• 3 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 10؍دسمبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 10؍دسمبر 2021ء بمقام بیت المبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

مَیں صحیح اور سچے علم میں پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوں گے، ایک جوان اور ایک بڑی عمر والا شخص اُن کے کام میں اُن کی مدد کریں گے ۔۔۔ بڑی عمر والاسفید اور پتلے جسم والا ہو گا، اُس کے پیٹ پر تِل ہو گا ۔

اَے میرے حبیبؐ ۔۔۔ اپنا ہاتھ بڑھائیں ،مَیں شہادت دیتا ہوں کہ الله کے سواء کوئی معبود نہیں اور آپؐ الله کے رسول ہیں۔۔۔ میرے اسلام لانے کی وجہ سے مکّہ کے دو پہاڑوں کے درمیان رسول اللهؐ سے زیادہ خوش کوئی اَور نہ ہؤا۔

رسول الله ﷺ نے فرمایا! مَیں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی  اور تردّد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکرؓ کے ۔۔۔ اُنہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

حضرت ابوبکرؓ نے کہا! آپؐ گواہ رہیں کہ مَیں آپؐ کا پہلا مصدّق ہوں، آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپؓ نے اپنے افعال سے اُسے ثابت کر دکھایا اور مَرتے دَم تک اِسے نبھایا اور بعد مَرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔

جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اُس وقت اپنے بھائی ابو بکر ؓ کو بھی یاد کر لیا کرو، اُس کی اُن خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔

حضرت خدیجہ ؓ، حضرت ابو بکر ؓ، حضرت علی ؓ اور زیدؓ بن حارثہ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کےسب اسلام میں ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحابؓ  نکلے کہ چوٹی کےصحابہ ؓمیں شمار کیئے جاتے ہیں۔۔۔ یہ پانچوں اصحاب ؓ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں یعنی اُن دسّ اصحابؓ میں داخل ہیں جن کو آنحضرت ؐنے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پرجنّت کی بشارت دی تھی۔

حضرت علیؓ نے فرمایا، الله کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی آلِ فرعون کے مؤمن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور یہ شخص (یعنی حضرت ابوبکرؓ) اپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے قبولِ اسلام کے بارہ میں ذکر ہو رہا تھا مزید ذکر بھی ہے اِس بارہ میں، بعض باتیں مختلف زاویوں سے ہیں اِس لیئے بیان ہو جاتی ہیں تو لگتا یہی ہے کہ ایک ہی واقع ہے، آج اب مَیں بیان کروں گا کچھ۔

اُسد الغابہ میں حضرت ابوبکرؓ کےواقعۂ قبولِ اسلام کا ذکر

حضرت عبدالله ؓ بن مسعود سے روایت ہے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ مَیں نبیٔ کریمﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلےایک مرتبہ یمن گیا اور قبیلہ اَزَد ْکے بوڑھے شخص کے پاس مَیں مہمان ٹھہرا ، یہ شخص ایک عالم تھا ، کُتُبِ سماویّہ پڑھا ہؤا تھا اور اُسے لوگوں کے حسب و نسب کے علم میں مہارت حاصل تھی، اُس نے جب مجھے دیکھا تو کہا! میرا خیال ہے کہ تم حرم کے رہنے والے ہو، مَیں نے کہا! ہاں، مَیں اہلِ حرم میں سے ہوں، پھر اُس نے کہا! تم کو قریشی سمجھتا ہوں، مَیں نے کہا! ہاں، مَیں قریش میں سے ہوں،پھر اُس نے کہا! مَیں تم کو تیمی سمجھتا ہوں، مَیں نے کہا! ہاں، مَیں تیم بن مُرّہ میں سے ہوں، مَیں عبدالله بن عثمان ہوں اور کعب بن سعد بن تیم بن مُرّہ کی اَولاد سے، اُس نے کہا کہ میرے لیئے تمہارے متعلق اب صرف ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس کی بابت تصریح فرمائی کہ یہاں یہ نام بتانا عبدالله بن عثمان، اُس وقت تو میرا خیال ہے آنحضرتؐ نے نام ابھی عبدالله نہیں رکھا تھا لیکن بہرحال یہ روایت ہے۔

ربِّ کعبہ کی قسم! وہ تم ہی ہو

مَیں نے کہا! وہ کیا ہے؟اُس نے کہا! تم اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دکھاؤ، مَیں نے کہا! مَیں ایسا نہ کروں گا یا تم مجھے بتاؤ تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟ اُس نے کہا کہ مَیں صحیح اور سچے علم میں پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوں گے، ایک جوان اور ایک بڑی عمر والا شخص اُن کے کام میں اُن کی مدد کریں گے، جہاں تک نوجوان کا تعلق ہے تو وہ مشکلات میں کُود جانے والا اور پریشانیوں کو روکنے والا ہو گا اور بڑی عمر والا سفید اور پتلے جسم والا ہو گا، اُس کے پیٹ پر تِل ہو گا اور اُس کی بائیں رَان پر ایک علامت ہو گی۔ اُس نے کہا! تمہارے لیئے ضروری نہیں ہے کہ تم مجھے وہ دکھاؤ جو مَیں نے تم سے مطالبہ کیا ہے، تم میں موجود باقی تمام صفات میرے لیئے پوری ہو چکی ہیں سوائے اِس کے جو مجھ پر مخفی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! پس مَیں نےاُس کے لیئے اپنےپیٹ سے کپڑا ہٹایا تو اُس نے میری ناف کے اوپر سیاہ تِل دیکھا تو کہنے لگا کعبہ کے ربّ کی قسم!وہ تم ہی ہو۔

تم اِس کے متعلق محتاط رہنا

 مَیں تمہارے سامنے ایک معاملہ پیش کرنے والا ہوں پس تم اِس کے متعلق محتاط رہنا! حضرت ابوبکرؓ نے کہا! وہ کیاہے؟ اُس نے کہا کہ خبردار!ہدایت سے انحراف نہ کرنا اور مثالی اور بہترین راستے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور خدا جو تمہیں مال اور دولت دے اُس کے متعلق خدا سے ڈرتے رہنا۔

مکّہ کے دو پہاڑوں کے درمیان رسول اللهؐ سے زیادہ خوش کوئی اَور نہ ہؤا

حضرت ابوبکر صدیقؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے یمن میں اپنا کام پورا کیا اور پھر اُس بوڑھے شخص کو الوداع کہنے کے لیئے اُس کے پاس آیا تو اُس نے کہا!کیا تم میرے اِن اشعار کو یاد کرو گے جو مَیں نے اُس نبی کی شان میں کہے ہیں، مَیں نے کہا! ہاں۔ اُس نے چند اشعار سنائے۔ ۔۔ پھر مَیں مکّہ آیا تو نبیٔ کریمؐ مبعوث ہو چکے تھے تو پھر عُقبہ بن ابی مُعیط، شیبہ، ابو جہل، ابو بختری اور قریش کے دیگر سردار میرے پاس آ گئے، مَیں نے اُن سے کہا! کیا تم پر کوئی مصیبت آ گئی یا کوئی واقعہ ہو گیا ہے جو اکٹھے ہو کر آ گئے ہو؟ اُنہوں نے کہا! اَے ابوبکرؓ، بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے، ابو طالب کا یتیم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اگر آپؓ نہ ہوتے تو ہم اُس کے متعلق کچھ انتظار نہ کرتے، اب جبکہ آپؓ آ چکے ہیں تو اب اِس معاملہ کے لیئے آپؓ ہی ہمارا مقصود ہیں اور ہمارے لیئے کافی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مَیں نے اُنہیں اچھے انداز سے ٹال دیا اور مَیں نے نبیٔ کریمؐ کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا آپؐ خدیجہؓ کے مکان میں ہیں، مَیں نے جا کر دروازہ پے دستک دی چنانچہ وہ باہر تشریف لائے، پس مَیں نے کہا! اَے محمدؐ، آپؐ اپنے خاندانی گھر سے اٹھ گئے ہیں اور آپؐ نے اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑ دیا ہے! آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اَے ابوبکرؓ!مَیں الله کا رسول ہوں تمہاری طرف بھی اور تمام لوگوں کی طرف بھی، پس تم الله پر ایمان لے آؤ۔ مَیں نے کہا! اِس پر آپؐ کی کیا دلیل ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا! وہ بوڑھا شخص جس سے تم نے یمن میں ملاقات کی تھی، مَیں نے کہا کہ یمن میں تو بہت سے بوڑھے شخص تھے جن سے مَیں نے ملاقات کی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا! وہ بوڑھا شخص جس نے تمہیں اشعار سنائے تھے، مَیں نے عرض کیا! اَے میرے حبیب، آپؐ سے کس نے یہ خبر بیان کی؟ آنحضرتؐ نے فرمایا! اُس عظیم فرشتہ نے جو مجھ سے پہلے انبیاء کے پاس بھی آتا تھا۔ مَیں نے عرض کیا آپؐ اپنا ہاتھ بڑھائیں، مَیں شہادت دیتا ہوں کہ الله کے سواء کوئی معبود نہیں اور آپؐ الله کے رسول ہیں۔حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے پھر مَیں لَوٹا اور میرے اسلام لانے کی وجہ سے مکّہ کے دو پہاڑوں کے درمیان رسول اللهؐ سے زیادہ خوش کوئی اَور نہ ہؤا۔حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاِس ضمن میں مزید بیان فرمایا کہ اُسد الغابہ کایہ حوالہ ہے،بعض جگہ ہو سکتا ہے بعض بڑھا بھی لیتے ہیں داستان کے لیئے لیکن بہت ساری باتیں صحیح بھی ہوں گی۔

مَیں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی او ر تردّد کیا

 اِسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کے واقعۂ قبولِ اسلام کے تناظر میں ریاض النّضرہسے امّ المؤمنین امّ سلمیٰؓ سے مروی نیز بخاری کی روایت بیان ہوئی کہ رسول اللهؐ نے فرمایا! مَیں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اُس نے ٹھوکر کھائی اور تردّد کیا اور انتظار کرتا رہا سوائے ابوبکرؓ کے، مَیں نے جب اُن سے اسلام کا ذکر کیا تو نہ وہ اِس سے پیچھے ہٹے اور نہ اُنہوں نے اِس کے بارہ میں تردّد کیا۔نبیؐ نے فرمایا! اَے لوگو الله نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا اور تم نے کہا! تو جھوٹا ہے اور ابوبکرؓ نے کہا! سچا ہے اور اُنہوں نے اپنی جان و مال سے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ کو مانا

اِسی طرح حضرت المصلح الموعودؓ کے فرمودات کی روشنی میں واقعۂ قبولِ اسلام حضرت ابوبکرؓ ، ایمان لانے نیز ایک ہی دلیل سے ماننے کی بابت بیان ہؤا کہ صرف یہ دلیل تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ نے رسولِ کریمؐ کو مانا اور اِسی کو خدا تعالیٰ نے بھی لیا ہے چنانچہ فرماتا ہے لوگوں کو کہہ دو فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس: 17) مَیں ایک عرصہ تم میں رہا اِس کو دیکھو، اِس میں مَیں نے تم سے کبھی غداری نہیں کی پھر مَیں اب خدا سے کیوں غداری کرنے لگا، یہی وہ دلیل تھی جو حضرت ابوبکرؓ نے لی اور کہہ دیا کہ اگر وہ کہتا ہے کہ خدا کا رسول ہوں تو سچا ہے اور مَیں مانتا ہوں، اِس کے بعد نہ کبھی اِس کے دل میں کوئی شُبہ پیدا ہؤا اَور نہ اُن کے پائے ثبوت میں کبھی لغزش آئی۔اُن پر بڑے بڑے ابتلاء آئے، اُنہیں جائدادیں اور وطن چھوڑنا اور اپنے عزیزوں کو قتل کرنا پڑا مگر رسولِ کریمؐ کی صداقت میں کبھی شُبہ نہ ہؤا۔

الله تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے

حضرت مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے جو حضرت ابوبکرؓ کو صدّیق کا خطاب دیا ہے تو الله تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے، آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت اُس چیز کی وجہ سے ہے جو اُس کے دل کے اندر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابوبکرؓ نے جو صدق دکھایا اِس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدّیق کے کمالات حاصل کرنے کی کوشش کرے اُس کے لیئے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتّی المقدور دُعا سے کام لے جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اُسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا صدّیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔

ابوبکری فطرت کیا ہے؟

اِس کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں، اُس پر مفصّل بحث اور کلام کا یہ موقع نہیں کیونکہ اِس کے تفصیلی بیان کے لیئے بہت وقت درکار ہے۔۔۔مَیں مختصر ًاایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب آنحضرتؐ نے نبوّت کا اظہار فرمایا اُس وقت حضرت ابوبکرؓ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لیئے گئے ہوئے تھے جب واپس آئے توابھی راستہ ہی میں تھے کہ ایک شخص آپؓ سے ملا، آپؓ نے اُس سے مکّہ کےحالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ جیسا کہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو راستہ میں اگر کوئی اہلِ وطن مل جائے تو اُس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے، اُس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمدؐ نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے، حضرت ابوبکرؓ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگراُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بلا شک وہ سچا ہے، اِسی ایک واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ پر آپؓ کو کس قدر حُسنِ ظنّ تھا ، معجزہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور حقیقت بھی یہی ہے معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے نا واقف ہو اور جہاں غیریّت ہو اَور مزید تسلی کی ضرورت ہو لیکن جس شخص کو حالت سے پوری واقفیّت ہو تو اُسے معجزہ کی ضرورت ہی کیا ہے، الغرض حضرت ابوبکرؓ راستہ میں ہی آنحضرتؐ کا دعویٔ نبوّت سن کر ایمان لے آئے پھر جب مکّہ میں پہنچے تو آنحضرتؐ کی خدمتِ مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے، آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ہاں!یہ درست ہے۔اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا! آپؐ گواہ رہیں کہ مَیں آپؐ کا پہلا مصدّق ہوں، آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپؓ نے (یعنی حضرت ابوبکرؓ نے) اپنے افعال سے اُسے ثابت کر دکھایا اور مَرتے دَم تک اِسے نبھایا اور بعد مَرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔

یاد رکھو! معجزات وہ طلب کیا کرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا

اِس ضمن میں حضرت مسیحِ موعودؑ کے سُورۂ الرّحمٰن کی آیت وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ؛ اور جو اپنے ربّ کے مقام سے ڈرتا ہے اُس کے لیئے دو جنّتیں ہیں، کی بیان فرمودہ تفسیر اور حضرت ابوبکرؓ کی مثال دینے کے حوالہ سے مندرجہ بالا واقعہ پر روشنی ڈالی گئی نیز آپؑ نے فرمایا! دیکھو اُنہوں نے آنحضرتؐ سے کوئی معجزہ نہیں مانگا تھا صرف پہلے تعارف کی برکت سے ہی وہ ایمان لے آئے تھے، یاد رکھو! معجزات وہ طلب کیا کرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا جو لنگوٹیا یار ہوتا ہے اُس کے لیئے تو سابقہ حالات ہی معجزہ ہوتے ہیں، اِس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بڑی بڑی تکالیف کا سامنا ہؤا، طرح طرح کے مصائب اور سخت درجہ کے دکھ اٹھانے پڑے لیکن دیکھو اگرسب سے زیادہ اُنہی کو دکھ دیا گیا تھا اور وہی سب سے بڑھ کر ستائے گئے تھے تو سب سے پہلے تختِ نبّوت پروہی بٹھائے گئے تھے، الله تعالیٰ نے یہاں بھی اُن کو انعام سے نواز دیا اور اگلے جہان میں تو ہے ہی جنّت، کہاں وہ تجارت کہ تمام دن دھکے کھاتے پھرتے تھے اور کہاں یہ درجہ کہ آنحضرتؐ کے بعد سب سے اوّل خلیفہ اُنہی کو مقرر کیا گیا۔ پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں! آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں یہ لوگ بڑے ہی دُور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں جیسے حضرت ابوبکر صدّیقؓ تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہیں جب سَر پر آ پڑتی ہے تب کچھ چونکتے ہیں۔

رسولِ کریمؐ پر سب سے پہلے کون ایمان لایا پربحث

 مؤرخین کے نزدیک اِس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے کون ایمان لایا تھا، حضرت ابوبکرؓ یا حضرت علیؓ یا حضرت زیدؓ بن حارثہ۔ بعض اِس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ بچوں میں سے حضرت علیؓ اور بڑوں میں سے حضرت ابوبکرؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ بن حارثہ سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔

یہ متفق امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں

چنانچہ علامہ احمد ؒبن عبدالله اِن روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا اور مردوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا جبکہ ابھی بچے تھے۔۔۔ وہ اپنا اسلام مخفی رکھے ہوئے تھے اور پہلے بالغ عربی شخص جس نے اسلام قبول کیا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ حضرت ابوبکرؓ بن ابوقُحافہ تھے اور آزادکردہ غلاموں میں سے جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ حضرت زیدؓ بن حارثہ تھے، یہ متفق امر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمہ طور پر مقدّم اور سابق بالایمان

حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ نے اِس بحث کا ذکر کرتے ہوئے جو فرمایا ہے وہ اِس طرح ہے کہ آنحضرتؐ نے جب اپنے مشن کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں جنہوں نے ایک لمحہ کے لیئے بھی تردّد نہیں کیا، حضرت خدیجہؓ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مؤرخین میں اختلاف ہے بعض حضرت ابوبکرؓ عبداللهؓ بن ابی قُحافہ کا نام لیتے ہیں، بعض حضرت علیؓ کایا زیدؓ بن حارثہ کا۔ لیکن آپؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے، حضرت علیؓ اور زیدؓ بن حارثہ آنحضرتؐ کے گھر کے آدمی تھے اور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے، آنحضرتؐ کا فرمانا تھا اور اُن کا ایمان لانا تھا۔۔۔اِن دونوں بچوں کو نکال دو تو حضرت ابوبکرؓ مسلّمہ طور پر مقدّم اور سابق بالایمان تھے چنانچہ آنحضرتؐ کے درباری شاعر حسّان ؓبن ثابت انصاری ،حضرت ابوبکرؓ کے متعلق کہتے ہیں ؂

اِذَا تَذَکَّرْتَ شَجْوًا مِنْ اَخِیْ ثِقَةٍ فَاذْکُرْ اَخَاکَ اَبَابَکْرٍ بِمَا فَعَلَا خَیْرَالْبَرِیَّةِ اَتْقَاھَا وَ اَعَدَلَھَا بَعْدَا النَّبِیِّ وَ اَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا اَلثَّانِیّ اَلتَّالِیَّ الْمَحْمُوْدَ مَشْھَدَہٗ وَاَوَّلَ النَّاسِ مِنْھُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا

یعنی جب تمہارے دل میں کبھی کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی اچھے بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اُس وقت اپنے بھائی ابو بکر ؓ کو بھی یاد کر لیا کرو، اُس کی اُن خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وہ آنحضرتؐ کے بعد سب لوگوں میں سے زیادہ متّقی اور سب سے زیادہ منصف مزاج تھا اور وہ سب سے زیادہ پورا کرنے والا تھا اپنی اُن ذمہ داریوں کو جو اُس نے اٹھائیں۔ ہاں! ابو بکر ؓ وہی تو ہے جو غارِ ثور میں آنحضرت ؐکے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو آپؐ کی اِتّباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اور وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اُسے خوبصورت بنا دیتا تھا اور وہ اُن سب لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسول پر ایمان لائے۔

ایک لمحہ کے لیئےبھی آنحضرت ؐ کے دعویٰ میں شک نہیں کیا

 حضرت ابو بکر ؓ اپنی شرافت اور قابلیت کی وجہ سے قریش میں بہت مکرّم و معزز تھے اور اسلام میں تو اُن کو وہ رتبہ حاصل ہؤا جو کسی اور صحابی کو حاصل نہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ نے ایک لمحہ کے لیئے بھی آنحضرت ؐ کے دعویٰ میں شک نہیں کیا بلکہ سُنتے ہی قبول کیا اور پھر انہوں نے اپنی ساری توجہ اور اپنی جان اورمال کو آنحضرت ؐکے لائے ہوئے دین کی خدمت میں وقف کر دیا۔ آنحضرت ؐ اپنے صحابہ میں ابو بکر ؓکو زیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپؐ کی وفات کے بعد وہ آپؐ کے پہلے خلیفہ ہوئے، اپنی خلافت کے زمانہ میں بھی انہوں نے بے نظیر قابلیت کا ثبوت دیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق یورپ کا مشہور مستشرق سپرنگر لکھتا ہےکہ ابو بکر ؓکا آغازِ اسلام میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) پر ایمان لانا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) خواہ دھوکا کھانے والے ہوں مگر دھوکا دینے والے ہر گز نہیں تھے بلکہ صدقِ دل سے اپنے آپ کو خدا کا رسول یقین کرتے تھے ، سرولیم میور کو بھی سپرنگر کی اس رائے سے اتفاق ہے ۔

تبلیغِ اسلام اور اُس کے نتیجہ میں کن آزمائشوں سے گزرنا پڑا

اِس کے بارہ میں اُسد الغابہ میں حضرت ابوبکرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ جب اسلام آیا تو آپؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپؓ کے ہاتھ پر ایک جماعت نے اسلام قبول کیا اُس محبّت کی وجہ سے جو اُن لوگوں کو آپؓ (یعنی حضرت ابوبکرؓ )سے تھی اور اُس میلان کی وجہ سے جو اُنہیں حضرت ابوبکرؓ کی طرف تھا یہاں تک کہ عشرۂ مبشرہ میں سےپانچ صحابہ نے آپؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تبلیغ سے اسلام لانے والوں میں حضرت عثمانؓ بن عفّان، حضرت زبیرؓ بن العوام، حضرت عبدالرّحمٰن ؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت طلحٰہؓ بن عُبیدالله شامل تھے۔

حضرت ابو بکر ؓ کی تبلیغ سے ایمان لانے والے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحابؓ

اِس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ اپنی کتاب سیرت النّبیّین میں فرماتے ہیں ۔۔۔حضرت خدیجہ ؓ، حضرت ابو بکر ؓ، حضرت علی ؓ اور زیدؓ بن حارثہ کے بعد اسلام لانے والوں میں پانچ اشخاص تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کی تبلیغ سے ایمان لائے اور یہ سب کے سب اسلام میں ایسے جلیل القدر اور عالی مرتبہ اصحابؓ نکلے کہ چوٹی کے صحابہؓ میں شمار کیئے جاتے ہیں، اُن کے نام یہ ہیں۔اوّل حضرت عثمان ؓ بن عفّان جو خاندان بنو امیّہ میں سے تھے، اسلام لانے کے وقت اُن کی عمر قریباً تیس سال کی تھی، حضرت عمر ؓ کے بعد وہ آنحضرت ؐ کے تیسرے خلیفہ ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ نہایت باحیاء، باوفا، نرم دل، فیّاض اور دولتمند آدمی تھے چنانچہ کئی موقعوں پر اُنہوں نے اسلام کی بہت بہت مالی خدمات کیں۔ حضرت عثمان ؓ سے آنحضرت ؐ کی محبّت کا اندازہ اِس بات سے بھی ہو سکتاہے کہ آپؐ نے اُنہیں پے در پے اپنی دو لڑکیاں شادی میں دیں جس کی وجہ سے اُنہیں ذوالنّورین کہتےہیں۔ دوسرے عبدالرّحمٰن ؓبن عوف تھے جو خاندان بنو زہرہ سے تھے جس خاندان سے آنحضرتؐ کی والدہ تھیں، نہایت سمجھدار اَور بہت سُلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی تھے، حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا سوال اُنہی کے ہاتھ سے طے ہؤا تھا۔ اسلام لانے کے وقت اُن کی عمر قریبًا تیس سال کی تھی۔ عہدِ عثمانی میں فوت ہوئے۔تیسرے سعدؓ بن ابی وقاص تھے جو اُس وقت بالکل نوجوان تھے یعنی اُس وقت اُن کی عمر انیس سال کی تھی، یہ بھی بنوزہرہ میں سے تھے اور نہایت دلیر اور بہادر تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں عراق اُنہی کے ہاتھ پر فتح ہؤا، امیر معاویہ ؓکے زمانہ میں فوت ہوئے۔چوتھے زبیرؓ بن العوام تھے جو آنحضرت ؐ کے پھوپھی زاد بھائی تھے یعنی صفیہ بنت عبدالمطّلب کے صاحبزادے تھے اور بعد میں حضرت ابو بکر ؓ کے داماد ہوئے۔ یہ بنو اسد میں سے تھے اور اسلام لانے کے وقت اُن کی عمر صرف پندرہ سال کی تھی۔ آنحضرت ؐ نے زبیرؓ کو غزوۂ خندق کے موقع پر ایک خاص خدمت سرانجام دینے کی وجہ سے حواری کا خطاب عطاء فرمایا تھا، زبیر ؓ حضرت علی ؓ کے عہدِ حکومت میں جنگِ جمل کے بعد شہید ہوئے۔ پانچویں طلحٰہؓ بن عُبیداﷲ تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کے خاندان یعنی قبیلہ بنو تیم میں سے تھے اور اُس وقت بالکل نوجوان تھے۔ طلحٰہؓ بھی اسلام کے خاص فدایان میں سے تھے، حضرت علی ؓ کے عہد میں جنگِ جمل میں شہید ہوئے۔یہ پانچوں اصحابؓ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں یعنی اُن دسّ اصحابؓ میں داخل ہیں جن کو آنحضرت ؐنے اپنی زبان مبارک سے خاص طور پرجنّت کی بشارت دی تھی اور جو آپؐ کے نہایت مقر ّب صحابی اور مشیر شمار ہوتے تھے۔

اَے اللہ! ابنِ عَدَوِیَّہ کے شر کے مقابلہ میں ہمارے لیئے تُو کافی ہو جا

کفّار مکّہ نے اسلام قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم کیئے نہ صرف کمزور اور غلام مسلمان ہی اُن کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنے بلکہ خود آنحضرتؐ اور حضرت ابوبکرؓ بھی مشرکینِ مکّہ کے مظالم سے محفوظ نہ رہے، تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ اُنہیں بھی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ چنانچہ سیرتِ حَلَبیّہ میں ایک واقعہ مذکور ہے، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحٰہؓ نے جب اپنے اسلام کا اظہار کیا تو نوفل بن عَدَویّہ نے اِن دونوں کو پکڑ لیا یہ شخص قریش کا شیر کہلاتا تھا، اُس نے اِن دونوں کو ایک ہی رسّی سے باندھ دیا۔۔۔ اِسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحٰہؓ کو قَرِیْنَیْن بھی کہتے ہیں یعنی دو ساتھی ملے ہوئے۔ نوفل بن عَدَوِیّہ کی قوت اور اِس کے ظلم کی وجہ سے آنحضرتؐ فرمایا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اکْفِنَا شَرَّ ابْنِ الْعَدَوِیَّہ؛ اَے اللہ! ابنِ عَدَوِیَّہ کے شر کے مقابلہ میں ہمارے لیئے تُو کافی ہو جا۔

وہ بدترین سلوک جو مشرکین نے نبیٔ کریمؐ سے کیاتھا

عُروہ ؒبن زبیر ؓنے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت عبداللهؓ بن عَمروؓ بن العاص سے پوچھا وہ بدترین سلوک مجھے بتائیں جو مشرکین نے نبیٔ کریمؐ سے کیاتھا اُنہوں نے کہا کہ ایک بار نبیٔ کریمؐ مسجد حرام کے حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عُقبہ بن ابی مُعیط آیا اور اُس نے اپنا کپڑا آپؐ کی گردن میں ڈال کر آپؐ کا گلا زور سے گھونٹا اتنے میں حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے اور آ کر اُنہوں نے عُقبہ کا کندھا پکڑا اور اُس دھکیل کر نبیٔ کریمؐ سے ہٹا دیا اور کہا! اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ (المؤمن: 29)؛ کہ کیا تم ایسے شخص کو مارتے ہو جو کہتا ہےکہ میرا ربّ الله ہے؟اِسی پسِ منظر میں لوگوں کے مسجد حرام میں آنحضرتؐ کے گرد اکٹھے ہونے، آپؐ کو مارنے، حضرت ابوبکرؓ کے آپؐ کو بچانےاور اُن کے آپؓ پر لپکنے نیز مارنے کے ضمن میں بیان ہؤا ! حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ آپؓ ہمارے پاس اِس حالت میں آئے کہ آپؓ اپنے بالوں کو ہاتھ لگاتے تو وہ آپؓ کے ہاتھ میں آ جاتے اور آپؓ کہتے جاتے تھے کہ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ کہ اَے بزرگی اور عزت والے تو بابرکت ہے۔

مَیں اِن کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ مَیں قربان ہو جاؤں

ایک روایت میں آتا ہے کہ اِن لوگوں نے آنحضرتؐ کو سرِ مبارک اور آپؐ کی ریشِ مبارک کو اِس زور سے کھینچا کہ آپؐ کے اکثر بالِ مبارک گر گئے اِس پر حضرت ابوبکرؓ آپؐ کو بچانے کے لیئے کھڑے ہوئے اور وہ کہہ رہے تھے اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ؛ کیا تم محض اِس لیئے ایک شخص کو قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ الله ہے ۔۔۔ اور حضرت ابوبکرؓ رَو بھی رہے تھے، اِس پر رسول اللهؐ نے فرمایا! اَے ابوبکرؓ، اِن کو چھوڑ دو! اُس کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مَیں اِن کی طرف بھیجا گیا ہوں تاکہ مَیں قربان ہو جاؤں۔ اِس پر اُنہوں نے (یعنی کافروں) رسول اللهؐ کو چھوڑ دیا۔

لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر

حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا! اَے لوگو! لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اَے امیر المؤمنین آپؓ!حضرت علیؓ نے فرمایا! جہاں تک میری بات ہے ، میرے ساتھ جس نے مبارزت کی، مَیں نے اُس سے انصاف کیا یعنی اُسے مار گرایا مگر سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ ہیں، ہم نے رسول اللهؐ کے لیئے بدر کے دن خیمہ لگایا پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللهؐ کے ساتھ رہے تا آپؐ تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو الله کی قسم!آپؐ کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللهؐ کے پاس کھڑے ہو گئے یعنی رسول اللهؐ کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا، پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں۔ ایک دفعہ کی بات ہے۔۔۔کہ مَیں نے رسول اللهؐ کو دیکھا کہ قریش نے آپؐ کو پکڑا ہؤا ہے، کوئی آپؐ پر غصہ اتارتا، کوئی آپؐ کو تنگ کرتا اور وہ لوگ کہتے کہ تم نے تو تمام معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے، الله کی قسم! جو بھی آپؐ کے قریب آتا حضرت ابوبکرؓ کسی کو مار کر بھگاتے، کسی کو برا بھلا کہہ کر دُور کرتے اور کہتے تمہاری ہلاکت ہو۔

کیا آلِ فرعون کا مؤمن بہتر تھا یا حضرت ابوبکرؓ

پس حضرت علیؓ نے اپنی چادر ہٹائی اور اِس قدر روئے کہ آپؓ کی داڑھی تَر ہو گئی، پھر فرمایا! مَیں تمہیں الله کی قسم دیتا ہوں کیا آلِ فرعون کا مؤمن بہتر تھا یا حضرت ابوبکرؓ؟ حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس حوالہ سے وضاحت فرمائی کہ غالبًا حضرت علیؓ نے آلِ فرعون کے مؤمن کا ذکر اِس لیئے کیا کہ قرآنِ کریم میں یہ آیت آلِ فرعون کے اِس شخص کی طرف منسوب ہے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا اور فرعون کے دربار میں کہہ رہا تھا کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللهُ؛ اِس پر لوگ خاموش ہو گئے۔

الله کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی

حضرت علیؓ نے فرمایا، الله کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کی ایک گھڑی آلِ فرعون کے مؤمن کی زمین بھر کی نیکیوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ شخص اپنے ایمان کو چھپاتا تھا اور یہ شخص (یعنی حضرت ابوبکرؓ) اپنے ایمان کا اعلان کرتا تھا۔ بایں ہمہ حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خانۂ کعبہ میں کفّار کے آپؐ کے گلہ میں پٹکا ڈالنے اور حضرت ابوبکرؓ کے آپؐ کوچھڑانے کے تناظر میں حضرت المصلح الموعودؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات بھی پیش فرمائے۔

غلاموں کے آزاد کروانے کے بارہ میں حضرت ابوبکرؓ کی بابت روایات

حضرت ابوبکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو اُن کے پاس چالیس ہزار دِرہم تھے، آپؓ نے اُسے الله کی راہ میں خرچ کیا اور اُن سات کو آزاد کروایا جن کو الله کی وجہ سے تکلیف دی جاتی تھی ۔ آپؓ نے حضرت بلالؓ، عامرؓ بن فہیرہ، زنیرہؓ،نہدیؓہ اور اُن کی بیٹی، بنی مومل کی ایک لونڈی اور اُمّ عبیسؓ کو آزاد کروایا۔ حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ٔ ثانیہ سے قبل اوّل الذکر تین اصحابِ رسولؐ کی غلامی اور حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے خریدنے اور آزاد کرنےکی مختصر تفصیلات پیش فرمائیں نیز آخر پر ارشاد فرمایا!یہ ذکر ابھی اِن شاء الله آئندہ بھی چلے گا، آزادی کے بارہ میں بعض اور واقعات ہیں۔ 

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نما ئندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

لغویات، گناہ بے لذّت ہیں