’’کشتی نوح‘‘
رسالہ ’’آسمانی ٹیکا‘‘ جو طاعون کے بارے میں اپنی جماعت کے لئے تیار کیا گیا
5 اکتوبر 1906ء کو لکھی جانے والی کشتی نوح جیسی عظیم الشان تصنیف کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو اور ناموں سے بھی مزیَّن کیا۔ اس رسالہ کا دوسرا نام ’’دعوت الایمان‘‘ اور تیسرا نام ’’تقویة الایمان‘‘ دیا گیا۔
خاکسار کی ناقص رائے میں ہمارے نوجوانوں کو خُدا ئے عزّوجل کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اور جماعت احمدیہ کےحق میں پورا ہونے والا عظیم الشان نشان یعنی طاعون کا اس کے اسقدر جلیل القدر معجزہ کے طور پر ظاہر ہونے کی نوعیت اور شرائط کو کھول کر سمجھانے اور دوہرانے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ اس لیے بھی یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمارے آئندہ نسلوں کو اس بات میں بھی واضح فرق کا علم ہونا لازمی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئیے طاعون کا معجزہ آسمان سے ظاہر ہونا مقدر ہو چکا تھا اور اس میں کسی انسانی ہاتھ کو کوئی دخل نہ تھا۔ اورخدائے بزرگ و برتر نے اس کی خبر عرصہ دراز پہلے سے دے رکھی تھی۔ آج کی ظاہر ہونے والی وباء کا (کرونا) ہر گز اُس وقت کے طاعون کی وباء سے کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا کا احمدیت اسلام کی مضبوطی کے لیے ایک عظیم معجزہ تھا۔ آج کے نوجوانوں کی اکثریت میں جو خاص طور پر پاکستان سے باہر پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں انکی اُردو زبان کا نہ وہ معیار ہے اور نہ ہی وہ اتنی سلیس اردو سے واقفیت رکھتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خوبصورت اور انتہائی اعلیٰ طرز ِ بیان کےمعیار کو از خود سمجھ سکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لہٰذا اِن اہم ترین پیشگویٔوں اور تعلیمات کو بارہا دوہرانے اور سمجھانے کی ضرورت آج سے زیادہ شائد کبھی نہیں تھی۔
خاکسار آج کے اس مختصر مضمون میں کشتی نوح میں تحریرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش کردہ وضاحت و تفصیل خود آپؑ کے اپنے الفاظ میں بیان کر کے اس مضمون کامختصراًاحاطہ کی کوشش کرے گی اور اس رسالہ میں مذکوراور بہت سے موضوعات کا ایک انڈیکس بھی تحریر کرنے کی جسارت کرنا چاہے گی تاکہ بوقت ضرورت کچھ موضوعات کو ڈھونڈنا آسان ہو سکے۔گو کہ جس قدر زبردست اور واضح دلائل سے یہ مختصر رسالہ مزین ہے اسکا احاطہ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
ہندوستان میں طاعون پھوٹ چکی تھی اور شہروں کو ویران کرنے او ر اجاڑ نے کی جانب تیزی سے گامزن تھی۔ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کی جا رہیں تھیں تمام قوم کو ٹیکا لگوانے کی مہم زورو شور سے جاری تھی۔ مگر وقت کا امام اورمسیح ومہدی خدا سے رازو نیاز میں ہمہ تن مصروف تھا اورتڑپ تڑپ کر اپنے ماننے والوں کی جان کی بھیک مانگ رہا تھا۔ گو کہ حضرت مسیح موعودؑ خُدا تعالیٰ کی مسیح ومہدی ؑ کی آمد کےحق میں ظاہر ہونے والے نشانات میں سے ایک اور نشان (طاعون) کوپورا ہوتے دیکھ رہے تھے مگر اِس کے باوجود یہ پیارا وجود اسکے رحم کوپکار رہا تھا اپنے پیاروں کا غم اور دکھ کا تصور بھی اس پاک ذات کے لئیے سوُہانِ روح ہو چکا تھا اور پِھر پیارے اور رحیم وکریم خُدا سےخوشخبریوں کی نویدپاتے ہی کہ انّیِ اُحَافِظُ کُلَّ مَن فِی الدَّار یعنی جوبھی تیری چار دیواری میں داخل ہو گا اس موذی مرض کے شر سے محفوظ رہے گا۔ یہ پاک وجود اس غم میں غرق رہنے لگا کہ تمام وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے ایسے پاک اور ایسے پکےایمان والے ہو جائیں اور بیعت کی تمام شرائط کو سمجھ کر اُسپر سختی سے کاربند ہو جائیں تاکہ خدا کی تقدیر کہیں اُن کو عہد کے توڑنے والوں میں شامل کر کے طاعون کا شکار نہ کر دے۔
اسی غرض کو پورا کرنے کے لئیے حضور اقدس نے مناسب سمجھا کہ ممبران جماعت کو مطلع کیاجائے کہ اب کیونکہ خدا تعالیٰ کے وعدے اور واضح اشارےکہ طاعون سے حضرت مسیح موعود پر کامل ایمان لانے والے بچا لئے جائیں گےلہٰذا آپ نے اسلام احمدیت کے سائے تلے اکٹھے ہونے والوں کی آسانی کے لیے سچی اسلام احمدیت کی تعلیم کی وضاحت فرمائی۔ دوسرا یہ کہ ٹیکہ نہ لگوانے کی کیا مصلحت ہے اور اس بارے میں حکومت کے مشورہ کو نہ مان سکنے بارے معذرت اور وجوہات سے بھی حکومت وقت کو مطلع کیا جانا آپ علیہ السلام کے مقصودِ نظر تھا اور اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئےحضرت مسیح موعود عَلیہ السلام نے اس رسالہ کو ’’آسمانی ٹیکا جوطاعُون کے بارے میں اپنی جماعت کے لئیے تیار گیا‘‘ کے موٹو سے خاص کیا تاکہ پڑھنے والے کو اِس کے متن پراورسیاق و سباب بارے فوری اطلاع مل سکے۔
طاعون جو کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے عین مطابق مسیح اور مہدی کی سچائی پر مہر ثبت کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ اس انتہائی زبردست نشان اور معجزے بارے لکھے گئے اس رسالہ نے سعید فطرت لوگوں کو مسیح ومہدی موعود علیہ لسلام اور انکے دعوے کی سچائی کو نتھار کر ہر دوسری چیز سے علیحدہ کر کے دکھا دیا۔ خدا کے پیارے اور برگزیدہ مسیح اور مہدیؑ نے طاعون جیسی مہلک ،جان لیوا وبا کے ہندوستان میں پھوٹنے اور حکومت کی کوششوں کو جو اِس کے انسداد کے لیے کی جا رہی تھیں کو کما حقہ بیان کیا اس کے علاوہ طاعون سے بچاؤ کے لیے جماعت کے افراد کو ٹیکا نہ لگوانے کی وجوہات کا تفصیلی احاطہ کیا اور مدلّل طور پر وضاحت کے علاوہ اپنا مؤقف بہت خوب واضح فرما دیا۔
آپؑ نے اپنی جماعت کے ماننے والوں پر اتمامِ حجت کیا کہ اگر کسی کے دل میں جماعت کے حق میں اس خدائی معجزے بارے کوئی بھی مسئلہ ہوتووہ اس کوبھی دور کر لے اور احمدیت کو مکمل تقوٰی اور اطاعت وایمانداری اور صِدق دل سے اپنا لے تاکہ خدا کی نظر میں بھی وہ پاکیزہ اور مخلص قرار پائے اور طاعُون کیا ہر آزمائش سے بچایا جائے۔
طاعون کے بارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح حکمتِ عملی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’شکر کا مقام ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی نے اپنی رعایا پر رحم کر کے دوبارہ طاعون سے بچانے کے لئے ٹیکا کرانے کی تجویز کی، اور بندگانِ خدا کی بہبودی کے لیے کئی لاکھ روپیہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لیا۔درحقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گزاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہےاور سخت نادان اور اپنے نفس کا وہ شخص دشمن ہے جو ٹیکا کے بارے میں بدظنّی کرے۔کیونکہ بارہا یہ تجربہ میں آ چکا ہے کہ یہ گورنمنٹ کسی خطرناک علاج پر عمل درآمد کرانا نہیں چاہتی بلکہ بہت سے تجارب کے بعد ایسے امور میں جو تدبیر فی الحقیقت مفید ثابت ہوتی ہے اسی کو پیش کرتی ہے۔‘‘ پھر حضرت مسیح موعودؑ ٹیکا نہ کروانے کے لیے حکومت کےگوش گذار کرتے ہیں کہ ’’پابندیٔ رعایت اسباب تمام رعایا کا فرض ہے کہ اس پر کاربند ہو کر وہ غم جو گورنمنٹ کو ان کی جانوں کے بارے ہے اس کو سبکدوش کریں ۔ لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئیے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کرواتے ۔ اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے۔ سو اُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گاوہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے۔اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہو گا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے۔ اس کے لیے مت دلگیر ہو یہ حکمِ الٰہی ہے جسکی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لیے اور ان سب کے لیے جو ہمارے گھر کی چار دیوارمیں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ جیسا کہ ابھی میں بیان کر چکا ہوں آج سے ایک مدت پہلے وہ خدا جو زمین وآسمان کا خدا ہے جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں۔ یہ طریق جس پر خدا نے مجھے چلایا ہے اس گورنمنٹ عالیہ کے مقاصد کے بر خلاف نہیں ہے اور آج سے بیس سال پہلے اس بلائے عظیم طاعون کی نسبت میری کتاب براہینِ احمدیہ میں بطور پیشگویئ یہ خبر موجود ہے اور اس سلسلہ کے لیے خاص برکات کا وعدہ بھی موجود ہے‘‘
(براہینِ احمدیہ۔صفحہ 518-519)
میں اس بات کو معصیت جانتا ہوں کہ خُدا کے اس نشان کو ٹیکا کرا کر مُشتبہ کر دوں جس نشان کو وہ ہمارے لئیے زمیں پر صفائی سے ظاہر کرنا چاہتا ہے اور میں اسکے سچے نشان اور سچے وعدہ کی ہتک ِ عزت کر کے ٹیکہ کی طرف رجوع کرنا نہیں چاہتا۔ اور اگر میں ایسا کروں تویہ گناہ میرا قابل مواخذہ ہو گا کہ میں خدا کے اس وعدہ پر ایمان نہ لایا جو مجھ سے کیا گیا اور اگر ایسا ہوا تو پھر تو مجھے شکرگزار اُس طبیب کا ہونا چا ہئے جس نے یہ ٹیکا نکالا نہ خدا کا شکر گزار جس نے مجھے وعدہ دیا کہ ہر ایک جو اس چار دیوار کے اندر ہے میں اُسے بچائوں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمزور احمدیوں کو جو اپنی حالت جانتے بھی تھے یہ نصیحت فرمائی کہ
’’ہم اس اشتہار میں اپنی جماعت کو جو مختلف حصوں میں پنجاب اور ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے ٹیکا لگوانے سے منع نہیں کرتے جن لوگوں کی نسبت گورنمنٹ کا قطعی حکم ہو ان کو ضرور ٹیکا کرانا چاہئے اور گورنمنٹ کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے۔ اور جنکو اپنی رضا مندی پر چھوڑا گیا ہے اگر وہ اس تعلیم پر پوری طرح قائم نہیں جو اُنکو دی گئی ہے تو انکو بھی ٹیکا کرانا مناسب ہے۔تا وہ ٹھوکر نہ کھاویں اور تا وہ اپنی خراب حالت کی وجہ سے خدا کے وعدہ کی نسبت لوگوں کو دھوکا نہ دیں۔اور اگر یہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے جس کی پوری پابندی طاعون کے حملہ سے بچا سکتی ہےتو میں مختصر چند سطریں لکھ دیتا ہوں‘‘
مندرجہ بالا چند سطروں سے یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مختصر رسالہ میں جماعت احمدیہ کے بنیادی تعلیم کے مختلف پہلووں پر اسقدر دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی تاکہ احمدیت میں شامل ہر فرد نہ صرف اپنی تعلیم کو پڑھے بلکہ کامل طور پر اس پر عمل کی بھی پوری کوشش کرے۔
مندرجہ بالا چند سطروں سے یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مختصر رسالہ میں جماعت احمدیہ کے بنیادی تعلیم کے مختلف پہلووں پر اسقدر دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی تاکہ احمدیت میں شامل ہر فرد نہ صرف اپنی تعلیم کو پڑھے بلکہ کامل طور پر اس پر عمل کی بھی پوری کوشش کرے۔
خداتعالیٰ کی دی گئی خبر اور اس کے وعدوں کی خبر پا کر کہ وہ سچے اور اپنےعہد کا پاس کرنے والے احمدیوں کو طاعون سے محفوظ رکھے گا اوریہ بھی کہ ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیاری جماعت کوہندوستان میں پھوٹنے والی نہایت تباہ کن طاعون کے ظاہر ہونے اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی دعاؤں کے قبول کئے جانے کی عظیم خوشخبریوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہمیں عطا فرما دیا۔ اور اپنے ماننے والوں کو خدا کی منشاء واضح کرنے اور ان پر اتمام حجت کے طورپریہ رسالہ حکمت اور معرفت سے پُر لکھا۔ اور اپنے دل سے اٹھنے والی پردردآواز کو اپنے ماننے والوں تک پہنچانے کے لیے ایک بے نظیر تصنیف میں آئدہ کئی نسلوں تک کے لیے نصائح اور جماعتی لائحہ عمل مہیا فرما دیا۔
اہم مضامین کشتی نوح | صفحہ نمبر |
خُدا پر ایمان | 3 |
طاعون کی خبر آسمانی صحیفوں میں | 5 |
کچھ ذکر حضرت مسیح موعود ؑکی پیشگوئیوں کا | 8 |
جماعت کے افراد کو نصائح اور احمدیت اسلام کی بے نظیر تعلیم | 19،18،10 |
بروزی نبی ہونے کی مِثالیں | 16 |
مسیح مُوسوی ؑکی وفات کے دلائل | 11،16،17 |
بیعت کی حقیقت | 18 |
جھوٹی وحی کا دعویٰ کرنے والاہلاک کیا جائے گا | 28 |
قرآن اور انجیل کا مُقابِلہ، دونوں کتب میں دعا کا فرق، خدا کی زمینی بادشاہت کا فرق اور وضاحت | 28،34 |
خدا کی زمین پربادشاہت کی حِکمت اور دلیل | 36 |
سورہ فاتِحہ اور خُدا کی زمین پر بادشاہت کے اسراروموز | 12 |
وفادار خُدا کی محبت پانے کے لیے اُس کا دامن تھامے رکھنا | 20 |
پیلاطوس موسوی کی ’’پیلاطوس‘‘ مُحمدیؐ میں فرق اور مماثلت | 55 |
(عفت وہاب بٹ ۔ ڈنمارک)