دبستانِ حیات
قسط سوم
پہلی تقرری بطور مربی سلسلہ
جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہمیں مختلف دفاتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔جس کے بعد ہمیں نظارتِ اصلاح ارشاد مقامی میں بھیج دیا گیا ۔ وہاں مکرم احمد خان نسیم صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مقامی تھے۔ ان کے ساتھ بطورِ نائب ناظر مکرم نورالحق انور صاحب خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ جنہوں نے میری پہلی تقرری سیالکوٹ ضلع کے ایک قصبہ قلعہ کالروالا میں کی۔
ارضِ سیالکوٹ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عرصہ تک سیالکوٹ میں الہٰی منشا کے تحت ملازمت کرنے کا موقع ملا۔جب آپ علیہ السلام نے اعلان مہدویت فرمایا ۔تب اسی علاقہ سے ایک بڑی تعدادکو آپ کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔کیونکہ ان لوگوں نے آپ علیہ السلام کے وجود ِباجُود اوراخلاق عالیہ کو بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔جس کی وجہ سے انہیں قبول حق میں آسانی ہوگئی۔ یا د رہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ کو اپنا وطنِ ثانی قرار دیا ہے۔
سیالکوٹ ضلع میں مربیان
جامعہ سے فارغ التحصیل ہونےکے بعد جملہ مربیان کی تقرری اصلاح وارشاد مقامی میں ہوتی ہے۔ مقامی اصلاح وارشاد کے ماتحت ربوہ کے قریبی اضلاع سرگودھا، فیصل آباد، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ ہواکرتے تھے۔ خاکسارکی تقرری بطورِمربی، قلعہ کالر والا میں ہوئی۔ یہ قصبہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرورمیں واقع ہے۔
اس دور میں مربی ضلع سیالکوٹ مکرم عزیزالرحمان صاحب منگلا ہوا کرتے تھے۔ جو ایک معروف عالم ِدین تھے۔ ان کے ہمراہ مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب نارووال کے علاقہ میں تھے۔ بعدازاں ہماری کلاس میں سے مکرم عبدالرشید یحيی ٰصاحب کی تقرری ڈسکہ میں ہوئ جبکہ مکرم لئیق احمد منیر صاحب کی تقرری ایک گاؤں بن باجوہ اور بعد میں گھٹیالیاں میں کردی گئی۔
قلعہ کالر والا
قلعہ کالروالا اپنے علاقہ میں ایک خاصا بڑا تجارتی مرکز ہے۔ یہاں ماشاء اللہ ایک بڑی فعال جماعت ہے۔ ان دنوں مکرم سیٹھ محمد امین صاحب یہاں صدر جماعت تھے۔ دیگراہم شخصیات میں رانا منظوراحمد صاحب، ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب، شیخ فتح محمد صاحب، شیخ طفیل احمد صاحب، چوہدری محمد صادق صاحب ،رانا شبیر احمد صاحب، چوہدری نصیر احمد صاحب نمبردار، چوہدری بشیر اللہ صاحب، چوہدری عزیز اللہ صاحب ،رانا وسیم احمد صاحب اور دیگر دوست ہیں جن کے اسماء گرامی اب ذہنِ ناتواں میں مستحضر نہیں ہیں۔ مسافت کے اعتبار سے بھی قلعہ کالروالا کا علاقہ قادیان سے زیادہ دور نہیں ہے۔ اس لئے ابتدائی دور میں بیشتر لوگ پیدل ہی قادیان چلے جایا کرتے تھے۔ قلعہ سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پرداتازیدکا، کا تاریخی گاؤں ہے۔ جو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی والدہ محترمہ کا مولد ہے۔ چوہدری صاحب اکثر یہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ اس حلقہ کے امیرمکرم چوہدری سر ظفراللہ صاحب کے ماموں زاد بھائی چوہدری بشیر احمد صاحب تھے۔
داتا زیدکا سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر جماعت احمدیہ گھٹیالیاں ہے۔جو اس علاقہ کی بڑی معروف جماعت ہے۔یہاں پر کسی زمانہ میں جماعت احمدیہ کا مدرسہ اور کالج ہوا کرتا تھا۔
اس حلقہ میں چند معروف جماعتیں
میرے حلقہ میں بہت ساری جماعتیں تھیں جن میں سے چندایک کے نام پیش خدمت ہیں۔ مالوکے بگھت، کوٹ آغا، گھنوکے ججہ، اوچا ججہ، پڈھال، داتا زیدکا، گھٹیالیاں، چندرکےمگولے، میانوالیا اور خانانوالی وغیرہ۔
ان کےعلاوہ اوربھی بہت سے مقامات پراحمدی احباب تھے۔ جن کے نام اب یادنہیں ہیں۔ اس کے بعدبدوملہی اور نارووال کے حلقوں میں بھی کافی بڑی اور فعال جماعتیں تھیں۔ پاکستان بھر میں یہ ایسا علاقہ ہےجہاں جماعتیں عددی اور دنیاوی لحاظ سے خاصی مضبوط اور بااثرہیں۔
قوتِ برداشت اور مذھبی رواداری
اس دورمیں صبروتحمل،برداشت اورشرافت کسی حد تک زندہ تھی۔ لوگ باوجود عقیدہ کےاختلاف کے بھی ایک دوسر ے کی غمی، خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ قلعہ کالروالا جماعت میں ایک معلم مکرم محمد شریف صاحب ہوتے تھے۔ بہت ہی شریف النفس دوست تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں لحن ِداؤدی سے نوازا ہوا تھا۔ جب وہ اذان دیا کرتے تھے۔ تو ان کی آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ نمازِ فجر کے بعد لاؤڈ سپیکر پر درس دیتے، جسے احمدی اور غیراحمدی اپنے اپنے کھیتوں میں کام کے دوران بھی سنتے تھے اوراکثراس کی تعریف بھی کرتے۔
جہاں پھول وہاں کانٹا
ہرقوم وملک میں جہاں اچھے اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں بعض ناسوربھی ہوتے ہیں۔ جن کے تعفن سے سارا ماحول بدبودار ہو جاتا ہے۔
مالوکے کے قریب ایک گاؤں میں ایک دوست محمد شریف نامی رہتے تھے۔بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ اپنے گاؤں میں اکیلے ہی احمدی تھے۔ان کے گاؤں میں بعض لوگ انہیں بہت تنگ کرتے ۔یہ اکیلے ہی ان کا مقابلہ کرتے۔ بات چیت ہوتی رہتی۔چونکہ مخالفین کے پاس نہ توعلم ہوتا ہےاورنہ دلیل۔ آخر میں وہ اوچھے ہتھیاروں پر آجاتے ہیں۔ ایک روزان کے گاؤں والوں نےانہیں کہا ۔اب ہم اپنےحق وباطل کا فیصلہ کرنے لئے ايسا کرتے ہیں۔ ایک بڑا کڑاھ (وہ بڑا سا برتن جس میں گُڑ بناتے ہیں) لیتے ہیں۔ اس میں تیل ڈال کر،کھولا کر اسمیں فریقین کود جائیں گے۔جو حق پر ہوگا۔ اس کی صداقت ظاہر ہوجائے گی۔ جو ہلاک ہوجائے گا اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا۔احمدی دوست اس پر تیار ہوگئے۔ لیکن بعد میں انہیں سمجھایا گیا کہ یہ دشمنوں کاایک خطرناک پلان ہے۔ کیونکہ ان کا پروگرام یہ تھا کہ وہ خود تو اس میں نہیں کودیں گے،صرف آپ کو اس میں پھینک دیں گے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمادی۔
ایسے کی تیسی
ایک احمدی نوجوان جوسیالکوٹ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ سب کو علم تھا کہ وہ احمدی ہیں۔اس لئے باقی طلبہ جماعتی لحاظ سے مختلف اعتراضات کرتے رہتے۔خاص طور پر مسئلہ وفات ِمسیح پر بحث ہوتی۔جب احمدی دوست انہیں دلائل میں لاجواب کردیتا تو آخر میں وہ کہہ دیتے۔کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ خدا ہر چیزپرقادرہے۔اب احمد ی کہتا۔ ہاں قادر ہے۔ وہ کہتے ،پھراللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر لے گیا۔
یہ اب ان کا روزمرّہ کاطریق بن گیا۔ہمیشہ اسی نقطہ پر بحث بند ہوجاتی۔ایک دن نوجوان کالج گیا۔پھر وہی بحث شروع ہوگئی۔انہوں نے پوچھا ۔کیا تم خدا کوقادر نہیں مانتے۔احمدی نوجوان نے کہا۔میں اللہ کو ہر چیز پر قادر نہیں مانتا۔اس پر انہوں نے شور ڈال دیا۔دیکھو یہ کافر ہے جوخدا کوقادر نہیں مانتا۔اس پراحمدی طالبعلم نے کہا۔پہلے میرے سوال کا جواب دو۔ پھر جو چاہے فیصلہ کرلینا۔احمدی نے کہا۔ میرے خیال میں،خدا ہر چیز پر قادر نہیں ہے۔آپ بتائیں،کیا اللہ تعالیٰٰٰٰ جھوٹ بول سکتا ہےکہنے لگے نہیں۔احمدی نے کہا۔ کیا اللہ تعالیٰ بچہ پیدا کرسکتا ہے۔اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اس پر احمدی نے کہا۔اللہ تعالیٰ اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہر چیز پر قادر ہے۔اس لئے عیسی علیہ السلام بھی آسمان پر نہیں جاسکتے کیونکہ یہ اس کی سنت کے خلاف ہے۔
ایک یادگار وقارِعمل
قلعہ کالروالا سے تھوڑےفاصلے پرمالوکے گاؤں کے قریب ایک نہر بہتی ہے۔ وہاں سے ایک کچی سڑک قلعہ کو آتی ہے۔بارشوں کا موسم تھا۔سیلاب کے پانی کیوجہ سے وہ سڑک بہہ گئی۔جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنا بہت ہی مشکل ہوگیا۔ ایک روز،میں قلعہ کے بس سٹاپ کی جانب جارہاتھا۔راستہ میں ایک غیرازجماعت دوست کی فارمیسی تھی۔یہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن تھے۔میرا بڑا احترام کرتے تھے۔ میں ان کی فارمیسی کے سامنے سے گزرا۔انہوں نے جب مجھے دیکھا ۔ مجھے آواز دی۔ مربّی صاحب۔ ذرا ادھرتشریف لائیں۔میں ان کے پاس گیا۔ کہنے لگے مربّی صاحب میں ربوہ میں آپ کے خلاف شکایت کرنے والا ہوں۔ میں نے عرض کی بڑے شوق سے ،لیکن مجھے بتاتودیں،مسئلہ کیا ہے؟کہنے لگے آپ دیکھتے نہیں کہ نہر والی سڑک ٹوٹ چکی ہے۔ عوام کو آنے جانے میں بہت تکلیف ہورہی ہے۔خاص طور پرعورتوں کو وہاں سے گزرنے میں بہت مشکل پیش آرہی ہے۔آپ کواس بات کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔میں ان کا مقصد سمجھ گیا۔ میں نے کہا آپ فکر نہ کریں،چنددن میں یہ کام ہوجائے گا۔میں نے خدام کے ذریعہ سے قریبی سب جماعتوں کو ایک پُرزور تحریک کی کہ سب خدّام،انصاراور اطفال فلاں دن اس جگہ پروقارِ عمل کے لئے کارِخیر میں شریک ہوں۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی فدائی جماعت نے تَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّوَالتَّقْویٰ کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ انسانی عقل حیران ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں احمدی اپنے سازوسامان کے ساتھ تشریف لے آئے ۔ بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ پورے دن کی محنت سےاس رستہ کو چلنے کے قابل بنادیا۔ فجزاھم اللہ
میرے محسن میزبان
جب میں قلعہ کالروالا میں پہنچا۔ان دنوں میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ مسجد میں ایک جماعتی کوارٹر تھا۔جس میں مکرّم معلّم صاحب کی فیملی رہائش پذیرتھی۔ مجھےمسجد کی بالائی منزل پرلجنہ ہال میں رہنے کا ارشاد ہوا۔اب کچن نہ ہونے کی وجہ سے کھانےکا مسئلہ تھامقامی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ میں باری باری احبابِ جماعت کے ہاں کھانا کھایا کروں میں نے کہا یہ تو میرے لئے ممکن نہیں ہے۔آپ فکر نہ کریں۔میں بازارسےکھالیا کرونگا۔اس پرکافی بحث ہوئی۔ مختلف احباب نے یہ پیشکش کی کہ میں ان کے ہاں جاکرکھانا کھا لیا کروں۔ لیکن دل نہیں مانتا تھا۔بالآخر ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب نے بڑا اصرار کیا۔ان کے بیٹوں کے ساتھ کچھ اچھے مراسم بن گئے تھے۔انہوں نے بھی کہا۔اس طرح میرے کھانے کا انتظام مکرّم ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہوگیا۔ان کی اہلیہ محترمہ خالہ محمودہ بیگم صاحبہ نے ایک ماں کی طرح میری ضروریات کا خیال رکھا۔کیا فرشتہ سیرت بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجرِعظیم سے نوازے۔ آمین
اس مقام پر تقریباً ایک سال تک خدمت کی توفیق ملی۔ احبابِ جماعت کے ساتھ تعاون اور محبت کا ایک مثالی رشتہ بن گیا۔ پینتالیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی میرے دل میں ان کی محبت موجزن ہے۔ کَانَ اللّٰہُ مَعَھُمْ ۔اَلْحَمْدُلِلّٰه
کھاریاں کی چند دلچسپ یادیں
تعارف کھاریاں
سیالکوٹ سےمیرا تبادلہ اصلاح وارشاد مرکزیہ کے تحت کھاریاں نامی جماعت میں ہوگیا۔کھاریاں ضلع گجرات کی ایک تحصیل ہے۔اس دور میں گجرات کی تین تحصیلیں ہوتی تھیں۔ گجرات، منڈی بہاؤالدین اور کھاریاں۔ بعد میں سیاسی اور انتظامی ضروریات کے تحت منڈی بہاؤالدین کو بھی ضلع کادرجہ دے دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ کیونکہ یہ ملک کے اس حصہ میں پہاڑی اورمیدانی علاقوں کا سنگم ہے۔اس لئے جتنے بھی حملہ آور افغانستان، ایران اور دیگر اطراف کی جانب سے ادھر آئے ہیں ۔وہ تازہ دم ہونے کے لئے یہاں ہی پڑاؤ ڈالا کرتے تھے۔ جن کے آثار آج بھی ان کی یہاں آمد کی گواہی دیتے ہیں۔کھاریاں جی ٹی روڈ پرواقع ہے۔ اس شہر کی وجہ شہرت آج کل اس کی مالی فراخی ہے۔کیونکہ اس علاقہ کے بیشتر لوگ بیرونِ پاکستان حصولِ روزگار کے سلسلہ ميں گئے ہوئے ہیں۔ اس شہر کو بعض لوگ مِنی ناروے بھی کہتے ہیں۔کھاریاں شہر کے قریب پاکستان کی ایک معروف فوجی چھاؤنی ہے۔ کسی دورمیں یہاں کے اکثر لوگ فوج میں ملازم ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سےہرگھرمیں کوئی نہ کوئی فرد فوجی ہوتا تھا۔
افتخارکالونی
کھاریاں کینٹ میں ایک ایریا کا نام افتخارکالونی بھی ہے ۔ یہ نام معروف احمدی جرنیل افتخار جنجوعہ صاحب کے نام پردیا گیا ہے۔یہ وہ عظیم جرنیل ہیں۔ جنہیں انیس سو اکہترکی پاک وہند کی جنگ میں چھمب جوڑیاں بارڈر پر وطنِ عزیزکی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعاد ت ملی تھی۔
کھاریاں میں احمدیت کا نفوذ
کھاریاں شہرمیں ابتدائی احمدیوں میں سے اوّل الذکر حضرت مولوی فضل دین صاحب کا نام آتا ہے۔انہیں ابتدائی صحابہ کرام میں سے ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دورِمبارک میں انہیں قادیان میں کئی نمایاں خدمات کی بھی توفیق ملی ہے۔اس شہر میں اوربھی کئی بزرگوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے ۔ یہی وہ مبارک سفر ہے۔جس میں اس علاقہ کےاکثريت کواحمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ کھاریاں کے مضافات میں بہت سی جماعتیں ہیں۔ جن کا قیام بھی سفرِجہلم کا ہی ثمر ہے۔
خطر ناک بوٹی
حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےایک خطبہ میں جماعت احمدیہ کی مثال کچھ یوں بیان فرمائی،کہ زمیندار ایک پودا (بوٹی) کو اپنی کھیتی کے لئے نقصان دہ جانتے ہوئے اکھاڑکر باہرپھینک دیتا ہے۔ لیکن وہی بُوٹی ہوا کے دوش پر سوار ہو کر جہاں جہاں گرتی ہے وہاں ہی اس کے بیج ایک نئی نسل کو جنم دے کر پھر زمین میں لہلہاتے ہیں۔ مقدمہ جہلم میں دشمنان ِحق نے شجرِاسلام کی بیِخ کُنی کی ایک مذموم کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کےبرعکس اس علاقہ میں سینکڑوں نئے مستحکم پودے لگادئے۔ہماراایمانِ محکم ہےکہ جماعتِ احمدیہ ایک الہی جماعت ہے۔ جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہے۔اوراس کی نشونما اور آبیاری اور حفاظت کو بھی اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ نادان دشمنِ احمدیت ہمیشہ سے ہی اسےجڑسے اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں میں سردھڑکی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اس کے بیج جہاں جہاں گرتے ہیں لہلہاتے کھیت بن جاتے ہیں۔
کھاریاں شہرمیں احمدی احباب دنیاوی لحاظ سےخاصے بااثر ہیں۔ کیونکہ اس شہرکے مضافات میں بیشترزرعی رقبہ احمدیوں کا ہی ہے جو اب شہری حدود میں آجانے کی وجہ سے بہت ہی قیمتی ہوچکا ہے۔کھاریاں کے ایک محلہ کا نام بھی محلہ احمدیہ مشہور تھا۔ یہاں پر جماعتِ احمدیہ کا ایک ہائی سکول بھی تھا۔جس کا نام تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا۔ بھٹو صاحب کے دورِاستبداد میں جماعت سے لے لیا گیا تھا۔۔
چند متفرق واقعات
سبق آموز۔ میں ان کا خدا نہیں
کرنل محمد اکبر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ کھاریاں اپنےآغازِ جوانی کاایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ مسجد احمدیہ کھاریاں میں نماز ظہرادا کرنےکے لئے گئے۔اس وقت مسجد میں جماعت کےدو بزرگ جو آپس میں بھائی بھی تھے۔ ان میں اوّل الذکرمکرم مولوی عبدالرحمان صاحب اپنے برادرِاصغر مکرّم سعد الدین صاحب سے محوِ گفتگو تھے۔ جو کہہ رہے تھے۔ سعد الدین، دیکھو میں ایک سکول میں ہیڈ ماسٹرہوں اورمیں نے کفایت کرکے ایک بہت بڑا مکان تعمیر کرلیا ہے،لیکن تم انسپکٹر آف سکولزہواس کے باوجود تم نے کوئی مکان وغیرہ نہیں بنایا ہے۔اگر خدا نخواستہ کل آپ کو کچھ ہوگیا توسوچوان معصوم اور بے یارو مدد گاربچوں کا کیا ہوگا۔ اس کے جواب میں مولوی سعدالدین صاحب نے کہا۔بھائی جان!مجھے تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان کا باپ بنایا ہے ۔باقی ان کا خالق و مالک اور رازق تو خدا ہے۔ وہ ان شاء اللہ ان کے لئے بہتر ہی کرے گا۔
اتفاق ایسا ہوا کہ مولوی سعد الدین صاحب کچھ عرصہ کے بعدعین جوانی میں ہی اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ جبکہ ان کے بچے صغر سنی میں ہی تھے۔ بظاہر ان کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انکی تعلیم وتربیت کے لئے اپنی جناب سےایسےاسباب پیدا فرمادئے۔احباب جماعت کھاریاں اس پرشاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بظاہران لاوارث بچوں کی کیسی دادرسی کی کہ وہ سب ہی دینی ودنیاوی لحاظ سےاعلیٰ مراتب پرفائز ہوئے۔
مسجد احمدیہ کی تعمیر
کھاریاں میں ابتدا سے ہی جماعت احمدیہ کی مسجد تھی جو دراصل مکرم چوہدری رشید الدین صاحب سابق امیر جماعت ضلع گجرات کے بزرگوں کی زمین کا ایک حصہ تھی۔ یہ مسجد مکرم چوہدری رشید الدین صاحب کے گھر کا ایک حصہ ہی تھی۔ مسجد کا ایک دروازہ ان کے گھر میں کھلتا تھا۔
اس مسجد میں احمدیوں کےعلاوہ محلہ کےغیر از جماعت لوگ بھی باجماعت نمازادا کرتے تھے۔ احمدی احباب مسجد میں بائیں جانب اور غیراز جماعت دائیں جانب نماز ادا کرتے تھے۔ نماز جمعہ صرف احمدی ہی ادا کرتے تھے۔
ایک ہی اذان ہوتی تھی۔ نماز مغرب پہلے غیراحمدی ادا کرتے جنکے بعداحمدی۔ نماز کے بعد ہمارا درس ہوتا تھا جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے دوست بھی بڑے سکون سے درس سنا کرتے تھے۔
محلہ احمدیہ
مسجد کا علاقہ محلہ احمدیہ کہلاتا تھا کیونکہ اس محلہ میں زیادہ تر احمدی احباب رہتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ محسوس ہورہا تھا کہ اب یہاں بھی وَسِّعْ مَکَانَكَ کی آواز بلند ہورہی ہے۔ ایک دفعہ خلیفہ رابع رحمہ اللہ خلافت سے قبل کھاریاں تشریف لائے۔آپؓ نے اس بات کااظہار فرمایا کہ یہاں اب بڑی مسجد ہونی چاہیے۔
مسجد کی تحریک
ایک دن مکرم ماسٹر محمود احمد جنجوعہ صاحب میرے پاس تشریف لائے۔کہنے لگےکہ کل محکمہ تعلیم کے ادارہ میں ایک میٹنگ ہوئی ہےجس میں کھاریاں میں مزید مدارس کی ضرورت پر زور دیا گیاہے۔جب جگہ کی بات ہوئی تو کسی نے یہ تجویز دی ہے کہ تعلیم الاسلام پرائمری سکول کی جگہ خالی پڑی ہے۔ اسے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ جگہ جماعت کے پرائمری سکول کی تھی جسے بوجوہ بند کردیا گیا تھا۔
میں نے فوری طور اس وقت جماعت کے امیر مکرم کرنل اکبرعلی صاحب سے ملاقات کی۔ ان دنوں وہ عليل تھے اور سی ایم ایچ میں داخل تھے۔ میں نےصورتِ حال بتائی اور عرض کی کہ ہمیں فوری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ کرنل صاحب کہنےکہ لگے ٹھیک ہے۔ دیکھ لیں کہ کیا کرنا ہے۔
اس دور میں دواحمدی دوستوں کے اینٹوں کے بھٹے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور انہیں کہاکہ جسقدر آپ کے پاس اینٹیں موجود ہیں وہ فوری طور پرسکول والے پلاٹ میں پھینک دیں۔ ہمارے پاس اسوقت کوئی رقم نہیں ہے۔ اس کا حساب بعد میں کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیردے۔ انہوں نے تعاون کیا اور اگلے دنوں میں اینٹیں پہنچ گئیں۔
اس طرح مخالفین کاراستہ بند ہوگیا۔اس کے بعد جماعت کاہرفرد تعمیرِ مسجد کے لئے میدانِ عمل میں آپہنچا۔
مجھے جلسہ سالانہ قادیان میں ایک سکھ سردار کا بیان کردہ واقعہ یاد آگیا ہےکہ کہیں کسی کے گھر میں آگ لگ گئی۔ہرکوئی آگ بجھانے کےلئے پانی لئے اس جانب دوڑ رہاتھا۔ایک چڑیا بھی اس جانب تیزی سے اڑتی جارہی تھی۔اسے کسی نے پوچھا کہ بھئی کہاں جارہی ہو۔اس نے بتایا کہ آگ بجھانے کے لئے جارہی ہوں۔ پوچھنے والے نے ازراہ تضحیک کہا کہ تمہارے ایک قطرہ پانی سے آگ کہاں بجھ سکتی ہے؟ چڑیا نے کہا کہ بات نیت کی ہے۔کم از کم روز ِمحشر میں یہ تو کہہ سکوں گی کہ میں آگ لگانے والوں میں سے نہیںتھی بلکہ آگ بجھانے والوں میں سے تھی۔
دیوانوں کو بس اک آواز چاہیے
کھاریاں شہر میں مسجد تعمیر کرنے کے بارے میں پہلی میٹنگ کی گئی جس میں صرف خدام ہی حاضر تھے۔ خاکسار نےایک بڑی مسجد کی اہمیت ،افادیت اور ضرورت کے بارے میں چند باتیں کیں اورخدام کووعدے لکھوانے کی تحریک کی۔ سب سے پہلے ایک خادم جو میرے قریب ہی تشریف فرما تھے اور مالی اعتبار سے خاصے مستحکم تھے، میں نےان سے وعدہ لکھوانے کی تحریک کی۔انہوں نے ایک بہت ہی معمولی رقم کا وعدہ کیا۔میں نے خدام سے دوبارہ عرض کی کہ لگتا کہ میں آپ لوگوں کے سامنے موجودہ نازک صورت حال کا نقشہ مناسب الفاظ میں پیش نہیں کرسکا ۔اس لئے ازراہِ کرم ہمیں ٹارگٹ مدِّنظر رکھ کروعدہ کرنا ہوگا۔اس پروہ نوجوان کہنے لگاکہ مربّی صاحب! آپ ہی بتادیں کتنی رقم ادا کروں؟ میں نے کہا کم ازکم پانچ ہزار روپے۔ یاد رہےکہ اس زمانہ میں پانچ ہزار روپے خاصی رقم ہوا کرتی تھی۔ اس پر وہ کہنے لگےکہ ٹھیک ہے۔ میری طرف سے پانچ ہزار روپے کا وعدہ لکھ لیں۔ ان کے بعد بفضلہ تعالیٰ ہر کسی نےان سے بڑھ کر ہی وعدہ لکھوایا۔ ایک نوجوان مکرم خادم حسین کسانہ صاحب دور بیٹھے ہوئے تھے۔کہنے لگے کہ مربّی صاحب! آج یہاں ہونے والےسب سے زیادہ وعدہ سےمیرا وعدہ چارہزارروپیہ زائدلکھ لیں۔ پھر بفضلہ تعالیٰ ایسا ہی ہوا۔ تقریباً ایک گھنٹہ کے اجلاس میں ہزار ہا روپے کے وعدے ہوئے اللہ کے فضل سے وقت کے ساتھ احباب جماعت نے بڑی خوشی سے نہ صرف یہ وعدہ جات پورے کئے بلکہ حسبِ ضرورت اپنی توفیق سے بڑھ کر مسجد کی تکمیل میںحصہ لیا۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
مالی قربانی کا سرور
کہتے ہیںکہ ایک انگریز سیر کے لئے پاکستان گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سرِبازار ایک ریڑھی والا دھی بھلے فروخت کررہا تھا۔ ایک نوجوان پلیٹ ہاتھ میں تھامے دھی بھلے کھانے میں مصروف تھا- مصالحوں کی تیزی کے آثار اس کی حرکات وسکنات اور پیشانی پرپسینہ سے عیاں ہو رہی تھی۔انگریز اسے دیکھ کر خاصا پریشان ہورہا تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسے کوئی سزادی جارہی ہےجو اسے اس تکلیف دہ حالت میں یہ کھانا پڑرہا ہے۔ جب وہ نوجوان اپنی پلیٹ ختم کرچکاتواس نے ریڑھی والے کوایک اورپلیٹ کا آرڈردیا اورخصوصی مرچ مصالحہ ڈالنےکی درخواست بھی کی۔اس پر وہ انگریز اپنے آپ پر ضبط نہ کرسکا اور اس نے پوچھا کہ جب تم پہلی پلیٹ کھا رہے تھے تو مجھے تمہاری حالتِ زارپرترس آرہا تھا لیکن تم نے تو ایک اور پلیٹ کا آرڈردے دیا ہے۔ تمہارا یہ عمل میری سمجھ سے بالا ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ واقعی دھی بھلے میں مرچ مصالحہ کی زیادتی کے باعث مجھے کافی تکلیف ہو رہی تھی لیکن جو اس کے کھانے سے لطف آتا ہےوہ اس تکلیف سے کہیں بڑھ کرہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں اکثراحباب ’’جان ومال وآبروحاضر ہیں تیری راہ میں‘‘ پر عملاً بڑی ہی صداقت اور اخلاص سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئےایسا لطف آتا ہے کہ انہیں الفاظ کے سانچوں میں ڈھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ہم سب نے یہ بنظرِغائرتجربہ اور مشاہدہ کیا ہےکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کے افضال واکرام کی بارش ہوتی ہے۔اور یہ عمل ہر احمدی کو ’’علم الیقین‘‘ اور ’’عین الیقین‘‘ کے مدارج سے بڑها كر ’’حق اليقين‘‘ كے مقام پر سرفراز کرتا ہے۔
معجزانہ الہٰی تصرف
اللہ تعالیٰ نے معجزانہ فضل فرمادیا۔ چند احمدی سرکاری افسران بھی ادھر آگئے۔ انہوں نے کاغذات کے حصول میں بہت مدد فرمائی۔چند ایک احمدی دوست جو بڑے بااثر تھے انہوں نے بھی اس کارِخیر میں بڑھ چڑھ کر اپنے تعلقات استعمال کئےجس کے نتیجہ میں بہت سی مشکلات حل ہوگئیں۔ ان چند ایک کے اسماء گرامی کچھ یوں ہیں:
مکرم کرنل اکبر صاحب امیر جماعت، مکرم چوہدری افتخار احمد صاحب، مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب وکیل، مکرم شیخ محمد اسلم صاحب، مکرم منظور احمد کھوکھر صاحب، مکرم صوبیدار عنایت علی صاحب، مکرم عبدالرزاق صاحب ٹھیکیداراللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور جنت الفردوس میں مقامِ ارفع واعلیٰ سے نوازے۔ آمین
نئی مسجد کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت میں ایک ایسا جوش اورجذبہ پیدا کردیا تھاکہ آج تک میں حیران ہوتا ہوں کہ کس طرح احباب جماعت کھاریاں کےمرد حضرات کےعلاوہ خواتین نے بھی دل کھول کر مالی قربانی کے نمونے پیش کئے۔یہ وہ دور تھاجب عوام الناس میں شرافت زندہ تھی۔ لوگوں میں باہمی پیارومحبت اور انسانیت کا رشتہ قائم تھا۔ تعصب،کینہ اورعداوت ابھی پوری طرح پروان نہیں چڑھی تھی۔
(باقی آئندہ)
(منو راحمد خورشید ۔واقفِ زندگی)