• 29 اپریل, 2024

درود میں حضرت ابراہیمؑ کا نام داخل کر نے کی حکمت

تبرکات

حضرت مرزا بشیر احمدؓ

کَماَ صَلَّیْتَ عَلَٰی اِبْرَاھِیْمَ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی شان کا اظہار مقصود ہے۔

میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی وجہ کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے ہی تمام گزشتہ نبیوں میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رہی ہے۔ مگر چونکہ (فداہ نفسی) سرورکائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہے اور نہ صرف غالب ہے بلکہ اتنی غالب ہے کہ کسی دوسرے نبی کی محبت کو آپؐ کی محبت سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیمؑ کی خاص محبت کے باوجود مجھے بچپن سے درود کا یہ فقرہ کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ ( یعنی اے خدا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح برکتیں نازل کر جس طرح تو نے حضرت ابرا ہیم ؑپر نازل کیں) کھٹکا کرتا تھا اور میں خیال کیا کرتا تھا کہ بظاہر ان الفاظ سے حضرت ابراہیمؑ کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس دعا میں حضرت ابراہیمؑ کی مثال کا حوالہ دینایہی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو کوئی ایسی خاص برکت حاصل ہے جو ابھی تک ہمارے آنحضرت ﷺ کو حاصل نہیں اور اس خیال کی وجہ سے میں اکثردرود پڑھتے ہوئے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ خدایا! یہ کیا بات ہے کہ ہمارا نبی افضل الرسل اور سید ولد آدم ہے اور پھر بھی درود میں یہ الفاظ داخل کئے گئے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح برکتیں نازل ہوں جس طرح حضرت ابراہیمؑ پر نازل ہوئیں۔

آخر میں نے سوچ کر تشریح کا یہ راستہ نکالا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال دینے میں برکتوں کے درجہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف ان کی نوعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اور چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو نسل کی کثرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہوا ہے اور ان کی نسل کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی ہے کہ اس میں کثیر تعداد میں نبی پیدا ہوئے۔ اس لئے میں خیال کرتا تھا کہ شاید اسی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال بیان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود والی دعا کی جاتی ہے مگر پھر بھی میرا دل پوری طرح تسلی نہیں پاتا تھا اور درود کے ان الفاظ پر پہنچ کر کہ کما صلیت علیٰ ابراھیم مجھے ہمیشہ ایک اندرونی جھٹکا لگا کرتا تھا اور میری روح ایک قسم کی ٹھوکر محسوس کرتی تھی۔ لیکن ساتھ ہی میرا دل اس یقین سے بھی پُر تھا کہ یہ خدا کی سکھائی ہوئی دعا ہے اور ضرور اس میں کوئی خاص حکمت مد نظر ہوگی جو ممکن ہے کئی لوگوں پر ظاہر بھی ہو اور انشاء اللہ مجھ پر بھی کسی دن ظاہر ہو جائے گی۔ آخر کچھ عرصہ ہوا خدا نے مجھے بھی اس کی حکمت پر آگاہ فرما دیا اور اب مجھے خدا کے فضل سے اس تشریح پر جو میرے ذہن میں آئی ہے پوری تسلی ہے۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ درود میں حضرت ابراہیم ؑ کا نام شامل کرنے میں صرف وہی حکمت مدنظر ہے جو میرے خیال میں آئی ہے۔ خدا بلکہ رسول کے کلام میں بھی بڑی وسعت ہوتی ہے اور بسا اوقات ایک ہی وقت میں کئی کئی معنے مدنظر ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ جو تشریح میرے ذہن میں آئی ہے، اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور حکمت درود میں مخفی ہو۔ مگر اب کم از کم مجھے اپنی جگہ یہ تسلی ضرور ہے کہ جو معنے میرے خیال میں آئے ہیں وہ خدا کے فضل سے نہ صرف درست ہیں بلکہ میرے ذوق کے مطابق لطیف بھی ہیں۔ وﷲ اعلم بالصواب۔ میں یہ معنے دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں۔

دوستوں کو یہ تو علم ہی ہے اور دراصل یہ بات اسلامی تاریخ کا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے جسے مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں جو حضرت اسمٰعیل ؑ کے ذریعہ عرب میں آباد ہوئی اور یہ کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی۔ جس کا ایک ایک پتھر ان مقدس باپ بیٹوں کی ہزاروں دعاؤں کے ساتھ رکھا گیا۔ اور انہوں نے اس موقع پر یہ دعا بھی کی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ خدا کے پاک بندے پیدا ہوتے رہیں جن کی توجہ خدا کے دین کے لئے وقف ہو۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے وہ خاص الخاص دعا بھی کی، جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ظہور میں آیا۔ چنانچہ قرآن شریف اس تاریخی دعا کو ان زوردار الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔

یعنی اے ہمارے رب! تو ہماری اس نسل میں جو اب اس ملک میں پھیلے گی۔ اور تیرے اس مقدس گھر کے ارد گرد آباد ہوگی۔ ایک عالی شان رسول انہی میں سے مبعوث فرما۔ جو انہیں تیری مبارک آیات پڑھ کر سنائے۔ اور انہیں تیری کتاب کی تعلیم دے اور پھر اس کتاب کے احکام کی حکمت بھی سکھادے اور انہیں اپنے پاک نمونہ کی برکت سے ایک ترقی یافتہ زندگی عطا کرے۔ یقیناً تو بڑی شان والا اور بڑی حکمت والا خدا ہے۔

اس دعا کے الفاظ بڑے بھاری فضائل پر مشتمل ہیں۔ مگر مجھے اس جگہ اس دعا کی تفسیر اور تشریح میں جانا مدنظر نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک ایسے خاص نبی کی بعثت کی دعا کی تھی جو اپنے روحانی اور علمی اور تربیتی پروگرام کے ساتھ بے مثل امتیاز کا مالک بننے والا تھا اور آنحضرت ﷺ حدیث میں فرماتے ہیں کہ میری بعثت اسی دعا کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ آپؐ کے الفاظ یہ ہیں:۔

انا دعوۃ ابراھیم…
’’یعنی میں ابراھیم ؑکی دعا کا ثمرہ ہوں۔‘‘

اب گویا تین باتیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
(اول) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہیں۔
(دوم) یہ کہ حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا کی تھی۔
(سوم) یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت اسی دعا کا نتیجہ تھی۔

اب اگر ہم ان تین باتوں کو مدنظر رکھ کر درود کے الفاظ پر غور کریں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے اور درود میں کما صلیت علٰی ابراھیم یا کما بارکت علٰی ابراھیم کے الفاظ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی کمی کے مظہر ثابت نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاََ اس بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور آپ کی امت کی غیر معمولی ترقیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے درود میں داخل کئے گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ کما صلیت علیٰ ابراھیم (محمد رسولا للہ ﷺ پر اسی طرح کی برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم ؑپر نازل کیں) اس غرض کے لئے رکھے گئے ہیں کہ تا حضرت ابراہیمؑ کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا جائے جوان کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعا اور اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اے خدا! جس طرح تو نے ابراہیم کی دعا سے ابراہیمؑ کی نسل میں ایک عظیم الشان نبی پیدا کیا۔ اسی طرح اب محمدرسول اللہ ﷺ کی امت میں بھی غیر معمولی روحانی کمالات کا سلسلہ جاری رکھ۔ اس طرح درود میں ایک نہایت ہی لطیف اور مقدس دور یعنی پائیس سرکل (Pious Circle) قائم کر دیا گیا ہے۔ اور خدا کے دامنِ رحمت کو اس دعا سے حرکت میں لایا گیا ہے کہ اے خدا! تو محمد رسول اللہ ﷺ پر اسی طرح کی خاص برکات نازل فرما جس طرح تو نے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے ذریعہ ابراہیمؑ پر اپنی خاص برکات نازل فرمائیں۔ گویا کما صلیت علٰی ابراھیم میں جو مثال دی گئی ہے وہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضرت ابراہیمؑ سے اور حضرت ابراہیمؑ کا نام صرف اس مثال کو واضح کرنے اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیاہے۔ پس درود کے صحیح معنے یہ ہوئے کہ اے خدا! تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی وہ خاص برکتیں نازل فرما جو تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالی شان نبی کی بعثت کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ پر نازل کیں۔ گویا چکر کھا کر آنحضرت ﷺ کے کمالات روحانی کی مثال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی لوٹ آئی اور کما صلیت علیٰ ابراھیم کے الفاظ میں حضرت ابراہیم ؑ کی برتری اور فوقیت کا کوئی سوال نہ رہا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر تشریح کی ہے۔ دراصل محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے برکتوں کی دعا خود آپ کی اپنی ہی مثال دے کر مانگی گئی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کا نام صرف اس مثال کی تشریح کے لئے لایا گیا ہے۔اب دیکھو کہ یہ کیسا مبارک چکرہے جو درود میں قائم کیا گیا ہے گویا درود کی دعا کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ خدایا!محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بےمثل برکات آپ کی ذات تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کا سلسلہ قیامت تک وسیع ہوتا چلا جائے اور آپ کے روحانی اظلال دنیا میں ظاہر ہو کر ہمیشہ آپؐ کا نور اور روشنی پھیلاتے رہیں۔

اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ درود کی دعا پوری ہوئی یا نہیں اور اگر پوری ہوئی تو کس رنگ میں پوری ہوئی۔ سواس کاسیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ دعا اپنی مکمل شان میں پوری ہوئی بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کی طرف سے اس بات کا علم دیاگیاتھا کہ ہماری سکھائی ہوئی درود کی دعا اس اس رنگ میں پوری ہوگی۔ چنانچہ اس دعا کی عام تجلی تو یہ ہے کہ امت محمدیہ کو باکمال اولیاء اور عدیمالمثال علماء کا غیر معمولی ورثہ عطا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ خود فرماتے ہیں کہ:۔

عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَ نْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائیْلَ

’’یعنی میری امت کے روحانی علماء (جن میں ہر صدی کے مجدد بھی شامل ہیں) اپنی شان اور روحانی کمالات میں بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے ’’پس یہ جو امت محمدیہ میں ہزاروں باکمال اولیاء اور ہزاروں خدارسیدہ علماء گزرے ہیں جو اپنے اپنے زمانہ میں ظاہری علم کے ساتھ ساتھ خدائی کلام سے بھی مشرف ہوتے رہے ہیں اور جن سے سمائِ اسلام کا چپہّ چپہّ مزیّن نظر آتا ہے ،یہ سب اسی درود والی مبارک دعا کا کرشمہ ہیں‘‘
مگر اس عام روحانی ورثہ کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک ظلِّ کامل اور بروزِا تم کا بھی وعدہ تھا۔ جس کی بعثت کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قرار دیا گیا تھا۔ جیسا کہ سورہ جمعہ کے الفاظ واٰخرین منھم (یعنی آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ محمدرسولاللہ ﷺ کو ایک بروز کے ذریعہ دوبارہ معبوث کرے گا) میں بتایا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے یُدْ فَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ…۔ (یعنی آنے والا مصلح اپنی وفات کے بعد اپنے روحانی مقام کے لحاظ سے میرے ساتھ ہی رکھا جائیگا۔) کے الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سو یہ وعدہ بھی حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے وجود میں پورا ہوگیا۔ گویا جس طرح حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ پیدا ہوئے اسی طرح کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْراھِیْمَ کی دعا کی تکمیل کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں تشریف لے آئے۔ اور ابھی نہ معلوم قیامت تک آپ کے کن کن اور روحانی اظلال نے آسمانِ ہدایت پر طلوع کر کے درود والی دعا کو پورا کرنا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمدٍ وبارک وسلم۔

خلاصہ کلام یہ کہ درود میں حضرت ابراھیمؑ کی مثال بیان کرنے سے حضرت ابراہیمؑ کے کسی ذاتی کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعاکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجودظہور میں آیا اور غرض یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کی دعا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود پیدا ہوا۔ اسی طرح اب اے خدا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپؐ کے روحانی اظلال کا سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے۔ اوراس ذریعہ سے ایک ایسا مقدس دورقائم ہوجائے جو تیرے آخری نور کے ذریعہ دنیا میں ہمیشہ اجالا رکھے۔ اس نکتہ کے حل ہونے کے بعد میری روح کماصلیت علیٰ ابراھیم کے الفاظ پر رْکنے اور جھٹکا کھانے کی بجائے ایک خاص قسم کے روحانی سرور اور ایک خاص قسم کی روحانی لذت کی حالت میں تسبیح کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ اور ان چمکتے ہوئے آسمانی ستاروں اور اس درخشاں ظلی شمس وقمر کا نظارہ کرنے میں جن سے آج فضاء اسلام مزیّن ہے۔ ایک ایسا لطف محسوس کرتی ہے جو اس سے پہلے کبھی میسر نہیں آیا تھا۔

اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔ اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم

اللھم صل علٰی محمدِِ کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔ واٰخردعوٰنا ان الحمد للہ رب العلمین۔

(مطبوعہ الفضل 30جولائی1948ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020