• 24 اپریل, 2024

محبت ہو تو ایسی کہ ہر ادا دل کو لبھائے (قسط 1)

محبت ہو تو ایسی کہ ہر ادا دل کو لبھائے
مسجد فتح عظیم اور حضور انور کے دیدار کے بعد تاثرات
قسط 1

ایک منفرد لمحہ

زائن شہر میں جانا ان تمام چیزوں کی انتہا تھی جو مجھے بحیثیت ایک احمدی مسلمان عورت کے بہت عزیز ہیں یعنی ایمان، انصاف،بین المذاہب تعلقات اور خواتین کو با اختیار بنانا۔

یہ تاریخی واقعہ ہمیشہ یادوں میں محفوظ رہے گا۔ یہ مسجد لجنہ اماءاللہ نے اپنی صد سالہ جوبلی کے موقع پر اظہار تشکر کے لیے تعمیر کی۔ اس موقع پر حضور اقدس کا دورہِ زائن اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاندار فتح کا مشاہدہ کرنا جو الیگذینڈر ڈوئی کے ساتھ دعائیہ مقابلہ میں ہوئی اپنی ذات میں ایک منفرد لمحہ تھا۔

(منصورہ بشیر منہاس۔ امریکہ)

کاش یہ نماز ختم نہ ہو

خاکسار کو اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا اور وہ بھی ایسی مسجد کے افتتاح کے موقع پر جو بے حد تاریخی اور عظیم فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کی گئی ہے۔یہ ہماری جماعت کے لئے ایک عظیم الشان نشان ہے۔ الحمدللّٰہ علی ذالک۔

ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تشریف آوری سے دو روز قبل ہی زائن پہنچ گئے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی جب ہم نے انتظامات کاجائزہ لیا (جو کہ ابھی تک نا مکمل تھے) تو ہم سخت پریشان ہوگئے اور سوچنے لگےکہ ہم آ تو گئے ہیں، لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اتنے دن کیسے گزاریں گے؟ موسم ہماری سوچ سے بہت زیادہ ٹھنڈا تھا اور ہم اپنے ہمراہ گرم کپڑے یعنی جیکٹس وغیرہ بھی نہیں لائے تھے۔ نماز کے لئے مسجد کی کار پارکنگ کی جگہ پرٹینٹ لگایا گیا تھا۔ جس میں زمین پر پلاسٹک کی شیٹس بچھائی گئیں تھیں۔ ہمیں رہ رہ کرخیال آتا تھا کہ ہم نرم صوفوں اورنرم قالینوں پر بیٹھنے والے لوگ کس طرح اس پر بیٹھیں گے؟ ہم اسی پریشانی میں اردگرددیکھ رہے تھےکہ ہمیں وہاں کچھ لجنات نظر آئیں ہم نےان سے سلام کیااور ذکر کیاکہ ہماری ضیافت کے لئے ڈیوٹی ہے۔ وہ ہمیں ضیافت کے ٹینٹ میں لے گئیں۔ وہاں پہنچ کر تو ہمارا وہاں سے بھاگنے کو دل چاہا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا سا میدان ہے اس میں کافی میزیں لگائی گئی ہیں، زمین پر فٹ فٹ گھاس اگی ہے اور زمین بھی اونچی نیچی۔ ہمیں بار بار اپنے پیروں کی وہ موچیں یاد آ رہی تھیں جو ہمیں ہلکا سا پاؤں مڑنے سے بار ہا آ چکی تھیں۔اوپر سے ذہن میں آتا تھا کہ ہم اور ہماری ضیافت کی ڈیوٹی والی بہنیں جب کھانوں سے بھری ٹریز اٹھا اٹھا کر چلیں گی تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم یا ہماری کوئی بہن زمین بوس نہ ہو۔ بہر حال ہم بہت زیادہ پریشان ہوئےاور ذہن میں طرح طرح کے وہم آنے لگے پھر ہم نے سوچا کہ اب ہم توآ چکے ہیں، واپس نہیں جا سکتے لیکن اپنی جماعت کی لجنہ کو تو آگاہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے اپنی صدرصاحبہ کو فون کیا اور ان کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ ان کی ہدایت جاری ہوئی کہ آپ سب لجنہ کو بھی بتا دیں کہ جو زائن جانا چاہیں وہ گرم کپڑوں وغیرہ کا انتظام کر کے جائیں۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی۔ جس پر ہمیں اپنی بہت سی بہنوں کی جانب سےشکریہ جیسے جذباتی کلمات موصول ہوئے، الحمدللّٰہ۔ اس روز وہاں سے آکر ہم نے حضور کو دعا کے لئے خط بھی لکھ ڈالا کیونکہ ہم بہت ہی زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔

اس سےاگلے دن تو پیارے حضور کی تشریف آوری کا دن تھا۔ ہم خوشی خوشی مسجد پہنچے اور کم از کم تین سے چار گھنٹے کھڑے ہو کر حضور کا انتظار کیا۔ استقبال کے لئے کھڑے چھوٹے چھوٹے بچے، بچیاں ترانے پڑھ رہے تھے۔با لآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضور پر نور تشریف لےآئے۔ حضور کے چہرہ مبارک پر نظر پڑتے ہی ہماری تمام سوچ کی توجیسے کایا ہی پلٹ گئی ہو۔وہی زمین پربچھی پلاسٹک شیٹس ہمیں اچھی لگنے لگی۔ وہی موسم ہمیں خوشگوار لگنے لگا اور وہی ضیافت ایریا کی اونچی نیچی زمین ہمیں چیلنج لگنے لگی۔ اپنے پیارے دین اور پیارے امام کے لئے تن، من، دھن قربان کرنے کو دل چاہنے لگا۔ پھر اللہ کے فضل سے حضور انور کا دیدار کئی بارنصیب ہوا اور حضور کی اقتداء میں نمازیں ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔حضور کی اللہ اکبر کی آواز کانوں میں پڑتے ہی روح آستانہ الوہیت پہ بہتی محسوس ہوئی۔ دل چاہتا کہ کاش! یہ نماز ختم ہی نہ ہو اور وقت تھم جائے۔ یا اسی جگہ ہماری جان نکل جائے اور ہم اپنے پیارے رب کے پاس چلے جائیں اوراس پیارےرب کے صدقے جائیں جس نے ہم ادنیٰ ناچیز کو یہ دن دکھائےکہ ہم حضور کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے ہیں۔

پھر جس دن حضور نے مسجد فتح عظیم کا افتتاح فرمایا تھا۔ اللہ کے فضل سے ہم بھی وہاں موجود تھے حضور کے ساتھ دعا میں شامل ہوئے۔ فضا میں نعرے گونج رہے تھے، بہت ہی روحانی ماحول تھا۔ الحمدللّٰہ۔

پورا ہفتہ کیسے گزارا؟ پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم اور ہماری سب ضیافت کی ٹیم نے بہت دل و جان سے خدمت کی توفیق پائی۔ الحمدللّٰہ۔ سب کام احسن طریق سے انجام پذیر ہوئے اور ہمیں کوئی ایک ایسا ناخوشگوار واقعہ بھی معلوم نہیں جس سے ہمیں یا ہماری کسی بہن کو کوئی تکلیف پہنچی ہو۔یا شاید اگر کوئی مسئلہ ہوا بھی تو اس کی اللہ تعالیٰ کے اتنے عظیم الشان فضلوں کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں تھی کہ اس کو تکلیف کہا جائے۔ آخری دن تو ہماری یہ حالت تھی کہ وہاں سے واپس آنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ ضیافت کے ایریا میں زمین پر پڑی ملچ کے تنکوں سے تو جیسے ہمیں پیار ہی ہو گیا تھا اور اس مٹی کی خوشبو ہمارے اندر سرایت کر گئی تھی اور ہمیں لگ رہا تھاکہ ہم نے اس دنیا کی زمین کی بجائے کسی اور ہی دنیا کی زمین پر وقت گزارا ہے۔ بہرحال بالآخر واپسی کا دن آگیا ہم پیارے حضورکے دیدار اور ان کو الوداع کہہ کر اشکبار آنکھوں اور دل میں شکرگزاری کے جذبات لیےواپس لوٹے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوپیارے حضور کی نصائح پر عمل کرنے والا بنائے اور ہم اپنے جائزے لے کر، نیکیوں پر قدم مارتے ہوئے اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے ہوں اور اس کے عبادت گزار بندے بنیں آمین۔

(آنسہ محمود بقاپوری۔ امریکہ)

مجھے پختہ ایمان ہے کہ اللہ نے حضرت مسیح موعودؑ کو دعا کا معجزہ بطور نشان کے دیا تھا

میں پیشہ کے لحاظ سے مکینیکل انجینئرہوں اور میری عمر باون سال ہے۔ اس کےساتھ میں چار بچوں کی ماں اور 86 سالہ بوڑھی ساس کی دیکھ بھال کرنے والی بھی ہوں۔ مجھے 28؍ستمبر 2022ء بروز جمعرات اپنے شوہر مکرم ڈاکٹر نعیم لغمانی، عزیزم موسیٰ لغمانی اور عزیزم ہارون لغمانی، ساس، بہنوئی اوربھتیجے کے ساتھ Zion پہنچنے کی توفیق ملی۔ ہم اتوار تک وہاں رہے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں کہ میں اس خوبصورت تقریب میں شامل ہوکر خود کو کتنا خوش قسمت محسوس کر رہی ہوں۔ میں الیگذنڈر ڈوئی کا گھر، قبرستان،لیس فیکٹری، گرجا گھر اور ہوٹل دیکھنے گئی۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد ہی وہ عظیم مسیح موعود علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا معجزہ بطور نشان کےدیا۔ مسٹر ڈوئی کا قابل رحم انجام نیز ہمارے خلیفہٴ وقت کا شہر کی چابیاں حاصل کرنا اور اس مسجد کی تعمیراس بات کی گواہی ہے کہ چاہے ہم کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں، خدا تعالیٰ کی نصرت ضرور ظاہر ہوگی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور میری تمام اولاد کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور اس کے بندے بنے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(شمائلہ لغمانی۔ امریکہ)

زائن شہر کا تاریخی سفر

عاجزبارہا اپنے بچپن میں اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے بعد شدید تڑپ سے سوچا کرتا تھا کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کس قسم کے انسان تھے جو دن رات اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اشارے پرجان قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔ یہ تو کوئی عام انسان نہیں ہو سکتے وہ ضرور کوئی آسمانی مخلوق ہوں گے۔ مگر شعور پانے کے بعد نیزتاریخ احمدیت کےمطالعہ کے بعد اور چہرہ مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی تصاویر دیکھ کردل مطمئن ہوا کہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم بھی ایک عام انسان تھے مگر ان کا تقوی کا معیار بہت بلند تھا کیونکہ ان کی تربیت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے فرمائی تھی۔ اسی طرح اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کر کے ایک بارپھر بنی نوع انسان کی تربیت کا انتظام کردیا اور وہ دوبارہ عام انسان سے صحابہ رضوان اللہ علیہم کہلانے کےمستحق ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں

’’صحابہ سے ملا جب مجھ کوپایا‘‘

سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو جب تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جاتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ اسلام چھوڑ دو مگر ان کا بیان ہوتا تھا ’’احد احد‘‘۔اسی طرح مولوی برہان الدین رضی اللہ عنہ کے منہ میں جب زبردستی گوبر ڈالا گیا تو آپ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’او برھانیا! یہ نعمتاں فیر کتھے۔‘‘

اسی طرح دشمنان اسلام اور نبیوں کو ٹھکرانے والوں کے بارے میں بھی لوگ اکثر ضرور سوچتے ہوں گے کہ وہ قدردنیاوی جاہ و حشمت رکھنے والے لوگ تھے مگروقت کے مامور سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئےاور رسوا کر دیے گئے۔ باوجود اپنی تمام دولت عزت اور شان کہ آج ان کو کوئی نہیں جانتا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے۔ یہ ہزار سال میرے ہیں سو ہم دیکھتے ہیں آج زمانے کے امام سے ہی عزتیں اور دولتیں منسلک ہیں چاہے موافقت سے ہوں یا مخالفت سے۔آج کون لیکھرام یا ڈاکٹر ڈوئی کوجانتا ہے!!! ان کی ہلاکتیں آپ علیہ السلام کی صداقت کا زندہ نشان ہیں۔

یہ ماضی کے قصے صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ہم ان کا مشاہدہ اب بھی کر سکتے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ صحابہ کا درجہ تو نہیں پا سکے مگر خدا کے فضل کے ساتھ تابعین کا درجہ نصیب ہوگیا جو صدیوں سے لوگوں کو نہیں نصیب ہوا تھا۔ کیا ہی یہ ہماری خوش قسمتی ہے کی ہمیں امام آخرالزماں کا وقت اور خلافت سےفیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہو رہا ہے جس کی پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔

خاکسار اپنے تاثرات ایک ایسے تاریخی واقعہ کے بارہ میں پیش کر رہا ہے جس کےپورا ہونےکی خبر خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کوبتائی تھی کہ میں تجھے فتح عظیم عطا کروں گا۔ جس میں حق کے دشمن نے وقت کے نبی سے ٹکر لی اور وہ پاش پاش کردیا گیا۔ڈاکٹر ڈوئی اپنی جاہ و حشمت کے زعم میں اللہ کےفرستادے کو اپنے پاؤں کے نیچے مکھی کی طرح مسلنے کے قابل سمجھتا تھا وہ خود تباہ و برباد ہو گیا اور فتح عظیم خدا کے پیارے نبی کا مقدر بنی۔

عاجز کے قریبی دوست مکرم راشد شمس (بوسٹن جماعت) کے ساتھ بروز جمعہ صبح سویرے بوسٹن شہر جو زائن شہر سے تقریبا ًایک ہزار میل دور ہے سفر شروع کیا۔ ڈھائی گھنٹے کی فلائٹ کے بعد شکاگو شہر پہنچ گئے۔ وہاں سے کار لے کر زائن کی طرف کا سفر شروع کیا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے فاصلے پر موجود ہے۔ خلافت کی محبت اوراس تاریخی موقع میں شمولیت کا جذبہ ہی تھا جو ہمیں تھکن کا احساس نہیں ہونے دے رہا تھا۔جب کہ ہم دونوں رات بھر سوئے نہیں تھے بلکہ اپنی جاب سے گھر آتے ہی سفر کی تیاری پکڑ لی تھی۔ ہماری مسلسل یہی دعا تھی کہ وقت پر جمعہ کی نماز سے پہلے پہنچ جائیں اور تاریخ کا حصہ بن جائیں۔ الحمدللّٰہ خلیفہٴ وقت کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا موقع مل گیا اور اس فتح عظیم کی شہادت اور گواہی پیش کرنے کا موقع مل گیا۔ ہمارے دلوں میں یہی صدا تھی کہ غلام احمد کی جے!!!

جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد تقریبا ایک گھنٹہ قطار میں کھڑا رہنے کے بعد نمائش کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ ماشاءاللّٰہ بہت محنت سے نمائش تیار کی گئی تھی جس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پرانی دستاویزات کو محفوظ کر دیا گیا تھا۔ ہم دونوں نے نمائش میں سب سے زیادہ وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استعمال شدہ کوٹ کی زیارت میں لگایا۔ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا الہام ہمارے ذہن میں تھا اور دل میں بہت خواہش تھی کاش اس کو ہاتھ لگا سکیں مگر صرف آنکھوں سے ہی دیکھ کر دل کی ٹھنڈک کو پورا کیا۔

بروز ہفتہ زائن شہر کی سیر کرنے کا اور ان تمام مقامات کو دیکھنے کا موقع ملا جو ڈاکٹرڈوئی کی تبلیغ کا مرکز تھیں۔ جس میں اس کی تعمیر شدہ چرچ اور ایک عالیشان مکان اور اس کی بنائی ہوئی فیکٹری شامل تھیں۔ یہاں میں ذکر کر دوں کہ دوران نمائش مکرم انور خان نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک بہت ہی پرحکمت بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ نمائش کے معائنہ کے دوران حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جس طرح فرعون کی لاش کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی عبرت کے لئے محفوظ کر دیا تھا اسی طرح ڈاکٹر ڈوئی کے نشانات کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔

نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جا ئے گا
ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے

خدا کے حضور دعا ہے کہ تمام دنیا ان نشانات کو دیکھ کر حق کو قبول کرنے کی توفیق پائےاور احمدیت حقیقی اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے۔ آمین۔

(مسعود اشرف۔ فچبرگ، امریکہ)

ستارے کی طرح چمکتا دیکھنا ایک زبردست تجربہ تھا

الحمد للّٰہ مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں مسجد فتح عظیم کے اپنی فیملی کے ساتھ افتتاح کی تقریب میں شامل ہو نے کا موقع ملا۔

ہمارے پیارے امام کو افرادِجماعت، ہمسایہ غیر از جماعت احباب اور جماعت کے دوستوں کے درمیان ستارے کی طرح چمکتا دیکھنا روحانی طور پر ایک بڑا زبردست تجربہ تھا۔

ہفتہ بھر کے بھر پور پروگراموں میں تمام شاملین نے اس یاد گار دورہ کی برکتوں اور جوش و خروش کا بہت اچھی طرح مشاہدہ کیا۔ مرد، عورتیں، بچے بڑے صبر کے ساتھ سرد موسم میں حضور اقدس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہے۔اور یہ نظارہ بہت قابل دید تھا۔

اسی طرح دعاؤں ترانوں اور بہت بھاری دل کے ساتھ حضور اقدس کو خدا حافظ کہنا بھی ہم سب کے لیے ایک انتہائی جذباتی مرحلہ تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جلد ہی اپنے پیارے امام کے ساتھ ایسی بابرکت تقریبات دیکھنے کے مزید مواقع پیدا فرمائے آمین۔

(ناصر الدین محمود۔ شگاگو۔ امریکہ)

شاندار تجربہ

مجھے اپنی فیملی کے ساتھ زائن شہر کی مسجد فتح عظیم جانے کا موقع ملا۔

حضور انور کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے میں نے بہت بابرکت وقت گزارا۔ الحمد للّٰہ مجھے کئی بار حضور انور کو دیکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

مجموعی طور پر مجھے اس تاریخی شہر کے بارے میں جاننے اور خوبصورت مسجد ’’فتح عظیم‘‘ کو دیکھنے کا شاندار تجربہ ہوا۔

(فاران محمود، پیس ویلیج کینیڈا)

حضور سے ملاقات ایمان کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنی

مجھے مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ اس موقع پر ہمیں حضور انور سے ملنے کا موقع بھی ملا جو کہ ہمارے لیے بہت شاندار تھا۔ مجھے پہلی بار حضور اقدس سے ملاقات کرکے اور بات کر کے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ حضور اقدس نے ازراہ شفقت الگ سے مجھ سے میرے بچوں کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ میں نے بچوں کے لیے دعا کے لیے عرض کیا تو آپ نے مجھے دعا دی۔

اس طرح کے مواقع ہمارے ایمان کو بہت مضبوط بناتے ہیں اور ہمیں ہمارے مذہب کے مزید قریب لاتے ہیں۔میں بہت خوش ہوں اور سب انتظامیہ کا شکر گزار ہوں اور میری خواہش ہے کہ ہمیں اس طرح کے پروگرامز مزید منعقد کرنے چاہیں۔

(امۃ النصیر۔ امریکہ)

فتحِ عظیم کے مبارک لمحات

میرا نام شازیہ صباحت مرزا ہے۔ میں ناروے میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی۔ دو سال قبل میری شادی کینیڈا کے ایک مربی سلسلہ وجیہہ الرحمان صاحب مرزا ولد لطف الرحمان مرزاصاحب حال کینیڈا سے ہوئی۔ نیو یارک میں تعیناتی کے بعدہم وہاں کے مشن ہاؤس میں شفٹ ہو گئے۔ نیو یارک میں شفٹ ہو نے کے تقریباً ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ سفر کرنے کا موقع عطا فرمایا جس کو میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔ یہ سفر Zion کی جانب تھا۔ جب ہم اس شہر میں داخل ہو رہے تھے تو ذہن کی عجیب کیفیت تھی دو قسم کے احساسات اور جذبات حاوی تھے، سب سے پہلے تو خدائے بزرگ وبرتر کے احسانات کا شکر کہ اس نے مجھ پر یہ کیسا احسان کیا ہے کہ میں اپنے پیارے خلیفہ کا دیدار کروں گی اور دوسرا یہ احساس کہ کیا واقعی میں ڈاکٹر ڈوئی کے بسائے ہوئے اس شہر میں جا رہی ہوں جس کے متعلق ناروے میں رہتے ہوئےبچپن سے لے کر جوان ہو نے تک حضرت امام الزماں علیہ السلام کی پیشگوئی اور بحث مباحثوں کو پڑھتی سنتی اور سیکھتی رہی ہوں۔ کیا واقعی اب میں اپنی آنکھوں سے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ایک حصے کواور حضر ت امام الزماں علیہ السلام کی صداقت کے اس زندہ ثبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گی۔ ناروے میں جب ہم ان باتوں کا علم حاصل کر رہے تھے تو صداقت کا یہ نشان پورا ہونا بہت دور کی بات لگتا تھا مگر اب یہ حقیقت میرے سامنے تھی۔ اس پیشگوئی کا وہ حصہ جس میں اسلام کا غلبہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ایک مرتبہ پھر ظاہر ہونا تھی، عنقریب پورا ہونے والا تھا۔ وہ جان الیگزینڈر ڈوئی جو ایک وزیر، تاجر، صیہون کا بانی اور اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کا شدید مخالف تھا۔ جو چاہتا تھا کہ تمام مسلمانوں کو زمین سے مٹا دے۔ جو اپنے زُعم میں مسلمانوں اور اسلام کو نعوذباللّٰہ ختم کرنے نکلا تھا اس کے بسائے ہوئے اسی شہر میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا پانچواں مظہرمسجد کا افتتاح کرنےآرہا تھا۔ یہی تو احمدیت کی صداقت کا نشان تھا۔ جو عنقریب پورا ہونے والا تھا۔

پیارے خلیفہ کی امریکہ آمد سے چند گھنٹے پہلے ہی سب کا جوش و خروش بڑھ رہا تھا۔ ہزاروں احمدی اپنے روحانی باپ کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ مسجد عظیم فتح کے باہر، بالغ، نوعمر اور چھوٹے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ کھڑے تھے جب کہ بوڑھے عمر رسیدہ لوگ جو تھک کر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اس قیمتی لمحے کا انتظار کر رہے تھے کہ کب ہم لوگ حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکیں گے۔ آخر وہ لمحہ آگیا جب حضور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز تشریف لائے۔ جونہی میری نگاہ ان پر پڑی، ایسے محسوس ہوا جیسے میری تمام پریشانیاں اور فکریں ختم ہورہی ہیں۔ میرے دل میں ایک اطمینان اور سکون سا بھرگیا تھا۔

حضور کی آمد کے بعد ان کے پیچھے روزانہ پانچ نمازیں پڑھنے سے مجھے روحانی طور پر ترو تازہ ہونے کا احساس ہوا۔ میں اپنے آپ کو اور اپنے شوہر کو انتہائی خوش قسمت سمجھتی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے دنیائے احمدیت کے اس خاص پروگرام میں حاضر ہونے کا موقع دیا۔ الحمدللّٰہ!

(شازیہ صباحت۔ نیو یارک،امریکہ)

ماہی بے آب کی طرح تڑپ اٹھا

زندگی کے کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اپنی آخری سانس تک یاد رہتے ہیں۔ انہی میں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے چند وہ لمحے میری زندگی کے انمول ہوں گے۔27؍ستمبر 2022ء کو شام چھ بجے کے قریب میری اور میری فیملی کی ملاقات حضور انور کے ساتھ مقرر تھی۔ درودشریف پڑھتے ہوئے میرے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ یہ تو مجھے یقین تھا کہ میں اس محدود وقت میں یقیناً دل کی باتیں نہ کہہ سکوں گا اس لیے میں نے قلم اور کاغذ کا سہارا لیتے ہوئے دل کی بہت سی باتیں لکھ ڈالیں اور تمام دوستوں اور عزیز رشتے داروں کی دعا کی در خواستیں اور السلام علیکم کا پیغام لکھ دیا جن کا تذکرہ یقیناً حضور انور کے سامنے ممکن نہ تھا۔

آخر کار وہ لمحہ بھی آن پہنچا جس کا انتظار تھا لڑکھڑاتے قدموں اور تیز دھڑکنوں کے ساتھ جونہی حضور انور کے کمرہ میں قدم رکھا تو حضور انور کی آواز کانوں سے ٹکرائی ’’السلام علیکم آئیے نیاز صاحب! بیٹھیے‘‘ آواز کا سننا تھا کہ میں ماہی بے آب کی طرح تڑپ گیا آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہ لیتے تھے اور آواز کسی گہری جگہ دب گئی۔

تب حضور انور نے نہایت شفقت سے کلام کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے خاندان میں احمدیت کب آئی تھی تو میں نے پوری توانائی کو اکٹھا کیا اور بڑی مشکل سے بتایا کہ حضور میرے پر دادا حسین خان صاحب نے کشمیر میں بیعت کی تھی۔ پھر حضور نے پوچھا کہ آپ پاکستان میں کیا کرتے تھے۔ میں نے جواباً اپنی ملازمت کا بتایا اور بتایا کہ حضور میں امیگریشن لے کر پچھلے سال ہی آیا ہوں۔

میرے والد صاحب کو ساری زندگی خلیفہٴ وقت سے ملنے کا حد درجہ اشتیاق تھا اپنی وفات سے کچھ گھنٹے پہلے کہا کہ حضور آ رہے ہیں انتظام کرو۔ کیونکہ صبح جمعہ تھا اور والد صاحب کو خطبہ جمعہ کا شدت سے انتظار رہتا تھا تو میں نے اپنے والد صاحب کی طرف سے حضور کو السلام علیکم پہنچایا۔ حضور کو والدہ کی صحت کی درخواست کی تو آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا انہیں بھی اپنے پاس بلا لیں۔ آخر پر حضور نے بچوں کو چاکلیٹ اور قلم کے تحفے بھی دئیے۔ حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا آجاؤ تصویر بنوانی ہے۔ اس طرح یہ لمحات آنکھ جھپکتے ہی گزر گئے مگر ان کا سرور آج بھی جاری ہے۔

اس وقت کے دوران مجھے وہ لمحات یاد آرہے تھے جب میں 4 یا 5 سال کا تھا تو میرے والد صاحب ہم بھائیوں کی انگلی پکڑ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کے لیے لے جارہے تھے اور میرے دل و دماغ پر آج بھی اس نورانی چہرہ کا نقش غالب ہے اور آج پینتالیس سال بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح کے چہرہ انور پر نظر پڑی تو وہی نور اور جلال نظر آیا جس سے ایمان تو تازہ ہوا اور یہ یقین بھی پختہ ہوا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور یہ کار خدا ہی کا ہے۔ اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں۔ پینتالیس سال پہلے میں والد صاحب کی انگلی پکڑے ہوئے خلیفہٴ وقت کو دیکھ رہا تھا آج میرے بیٹے عمر شیراز اور سالک شیرزا احمد عمر چار سال دربار خلافت میں حاضر ہیں۔ اس موقع پر اپنے بزرگوں کے لیے بھی بہت دعائیں نکلیں جن کی بدولت آج ہم خلافت کی دولت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آج میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یہ فیض میری آنے والی نسلوں میں تا قیامت جاری رہے۔ آمین۔

(نیاز احمد قریشی۔ امریکہ)

(باقی کل ان شاءاللّٰہ)

(مرتبہ: عطیۃ العلیم۔ ہالینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی