• 7 جولائی, 2025

مکرم خوشی محمد شاکر مرحوم مبلغ سلسلہ کا ذکرِ خیر

خوشی محمد شاکر صاحب مربی سلسلہ ابن غلام محمد صاحب 5 اگست 1952ء کو 169 رب گھسیٹ پورہ ضلع فیصل آبادمیں پیدا ہوئے۔ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1977ء تا 2022ء کل 45 سال خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کو جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے علاوہ فاضل عربی، ایم اے اسلامیات اور افریقہ میں فرنچ زبان میں ڈپلومہ کرنے کی توفیق ملی۔

وقف

آپ کے والد صاحب نے نو عمری میں ہی آپ کو خدمتِ دین کے لئے وقف کرنے کا عہد کر لیا تھا۔ دور طالب علمی سے ہی آپ بہت محنتی، ذمہ دار اور دعا گو تھے۔ 1974ء کے فسادات میں بطور خادم بھیرہ ضلع سرگودھا کے کشیدہ حالات میں حکمت کے ساتھ حالات معلوم کرنے کی ڈیوٹی پر جانیوالے خدام کے ساتھ یہ کام بہت احسن رنگ میں سر انجام دیا۔

خاکسار کا خوشی محمد شاکر صاحب کے ساتھ تعارف اس وقت ہوا جب 2012ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہو نے کے بعد خاکسار کا تقررنظارت اصلاح و ارشاد مقامی کے تحت میدان عمل میں ہوا۔ اس وقت خوشی محمد شاکر صاحب افریقہ خدمت کے بعد نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں خدمت کی توفیق پارہے تھے۔اس سے قبل خوشی صاحب کا غائبانہ تعارف تھا۔ اس طرح کہ دوران تعلیم جامعہ ہمارے محترم اساتذہ کرام، جامعہ احمدیہ سے پاس ہونے والے مربیان جن کو میدان عمل میں بفضلہ تعالیٰ غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی، ان کا ذکر ہمارے سامنے بطور مثال کے کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر جب یہ بات ہوتی کہ میدان عمل میں کامیابی کا اصل گرُ تعلق باللہ اور خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا ہے تو اس موقع پر خوشی صاحب کا ذکر ضرور ہوتا۔

خوشی صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک ایک مثالی مربی سلسلہ تھے۔ آپ کی نمایاں صفات میں تعلق باللہ، اطاعت خلافت، دعا گو ہونا، صاحب رؤیا،نظام سلسلہ کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق، بنی نوع انسان کی ہمدری، ہر چھوٹے بڑے سے عزت و شفقت کرنا، احباب جماعت کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھتے ہوئے اس کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا،مالی قربانی میں پیش پیش رہنا اور سب کے حقوق کو احسن رنگ میں ادا کرنا شامل ہیں۔

تعلق باللہ

جس وقت خاکسار میدان عمل میں تھا تو آپ جماعتی دورہ پر تشریف لاتے اور اپنے میدان عمل کے ایمان افروز واقعات بیان کرتے۔ ان واقعات سے ہمیشہ آپ کے تعلق باللہ کا اندازہ ہوتا تھا۔ ایک واقعہ اس طرح ہے کہ جب آپ سیرالیون میں جنگ کی وجہ سے ہمسایہ ملک گنی کناکری ہجرت کر رہے تھے تو راستہ میں رکنا پڑا۔یہ منگل کا دن تھا۔سب کی یہ خواہش تھی کے جلد باڈر پار کر لیں مگر تاخیر ہو رہی تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو رؤیا دکھایا کہ آپ گھسیٹ پورہ میں ہیں اور نماز جمعہ پڑھا رہے ہیں۔یہ خواب انہوں نے محترم امیر صاحب کو سنائی اور خود تعبیر بھی کی۔ چنانچہ قافلے کو جمعے کے بعدمحفوظ وقت میں ہی آگے جانے کا موقع ملا۔

کوئی بھی آپ سے مشورہ کرتا تو بہت اچھے طریق پر اپنے تجربے کی روشنی میں تجاویز دیتے اور ہمیشہ حدیث المستشار مؤتمن یعنی جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے کا حق ادا کیا کرتے۔

خاکسار کا خوشی صاحب سے رابطے

خاکسار کو خوشی صاحب کے ساتھ دفتر نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں بھی خدمت کی توفیق ملی اورصاحب بالجنب یعنی ہم جلیس کے طور پرآپ کی ہمسائیگی میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ روزانہ اپنا کام تلاوت اور دعا کے ساتھ شروع کرتے۔آپ دفتر کے سینیئر مربیان میں تھے۔ اس لئے ہر کوئی آپ کو دعا کی درخواست کرتا۔ آپ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ میں آپ کے لئے ضرور دعا کروں گا۔ آپ حضور انور کو بھی خط لکھیں اور خود بھی دعا کریں۔ بعد میں اس مسئلہ کے متعلق پوچھتے کے حل ہوا کہ نہیں اور پھر مزید دعا بھی کرتے۔ خاکسار کو اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک بات جس سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی پریشانی ہو تو خوب استغفار کرو۔اللہ تعالیٰ کا فضل بہت جلد آن پہنچتا ہے۔

آپ کو مکرم چوہدری حمید اللہ مرحوم وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے بیرون ملک خدمت کے دوران پیش آنے والے واقعات لکھنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ نے جب یہ کام شروع کیا تو اس وقت خاکسار کا تقرر دفتر اصلاح و ارشاد مقامی میں ہوا تھا۔ خاکسار کو بھی آپ ایمان افروز واقعات سناتے تھے۔خاکسار کو دفتری اوقات کے بعد ان واقعات کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی توفیق ملی۔ یہ واقعات ایک ضخیم کتاب کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ان میں بہت سے واقعات مبلغین سلسلہ کے لئے میدان عمل میں خدمت کرنے کےحوالے سےنمونہ اور گائیڈ ہیں۔

خلافت سے محبت و عقیدت

آپ کا خلافت کے ساتھ بہت محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور خلافت میں 1977ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے دور خلافت میں1991ء میں بیرون ملک سیرالیون تقرری ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے آپ کے بیرون ملک خدمت کے دوران تبلیغی واقعات کو جلسہ سالانہ برطانیہ و جرمنی میں بیان فرمایا ہے اور آپ کو خطوط میں بیرون ملک احسن رنگ میں خدمت کرنے پر حوصلہ افزائی فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت خلافت کے زیر سایہ افریقہ اور دفاتر صدر انجمن احمدیہ میں خدمت کی توفیق ملی۔اس تمام عرصہ خدمت میں آپ کا خلافت احمدیہ سے براہ راست اور گہرا تعلق رہا۔ ہمیشہ خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں مکمل اطاعت اور عاجزی کے ساتھ خدمت کرتے رہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو کثرت سے دعائیہ خطوط لکھتے اور ایک دن خاکسار کو بھی دعائیہ خط لکھنے کے حوالہ سے راہنمائی کی کہ خط کے درمیان میں بکس بنا کر اس میں جامع الفاظ کے ساتھ اپنا مضمون بیان کرنا چاہیے۔

فراخ دلی سے مالی قربانی

آپ بڑےفراخ دل کے مالک تھے۔ ہر کام میں پیش پیش رہتے اور ہر ایک کی مدد کے لئے ہر دم تیار رہتے۔ آپ کے پاس گاڑی تھی۔ جب بھی کوئی جماعتی کام دورہ وغیرہ ہوتا اور دفتری گاڑی مصروف ہوتی تو آپ فوراً اپنی خدمات پیش کردیتے۔ اسی طرح کسی کو ذاتی طور پر کام ہوتا تو اس کو بھی گاڑی پیش کر دیتے۔ دفتر آتے ہوئے بھی یہی طریق رہا کہ دوست احباب و کارکنان کو ساتھ لاتے اور واپس بھی ساتھ لے کر جاتے۔

ایک کارکن صاحب نے خاکسار کو بتایا کہ ایک دن جب وہ ڈیوٹی پر آئے تو خوشی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ خوشی صاحب کو پتہ نہیں کیسے علم ہو گیا کہ وہ کارکن پریشان ہیں۔ خوشی صاحب نے فوراً پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس پر وہ کارکن بات چھپانے لگے لیکن خوشی صاحب نے بڑے بزرگ کی طرح اصرار کرکے بات پوچھی۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ خاندان میں اکٹھی دو شادیاں آگئی ہیں تو کچھ مشکل تھی۔ اس پر خوشی صاحب نے جیب سے متعلقہ ضرورت کی رقم نکال کر دی اور کہا کہ بعد میں مجھ سے اور بھی لے لینا۔اسی طرح بہت سے احباب کسی نہ کسی ضرورت کے تحت آپ کے پاس آتے اور آپ انہیں کبھی خالی نہ لوٹنے دیتے۔

سوشل شخصیت

خلفاء احمدیت کی ہدایت کے مطابق کہ ایک مربی سلسلہ کے وسیع روابط ہونے چاہئیں۔ آپ کا حلقہ احباب اور سوشل سرکل بہت وسیع تھا۔ پاکستان میں جن سنٹرز میں خدمت کی توفیق ملی وہاں کے احباب جماعت جب دفتر تشریف لاتے اور ان سے ملاقات ہوتی تو ایسا لگتا کہ جیسے ایک فیملی کے افراد ایک دوسرے کو مل رہے ہیں۔ خوشی صاحب بھی ان احباب سے علاقہ کے دیگر احباب کا نام لے کر خیریت معلوم کرتے۔ جیسے آپ سب احباب کو ذاتی طور پر جانتے ہوں۔اسی طرح اپنے گاؤں کے افراد کے لئے بھی ایک بزرگ کی حیثیت رکھتے تھے۔بہت سے عائلی معاملات بھی باخوبی حل کیئے۔ دفتر میں بھی آپ اس صلاحیت و خوبی کے تحت بطور نگران مضافاتی کمیٹی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔

اسیر راہ مولیٰ

آپ کو 31 جولائی 1986ء تا 13 اگست 1986ء کلمہ طیبہ کی حفاظت کے سلسلہ میں اسیرِراہ مولیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔اس وقت آپ پیر محل ضلع ٹوبہ میں بطور مربی سلسلہ تعینات تھے۔ خوشی صاحب بیان کرتے تھے کہ ان دنوں عبادات نمازوں کے علاوہ احباب جماعت کی طرف سے پیش کئے گئے کھانے کا جو مزہ آیا اس طرح اب محسوس نہیں ہوتا۔

بطور مشنری ٹیچر خدمت

1991ء میں آپ کا تقرر بطور مشنری ٹیچر سیرالیون ہوا۔ جب آپ سیرالیون پہنچے تو بغیر کسی توقف کے تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور آپ بیان کرتے تھے کہ آپ روزانہ اسمبلی میں بچوں کو قرآنی سورہ یاد کراتے جس پر تمام بچوں کو اسلامیات کا نصاب زبانی یاد ہو گیا۔ آپ نے سکول کے بچوں کی حوصلہ افزائی اور مسابقت فی الخیرات کے لئے ذاتی طور پر متعدد بار انعامات دیئے اور اسی طرح خدام اور انصار کی حوصلہ افزائی کے لئے بھی کوشش کرتے رہتے۔آپ کو سیرالیون کے بچوں کے لئے سہل طریق پر انگریزی زبان میں کتاب دینی معلومات ترتیب دینے کا بھی موقع ملا۔ جس کو بہت سراہا گیا۔

مضامین لکھنا

آپ بیان کرتے ہیں کہ آپ کو سیرالیون میں مضامین لکھنے کی توفیق ملی۔ آپ نے برکات رمضان اور روزہ کے مسائل کے متعلق انگریزی زبان میں مضامین لکھے۔ یہ مضامین سیرالیون کے اخبار میں شائع ہوئے۔ ان مضامین کی اشاعت کے بعد لوکل ریڈیو کی درخواست پر امیر صاحب کی اجازت سے تقاریر کی بھی توفیق ملی۔

شاعری

آپ کو شاعری کے ذریعہ بھی اپنے جذبات کے اظہار کی توفیق ملی۔ یہ نظمیں افریقہ میں خدمت، اسیرانِ راہ مولیٰ، شہدائے احمدیت اور دیگر مواقع کی ہیں جو کہ آپ کے دلی جذبات کی باخوبی عکاسی کرتی ہیں۔آپ کے بیٹے نے بتایا کہ وفات سے تقریباًایک ماہ قبل جب آپ کی صحت ٹھیک تھی اور دفتر بھی جارہے تھے۔ اپنے بیرون ملک سے آئے ہوئے بیٹے کو مخاطب کر کہ ایک پنجابی نظم لکھی اور ترنم نے پڑھی۔یہ نظم آپ کی وفات کی خبر دے رہی تھی۔ ایک مصرعہ اس طرح ہے۔ غالب میرے جانڑ تے تو گبھرائیں نہ۔ یعنی غالب میرے دوسرے جہاں میں جانے پر مت گھبرانا حوصلے سے کام لینا۔

آخری سانس تک وقف پورا کرنے کی خواہش

جب خوشی صاحب کی طبیعت خراب تھی تو خاکسار نے ان کو آرام کرنے کا کہاتو کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ آخری سانسوں تک وقف پورا کروں اور خدمت کی توفیق بھی ملتی رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کو پورا کیا اور آپ وفات سے چند دن قبل تک دفتر آتے رہے۔ پھر بیماری کے سبب ہسپتال داخل ہوئے۔

وفات

آپ مؤرخہ 8فروری 2022ء بروز منگل رات 11.30بجے بعمر 70 سال بقضائے الہیٰ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں وفات پا گئے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ کی نماز جنازہ مکرم و محترم سید خالد شاہ صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے 11فروری 2022ء بروز جمعہ شام 5 بجے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ دار الفضل میں تدفین پر دعا کروائی۔ نماز جنازہ میں بڑی کثرت سے ربوہ کے محلہ جات اور اردگرد کے دیہاتوں سے احباب جماعت نے شرکت کی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اورآپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرمایاکہ۔۔ ۔بہر حال ان کے بارے میں بہت سے لوگوں نے واقعات لکھے ہیں اور ہر ایک نے یہی لکھا ہے کہ ملنسار تھے، عاجز تھے، دعا گو تھے، خلافت سے پختہ تعلق تھا اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کرنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

(الفضل انٹرنیشنل 18-24مارچ 2022ء)

(ابن زاہد شیخ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ