• 28 اپریل, 2024

رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے اخلاق

حضرت عبداللہؓ بن مسعود آغاز اسلام سے ہی رسول کریم ﷺ کی ذاتی خدمت سے وابستہ ہوگئے تھے اور سفر وحضر میں رسول اللہ ﷺ کی خاطر بظاہر چھوٹی مگر بنیادی اور اہم خدمات بجالایا کرتے تھے۔ مثلاً رسولؐ اللہ کی مسواک وضواورغسل کے لئے پانی کا بروقت مہیا کرنا۔ بیٹھنے کے لئے بچھونے اور آرام کے لئے بستر کا انتظام کرنا۔ وقت پر بیدار کرنا غسل کے لئے پردے کا اہتمام کرنا اور آپ ﷺ کے جوتے سنبھالنا وغیرہ۔ اسی بناء پر ابن مسعوؓد “صاحب السواک”، “صاحب الوسادہ” اور ’’صاحب النعلین‘‘ کے القاب سے بھی یاد کئے جاتے تھے۔

(ابن سعدجلد3ص)

ان خدمات کے باعث ان کا اکثروقت آنحضرت ﷺ کے گھر میں آنا جانا رہتا تھا اور رسول کریم ﷺ نے آپؓ کو اپنے گھر میں آنے کی خصوصی اجازت عطا کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب آپ میری آواز سن رہے ہوں اور دروازے کے آگے پردہ نہ ہو تو آپ کو گھر کے اندر آنے کی اجازت ہے سوائے اس کے میں خود کسی وقت روک دوں۔

(اصابہ جز4ص129)

معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ کے احکام کے نازل ہونے سے پہلے کی بات ہوگی جیسا کہ نبی کریمؐ کے ایک اور خادم حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے گھر آیا جایا کرتا تھا۔

(مسند احمد جلد نمبر 3ص 238)

حضرت ابوموسیٰ اشعریٰؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی جب یمن سے مدینہ آئے تو ابتدائی زمانہ میں ہم عبداللہؓ بن مسعود کو خاندان نبویؐ کاہی ایک فرد سمجھتے رہے۔ کیونکہ ان کو اور ان کی والدہ کو ہم اکثر رسول اللہ ﷺ کے گھر آتے جاتے دیکھتے تھے۔

(بخاری کتاب المناقب باب مناقب عبداللہ بن مسعود)

الغرض عبداللہؓ بن مسعود نے آنحضرت ﷺ کا دامن مضبوطی سے پکڑا اور آپؐ سے سیکھا اور خوب سیکھا۔

حضرت ابن مسعودؓ رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ صحبت اور تربیت کے نتیجہ میں ایک عبادتگزار راست باز اور عالم باعمل انسان بن گئے۔ حضرت عمرانؓ کی عبادت گزاری اور حسن تلاوت کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت حضرت ابوبکرؓ اور میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں گشت کے لئے نکلے۔ دریں اثناء عبداللہؓ بن مسعود کے پاس سے ہمارا گزر ہوا وہ نفل نماز میں قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی کریمﷺ کھڑے ہوکر ان کی تلاوت سنتے رہے۔ پھر عبداللہؓ بن مسعود رکوع میں گئے اور سجدہ کیا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے ایمان اور نہ ختم ہونے والا یقین عطا کر اور نبی کریم ﷺ کی رفاقت اگلے جہاں میں نصیب فرما۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے عبداللہ !اب جو مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا اور جو بھی دعا کرو گے قبول ہوگی۔

پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے روانہ ہوئے تو یہ فرمایا ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ قرآن شریف کو اس طرح تروتازہ پڑھے جس حال میں وہ نازل کیا گیا ہے۔ تو اسے عبداللہ بن مسعود سے قرآن شریف سیکھنا چاہئے۔‘‘

حضرت عبداللہؓ بن مسعود کی شادی بنوثقیف کے ایک اچھے گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی اہلیہ حضرت زینبؓ بنت عبداللہ مدینہ کی ایک مخیر خاتون تھیں وہ حضرت عبداللہؓ پراپنا مال خرچ کیا کرتی تھیں۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نے خواتین کو صدقے کی تحریک فرمائی۔ میرے میاں عبداللہ کے مالی حالات کمزور تھے میں نے ان سے پوچھا کہ جو صدقہ میں نے کرنا ہے اگر میں وہ آپ پر خرچ کردوں تو کیا اس کا مجھے ثواب ملے گا؟ انہوں نے کہا تم خود آنحضرت ﷺ سے پوچھ لو۔ وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک اور انصاری عورت زینب نامی یہی مسئلہ پوچھنے آئی ہوئی تھی۔ ہم نے حضرت بلال سے کہا کہ آپ ہی ہمیں آنحضور ﷺ سے اس سوال کا جواب لادو مگر ہمارے نام کا ذکر نہ کرنا۔ بلالؓ نے جا کر جب نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا پوچھنے والی کون ہیں؟ بلال ؓ نے عرض کیا حضور زینب ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کون سی زینب؟بلالؓ نے عرض کیا ایک توعبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب اور دوسری زینب انصاریہ۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ان دونوں کو بتادو کہ ان کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک رشتہ دار سے حسن سلوک کا اجر دوسرا صدقے کا اجر۔

(مسند احمد جلد نمبر 3ص 502)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020