاں بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع میں بیان کی کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں متقی ہو اور اس کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ایسے لوگوں کو فکر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ استغفار پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اگر کہیں بھی کمی ہے تو ہمارے اندر کمی ہے۔ ہماری کوششوں میں ہی کمی ہے۔ تقویٰ باریک سے باریک نیکیوں کو بجا لانے کا،ان کا خیال رکھنے کا نام ہے۔ پس اگر کہیں ایسی صورت پیدا ہو رہی ہے جہاں باوجود تمام محنت اور کوشش کے حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کاروباری آدمی کے متعلق کاروبار کے سلسلے میں اگر معمولی جھوٹ بھی بولا جائے تو یہ چیز انسان کو تقویٰ سے دور لے جاتی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ پر توکل کے بھی خلاف ہے۔

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ126)

اللہ تعالیٰ کے انعامات سے فیض پانے کے لئے ہمیں باریک بینی سے اپنے جائزے لینے ہوں گے

اللہ تعالیٰ کے انعامات سے فیض پانے کے لئے ہمیں باریک بینی سے اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ کہ کہیں ہماری باتوں میں جھوٹ کی ملونی تو نہیں؟ کہیں نیت میں کھوٹ تو نہیں؟ جو بھی کام کیا ہے صاف اور کھرا اور قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے کیا ہے؟ قولِ سدید صرف سچائی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایسی سچائی ہے جو واضح طور پر دوسرے کو سمجھ میں آنے والی ہو۔ پھر عبادت کا حق ہے۔ متقی بننے کے لئے عبادت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پس حقیقی متقی وہی ہے جو حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو۔ اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا حقیقی طور پر گہرائی میں جا کر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ بلکہ فی زمانہ تو ایک بہت بڑی تعداد دھوکے سے دولت کما لیتی ہے، بڑے امیر بن جاتے ہیں اور ظاہر میں بڑی کشائش رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نظرمیں یہ دولت ان کے لئے آگ ہے۔ ایک تو اس دنیا میں یہ لوگ بیماریوں کی صورت میں، مقدموں کی صورت میں، پھر اور تکلیفوں کی صورت میں، بلاوٴں کی صورت میں ہر قسم کی آگ میں جَل رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ دولت پھر ان کے لئے بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے آخرت کی آگ ہے۔ خدا تعالیٰ اس سے بھی ڈراتا ہے۔ پس یہ جو ان کی دولت ہے یہ کوئی قابلِ رشک چیز نہیں ہے جس کی طرف ہماری نظرہو،ایک مومن کی نظر ہو۔ بلکہ یہ خوف دلانے والی بات ہے۔ لیکن مومن کے لئے جب رزق کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو بابرکت رزق کا ذکر فرماتا ہے۔ اصل مقصود ایک مومن کا روحانی رزق ہے۔ جو ہر چیز پر مقدم ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے اور مرنے کے بعد بھی جو دائمی ٹھکانا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا، اپنی جنتوں کا وعدہ فرماتا ہے۔ پس ایک دنیا دار کے معیار اور ایک مومن کے معیار بہت مختلف ہیں۔ جس کو خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو وہ دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتا۔ بلکہ دنیاوی مادی رزق کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ مومن کو بغیر حساب کے رزق دینے اور کافر اور دنیا دار کے لئے اس دنیا کی آسائشوں میں ڈوبنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَیَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘوَالَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَاللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۲۱۳﴾

(البقرہ: 213)

کہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دنیا کی زندگی خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے۔ اور یہ ان لوگوں سے تمسخر کرتے ہیں جو ایمان لائے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان سے بالا ہوں گے۔ اور اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے۔

(خطبات مسرورجلد8 صفحہ126-127)

(نیاز احمد نائک۔ استادجامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

قطعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اکتوبر 2022