• 1 مئی, 2024

یادوں کی جاگیر

زندگی کے سفر میں بعض لمحات، واقعات اور پل ایسے آتے ہیں جن کی مہک اور یادیں سرمایہٴ حیات بن جاتی ہیں۔ وہ یادیں اِس طرح زندگی کا حصہ بنتی ہیں کہ انسان جب اُن پَلوں کو سوچتاہے تو دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ مناظر نہ صرف آنکھوں کے سامنے چلنے لگتے ہیں بلکہ ایک راحت اور ٹھنڈک کا احساس بھی بخشتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک انتہائی یاد گار سفر گزشتہ دنوں کرنے کی توفیق ملی اور اس بابرکت سفر سے ہماری حسین یادوں کی جاگیر اور وسیع ہو گئی۔

گزشتہ سال نو مبر میں حیات مستعار میں پہلی بار امریکہ جانے کا موقع ملا۔میری لینڈ میں ایستادہ جماعت کی مرکزی مسجد ’’بیت الرّحمٰن‘‘ میں مختلف بزرگان اور کارکنان سے ملنے اور گفتگوکرنے کا موقع ملا۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ اس وقت جماعت امریکہ کا ایک بڑا تعمیری منصوبہ زائن میں زیر تکمیل ہے۔ ان کی یہ بات ذہن میں محفوظ رہی۔

زائن شہر کا نام جماعتی تاریخ کا عمومی علم رکھنے والے ہر احمدی کو معلوم ہے کیونکہ یہ اس شاتم رسول کا بسایا ہوا شہر ہے، جو اصدق الصادقینﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہونے والے مہدی و مسیح اور امام آخرالزّمان کے مقابل کھڑا ہوا اور انتہائی عبرت ناک انجام سے دوچارہو کر اسلام کی سچائی اور اپنے عقیدے کے بطلان پر مہر تصدیق ثبت کر گیا۔

وہ صدی جو ازل سے مسیح آخرالزّمان کی آمد کے لئے مقدر تھی اسلام کا وہ بطل جلیل اُسی صدی کے سر پر نمودار ہوا، وہ توحید کے قیام کے لئے چومکھی لڑائی میں مصروف تھا اور اس کی قوم کے لوگ اور ہم وطن پے در پے نشان دیکھ رہے تھے۔ سعید فطرت ان سے فائدہ اٹھا کر عافیت کے حصار میں داخل ہو رہے تھے اور بد فطرت انکار پر مصر تھے۔ اسی اثناء میں دنیا کے دوسرے کنارے پر امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایک بد طینت شخص ظاہر ہوا۔ جو نہ صرف نبوت اور الہام کا دعویدار تھا بلکہ حضرت سیّد النبیّین و اصدق الصادقین وخیر المرسلین وامام الطیّبین جناب تقدّس مآب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجنابؐ کو یاد کرتا تھا۔ وہ توحیدِ اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا اور آئندہ بیس سال کے عرصے میں ساری دنیا میں عیسائیت کے غلبے کا آرزومند تھا۔

مگر جب توحید حقیقی کے منّاد تک اس کے دعویٰ کی خبر پہنچی تو اس مرد میدان نے باطل کے اس پجاری کو بڑی تعلّی کے ساتھ للکارا اور جلد تر آنے والی آفت کی خبر دی اور پھر چار سال کے مختصر عر صہ میں چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ایک صاحب ثروت صحت مند شخص مفلوج ہو کر انتہائی کسمپرسی کے حالت میں ایڑیاں رگڑتا ہوا واصل جہنم ہوا اور اُسے للکارنے والے نے خود اس نشان کو: ’’فتح عظیم۔ ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا جھوٹا نبی میری پیشگوئی کے مطابق مر گیا۔‘‘ کے جلّی حروف سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی موت پر 17؍اپریل 1907ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور اور ڈوئی کے مرنے کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ: ’’پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔ اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ اس سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا۔ وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ515-516 ایڈیشن 2009ء)

امسال اگست میں یہ خبر ملی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ستمبر میں مسجد فتح عظیم زائن کے افتتاح کے لئے امریکہ تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی اس بابرکت تقریب میں شمولیت کے لئے تگ و دو شروع کر دی۔ اجازت ملنے میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور کئی بار ذہن پر مایوسی نے غلبہ بھی کیا، مگر در مولیٰ سے خیر کی امید قائم دائم رہی۔ 26؍ستمبر 2022ء کی رات خاکسار کو شمولیت کی اجازت موصول ہوئی اور 28؍ستمبر 2022ء کی رات ہم ہوا کے دوش پر امریکہ کی جانب محو پرواز تھے۔ جمعرات کی دوپہر 1بجے خاکسار ملواکی شہر کے فضائی مستقر پر پہنچا تو محترم جواد احمد صاحب خاکسار کو لینے کے لئے موجود تھے۔ ان کی کار میں خاکسار کا مہمان والا کارڈ اور ہوٹل کے کمرے کا کارڈ موجود تھا۔موصوف نے مجھے کہا کہ آپ کو قیام گاہ لے چلتا ہوں، کچھ آرام کر لیں اور تازہ دم ہو کر مسجد آجائیں۔ لیکن میں نے عرض کی کہ مجھے سیدھا مسجد لے چلیں۔ تقریباً تیس منٹ کے سفر کے بعد ہم زائن شہر میں داخل ہوئے تو میرے میزبان نے پھر وہی بات دہرائی کہ آپ پہلے ہوٹل چلے جائیں اور آرام کرکے پھر مسجد آجائیں، لیکن میں جس مقصد کے لئے گھر سے چلاتھا پہلے اسے پورا کرنے پر مصر رہا۔ چنانچہ ہم اس وقت مسجد فتح عظیم میں پہنچے جب میر کارواں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز ظہر و عصر پڑھا کر اپنی قیام گاہ کی طرف جا رہے تھے۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا، سلامتی کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، مصافحے اور معانقے جاری تھے۔گویامسجد فتح عظیم کی ساری فضا میں محبت و اخوت کے رنگ بکھرے نظر آئے۔ اپنا سامان انتظامیہ کے دفتر میں رکھا اور مسجد کا مرکزی ہال اور دفاتر دیکھے۔ مسجد سے ملحقہ نمائش ہال میں اس وقت مردوں کا داخلہ شروع تھا۔ چنانچہ اس ہال میں داخل ہوااور دیوار پر آویزاں وہ فریم دیکھا جس میں انتہائی نفاست کے ساتھ اس اخبار کا عکس محفوظ کیا گیا ہےجس نے بصد نیاز مرزا غلام احمد کی عظمت کا اعلان کیا۔ پھر چاروں طرف سجے شوکیسز میں رکھے اخبارات و رسائل کے نمونے دیکھے، اور جدید زمانے کی جدت لئے صوت و صورت سے مزین سکرینز پر چلنے والی دستاویز دیکھیں۔ ہال کے ایک کونے میں شیشے کے ایک بڑے بکس میں ایک انتہائی خوبصورت، نفیس اور بابرکت کوٹ رکھا گیا ہے۔ جو کبھی اس مقدس و مطہر وجود کے تن کی زینت بنا جو اس زمانے کا مصلح و مسیحا تھا۔ جس کی پوشاک کو یہ مقام و مرتبہ نصیب ہے کہ عرش عظیم کے رب نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘

نمائش کا یہ ہال خود اس بات کا ثبوت دے رہا تھا کہ اس کو کتنی گہری تحقیق منصوبہ بندی نفاست اور محنت شاقہ کے بعد آنے والوں کے استقبال کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ مولاکریم ان تمام کارکنان کو بے شمار فضلوں، رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔

سرشام مسجد کے اطراف میں لگے سفید براق خیمہ جات پر برقی قمقموں کی روشنی شہر بہاراں کا دلکش منظر پیش کرنے لگی۔ مسجد فتح عظیم ویسے بھی فن تعمیر کا شاہکار ہے اور اس پر لگی خوبصورت لائٹس اس کے حسن کو دوبالا کر رہی تھیں۔ ڈیوٹی دینے والے بڑی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف تھے اور کارکنان بڑی خوش دلی کے ساتھ مہمانوں کی خدمت پر کمر بستہ تھے۔

جمعۃ المبارک کی صبح ہمیں نماز فجر محراب کے بالکل سامنے دوسری صف میں خلیفہٴ وقت کی اقتدا میں ادا کرنے اور امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ نماز سے فارغ ہو کر باہر آنے کے بعد یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ عاشقانِ خلافت اپنے محبوب امام کی قربت میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے لائنوں میں لگ گئے ہیں۔ ہر طرف انہی کے جذبے اور شوق کا تذکرہ تھا۔ جو دوست ہمیں گاڑی میں ہوٹل واپس چھوڑنے جارہے تھے وہ بھی سارے راستے انہی کا ذکر کرکے ورطہ حیرت میں ڈوبے رہے کہ کشتی خلافت کے یہ کیسے شہسوار ہیں۔ یہ کیسی ایمانی حرارت ہے۔ نماز جمعہ ہم نے زائن کی اجلی دھوپ میں خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتداء میں پڑھا۔ سُرینام میں سرد موسم کا کوئی تصور نہیں، اس لئے اس اجلی دھوپ میں بھی خنکی کا احساس تھا۔ اپنے مختصر قیام کے دوران تین مرتبہ مسجد کے ہال کے اندر نمازیں ادا کرنے کی توفیق ملی۔

زائن میں چار روزہ قیام کے دوران یہ جانا کہ ہر طرف سینکڑوں اور ہزاروں میل سے آنے والے عشاق کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ذاتی ملاقات نا ممکن ہے لوگ محض حضور پُرنور کا دیدار کرنے اور حضور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے کے لیے ہزاروں میل سے کھنچے چلے آئے ہیں۔ خلافتِ احمدیہ پر دل و جان سے نثار فدائیان اخوت و محبت کے بندھن میں بندھے ان پروانوں نے دنیاوی سیر وسیاحت سے ہٹ کر خلیفہٴ وقت کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی کو اپنے لیے باعث صد افتخار اور باعث برکت جانا۔ روزانہ یہ عملی نمونے دیکھنے میں آئے کہ لوگ ایک نماز کے بعد اگلی نماز کے لئے مسجد کے اندر جانے کی نیت سے لائن میں لگ گئے اور ’’اِنْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ‘‘ کی نہایت پاکیزہ صورت دیکھنے کو ملی۔ زائن کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے محمد عربیﷺ کے عاشق صادق مسیح و مہدی کا یہ پیغام کانوں میں رس گھولتا رہا: ’’ندائے فتح نمایاں بنامِ ما باشد‘‘

اپنے قیام کے دوران ہمیں ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کا گھر دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ تقریباً ایک سو بیس سال قبل تعمیر کی گئی یہ محل نما عمارت حسرت و یاس کا نمونہ پیش کرتی نظر آئی۔

پیر کی صبح انتہائی بوجھل دل کے ساتھ خوشگواریادوں کا ایک خزانہ ساتھ لئے واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔ دوران سفر مسیح وقت کی نصائح پر غور کرنے کی توفیق ملی جو اس نے ’’بشیر و نذیر‘‘ ہونے کے ناطے کل عالم کو مخاطب کرکے بیان کیں: ’’اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے… پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا…جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ49-50 ایڈیشن 2009ء)

پھر بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں:
’’یہ سِلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔ تم اس کو نابود نہیں کر سکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے… اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سِلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا اور یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا۔ سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہو گئی ہو اور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو۔‘‘

(اربعین نمبر 4، روحانی خزائن جلد17 صفحہ456 ایڈیشن 2009ء)

وہ مقدس و مطہر وجود جو دنیاوی لحاظ سے بیکس و گمنام تھاجب الہام کے نور سے سرفراز ہوا اور امتی نبی کے مقام و منصب پہ فائز کیا گیا اور عرش الٰہی سے اس کے قلم کو ’’ذوالفقار‘‘ قرار دیا گیا۔ تو وہ اس زمانے میں سلطان حرف و حکمت بنا۔ اس کی تحریر میں ایسی دل آویزی، چاشنی اور لطافت ہے کہ وہ پیاسی روحوں کے لئے آبِ بقاء کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان تحریرات کی سحر انگیزی اور ضو فشانی تا ابد قائم دائم رہے گی۔ وہ ہر فانی انسان کی طرح چند سال اس دنیا میں رہا اور ’’اللہ میرے پیارے اللہ‘‘ کا ورد کرتے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوا، مگر محمد عربی ﷺ کے عشق میں مخمور اسلام کایہ فتح نصیب جرنیل اپنے متبعین اور اہل دنیا کو یقین کامل اور جلال کے ساتھ یہ خبر دے کر گیا: ’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ مَیں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دوربین نگاہ سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ مَیں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے۔ جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ403 ایڈیشن 2009ء)

(لئیق احمد مشتاق۔ مبلغ سلسلہ سُرینام،جنوبی امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی