• 29 اپریل, 2024

صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت بابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ آف انبالہ

حضرت بابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ولد محترم حافظ اللہ بندہ انبالہ کے رہنے والے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹریژری آفس میں بطور کلرک ملازمت کی۔ انبالہ میں ہی حضرت مولوی محمد علی الراعیؓ (وفات: مئی 1961ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) جو وہاں امام مسجد تھے، سے تعارف ہوا۔ ان کے احمدی ہونے پر سب ان کے مخالف ہوگئے، حضرت بابو عبدالرحمٰن بھی مخالفین میں شامل تھے لیکن جلد ہی حضرت میر قاسم علی ؓ اور حضرت چوہدری رستم علی ؓ کے زیِر اثر احمدیت کے قریب آگئے اور اپنے خاندان سمیت 1903ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی، سارے خاندان کی بیعت کا اندراج اخبار بدر 15مئی 1903ء صفحہ 136 پر موجود ہے۔

آپ کی خود نوشت اخبار الحکم جنوری اور فروری 1940ء کے پرچوں میں قسط وار شائع شدہ ہے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد کا حال بیان کرتے ہوئے آپؓ لکھتے ہیں:

’’میری انکساری اور غریب مزاجی کی وجہ سے میرے سب رشتہ دار اور دوست اور محلہ والے میرے سے خوش تھے۔ اور تعریف کیا کرتے تھے۔ مگر اب یکدم بیعت کی خبر سن کر سب رشتہ دار (علاوہ جدی رشتہدار بفضل خدا سب میرے ساتھ بیعت میں شامل تھے۔) اور دوست ایذادہی کے در پے ہو گئے۔ کبھی پنچایت کرتے اور حقہ پانی بند کرتے۔ اور کبھی مولویوں کوبلا بلا کر ہمارے خلاف وعظ کراتے اور رشتہ داروں اور دوستوں اور پبلک کو ہمارے خلاف برا نگیختہ کرتے۔ ایک دکاندار شیر فروش ہمارے ساتھ تھا۔ اس سے دودھ لینا بند کرا دیا۔ مزدوروں سے مزدوری کرانی بند کردی۔ اور رشتہ ناطہ بند کر دئیے۔ اور لوگوں کو نصیحت کرتے کہ اگر کوئی احمدی کے مکان کے نیچے سے گزرے گا۔ کافر ہو جاوے گا۔ قدرت خدا کی جو مولوی نصیحت کرتے۔ وہی میرے گھر پر آ کر کھانا وغیرہ کھا جاتے۔ لوگ دیکھ کر بہت پشیمان ہو ئے۔ بیعت کرنے کے بعد ہم نے نماز با جماعت چو نکہ غیراحمدی امام مسجد کے پیچھے پڑ ھنی ترک کر دی۔ یا تو علیحدہ علیحدہ نماز پڑ ھ لیتے یا اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیتے۔ اور نماز باجماعت کر لیتے۔ اس پر محلہ والے تنازعہ اور جھگڑا کرنے لگے۔ ہم نے رفع شر کے لئے نماز باجماعت مسجد میں اپنے امام کے پیچھے بھی پڑھنی ترک کر دی۔ بلکہ اپنے مکان پر نماز باجماعت پڑھ لیتے۔ (جو میں نے کرا یہ پر لیا ہوا تھا) یہ مکان بھی مالک مکان نے خالی کرا لیا۔ پھر دوسرے مکان میں جو میں نے کرایہ پر لے لیا۔نماز باجماعت ادا کر تے۔‘‘

حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پہلی حاضری کے متعلق آپؓ لکھتے ہیں:
’’1903ء میں مولوی کرم الدین کے مقدمہ کی حضرت مسیح موعودؑ کی پیشی گورداسپور کے مجسٹریٹ لالہ چندولعل صاحب کی عدالت میں تھی۔ چو ہدری رستم علی صاحب مرحوم نے کہا کہ میرا ارادہ پیشی مقدمہ پر جانے کا ہے۔ بہتر ہے کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ میں تیار ہو گیا۔ اور ہم بیل گاڑی میں سوار ہو کر سیدھے گورداسپور پہنچے۔ شاید گیارہ یا بارہ بجے دن کا وقت تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت سے واپس آ رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے فرمایا کہ وہ حضرت صاحب ہیں۔ میں نے جب دیکھا تو حیران ساہو گیا۔ کیو نکہ آپ ایسا لمباسیاہ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اور کمر میں زریں پٹکی بندھا ہوا تھا۔ حضور معہ خواجہ کمال الدین صاحب ایک دری پرجو ایک درخت کے سایہ کے نیچے بچھی ہوئی تھی، بیٹھ گئے اور مقدمہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں وہیں پر کھانا آگیا۔ نان اور گوشت سب کے سامنے۔ ایک ہی قسم کا کھانا تھا۔ میں نے اور چوہدری رستم علی صاحب مرحوم نے بھی حضور کے پاس ہی بیٹھ کر کھانا کھایا۔ مقدمہ کی آئندہ تاریخ مقرر ہو گئی۔ شام کی ریلگاڑی سے بہ ہمراہی حضرت اقدسؑ گورداسپور سے بٹالہ آئے۔ اور رات کو حضرت صاحب سرائے میں مقیم رہے اور ہم بھی وہیں پر رہے۔ علی الصباح بعد نماز فجر حضرت صاحب رتھ میں سوار ہو کر قادیان تشریف لے گئے۔ اور چوہدری صاحب اور دو تین اور احمدی ایک بمبوکاٹ میں بیٹھ کر قادیان پہنچ گئے……بعدہ میں اور چوہدری صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت صاحب ….تشریف فرما تھے۔ اور تقریباً دس بارہ دوسرے احباب حاضر تھے۔ جن میں مولوی حکیم نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بھی تھے۔ بعد مصافحہ چوہدری صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ میں نے حقیر سی رقم جو ایک رومال میں بند تھی، حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ حضور نے رومال لے کر رکھ لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میری درخواست پر حضور نے بیعت لی۔ اور بعد بیعت ہو نے کے سب حاضرین نے دعا فرمائی۔ الحمدللّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر دہلی 1905ء کے موقع پر آپ بھی انبالہ سے دہلی آئے اور حضورؑ کی پاکیزہ صحبت سے فیض اٹھایا۔

آپ بیان کرتے ہیں کہ 1904ء کے جلسہ سالانہ اور بعد کے جلسوں میں بھی قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدسؑ کا نیاز حاصل کرتا رہا۔

مزید بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں جب میں پہلی مرتبہ قادیان شریف گیا اور احمدی ہوا، اس وقت قادیان محض ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بہت سے نئے مکانات قادیان کے اندر تعمیر ہوئے۔ اور پھر حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں قادیان کے باہر مسجد نور، نور ہسپتال، عالیشان عمارت مدرسہ اور بورڈنگ اور بہت سے نئے مکانات تعمیر ہو ئے اور اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے وقت میں اس کثرت سے مکانات اور کوٹھیاں اور مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ کہ ریل سے قصبہ میں داخل ہوتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ گویا لاہور کا عظیم الشان پر رونق حصہ ہے۔ وَ سِّعْ مَکَانَکَ جو الہام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا تھا۔ وہ حرف بحرف پورا ہوا۔ نیز حضورؑ نے فرمایا تھا۔ کہ قادیان ترقی کرتا کرتا بیاس تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ اس کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے قادیان تک ریل جاری کرا دی۔ اور بیاس تک جاری ہو نے والی ہے۔ ٹیلی گراف اور ٹیلیفون لگ گئی۔ بجلی کی روشنی کے کھمبے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ یَاتِیکَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ وَیَا تُونَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ۔ یعنی تیرے پاس لوگ دور دور سے آ ویں گے۔ اور تیرے پاس تحائف لیکر آو یں گے۔ چنا نچہ روزمرہ قادیان میں باہر سے لوگ آتے ہیں۔ اور بالخصوص جلسہ سالانہ پر ماہ دسمبر۔ تقریباً ہر ملک اور ہر شہر کے احباب بقدر پچیس چھبیس ہزار کے اس پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے جلسہ سالانہ پر قادیان آتے ہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ میں نے بہت کچھ ترقی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی اپنی آ نکھوں دیکھی۔ اور امید قوی ہے ایسی جیسا کہ ایک اور ایک دو ہوتے ہیں۔ اور یہ الہام کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے بر کت ڈھونڈیں گے۔ اور کہ تمام دنیا احمدی ہو جاوے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پورے ہوں گے۔

حضرت بابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ انبالہ جماعت کے امیر تھے اور بحیثیت امیر آپ ہر طرح سلسلہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے متعلق کوشش کرتے رہتے، آپ کی ان کوششوں کا اظہار ناظر صاحب بیت المال قادیان کی ایک رپورٹ سے بھی ہوتا ہے، ناظر صاحب ایک جگہ مختلف جماعتوں کی رپورٹس میں جماعت انبالہ کی کارکردگی کے متعلق لکھتے ہیں:

’’جماعت انبالہ ہمیشہ سے باقاعدہ اور بروقت چندہ دینے والی ہے یہاں تک کہ مرکز میں روپیہ کی اشد ضرورت کے معلوم ہونے اور حضرت کی چٹھی کے ملنے پر امیر جماعت بابو عبدالرحمٰن صاحب نے احباب سے چندہ ماہ دسمبر بھی پیشگی وصول کر لیا۔‘‘

(الفضل 28جنوری 1930ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ چندہ خاص کی تحریک فرمائی اس میں بھی جماعت انبالہ نے نہایت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ناظر صاحب بیت المال رپورٹ میں لکھتے ہیں:

’’جماعت انبالہ اپنے تمام چندوں کو نہایت باقاعدہ اور بروقت بھیجنے والی جماعت ہے۔ تحریک چندہ خاص جس دن ان کے ہاں پہنچی، امیر جماعت بابوعبدالرحمٰن صاحب نے نہایت توجہ سے کام لے کر اسی دن چندہ خاص کا فارم پُرکیا۔ باوجودیکہ یہ جماعت خاصی بڑی جماعت ہے، فارم مکمل کر کے جولائی کے پہلے ہی ہفتہ میں ارسال کر دیا تھا……‘‘

(الفضل 24۔اگست 1928ء)

آپ خلافت سے بےحد اخلاص رکھنے والے تھے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے، حضرت حاجی میراں بخش ؓ آپ کی ایک بیماری کے احوال میں لکھتے ہیں:

’’بابو عبدالرحمٰن صاحب عرصہ تین ماہ سے سخت بیمار تھے، ان کے معالجہ میں ہم نے کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔ ان کی زندگی سے ہم بالکل مایوس ہوگئے تھے۔ بندہ حسب الحکم بابوصاحب موصوف روزانہ ایک کارڈ حضرت فضل عمر کی خدمت میں ارسال کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور کی دعاؤں سے بابو صاحب کو بالکل شفا ہوگئی ہے، فالحمد للّٰہ‘‘

(الفضل 17۔اکتوبر 1915ء)

انبالہ میں جماعت احمدیہ کی باقاعدہ مسجد نہیں تھی، آپ نے اپنی ذاتی جگہ مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی چنانچہ جولائی 1933ء میں یہ مسجد تیار ہوگئی۔

(الفضل 8۔اگست 1933ء)

حضرت بابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے مورخہ 11؍مارچ 1947ء کو بعمر 81 سال وفات پائی، آپ بفضلہٖ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 3575) تھے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 4۔اپریل 1947ء کے خطبہ ثانیہ سے پہلے فرمایا:

’’پہلا جنازہ بابو عبدالرحمٰن صاحب امیر جماعت انبالہ کا ہے۔ بابوعبدالرحمٰن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُرانے صحابی تھے اور نہایت مخلص اور نیک انسان تھے۔ منشی رستم علی صاحب کی تبلیغ سے آپ احمدی ہوئے اور پھر اس کے بعد تمام عمر جماعت کی تربیت میں مصروف رہے۔ ان کی زندگی نیکی اور تقویٰ کی ایک مثال تھی۔ ایسے لوگوں کا گزر جانا قوم کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں کا فرض ہوتا ہے کہ ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھیں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور ان کے روحانی وجود کو دنیا میں قائم رکھیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد28صفحہ 113،114۔ خطبہ جمعہ مورخہ 4۔اپریل 1947ء)

آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ نانکی صاحبہ تھا جنہوں نے 27جولائی 1952ء کو بعمر 86 سال وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 3574) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ آپ کے بیٹے محترمعبدالمجید انبالوی نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:

’’26جولائی 1952ء کو میری والدہ محترمہ اہلیہ بابوعبدالرحمٰن مرحوم امیر جماعت احمدیہ انبالہ شہر بعمر تقریبًا 90 سال جھنگ مگھیانہ میں انتقال فرما گئیں، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ مرحومہ صحابیہ اور موصیہ تھیں۔ اُسی دن ان کی میت کو شام کے وقت ربوہ پہنچا دیا گیا، دوسرے دن صبح حضرتخلیفۃالمسیح الثانی ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہت لمبی دعا فرمائی۔ مرحومہ بہت نیک، پارسا اور کنبہ پرور خاتون تھیں۔‘‘

(الفضل 3۔اگست 1952ء)

آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، دونوں بیٹوں محترمعبدالمجید اور محترم عبدالحمید کی بیعت کا اندارج آپ کی بیعت کے ساتھ ہی درج ہے، دونوں بیٹوں کو آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تعلیم الاسلام سکول قادیان میں داخل کرا دیا تھا چنانچہ دونوں بیٹوں کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کا شرف بھی پایا۔

(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020