• 16 مئی, 2025

جماعت کی انتظامیہ کو بھی کوشش کرنی چاہئے

خشیت اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہو اور صرف کسی کی اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ڈر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی خشیت یقینا ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار بھی ہے اور ایک کمزور بندے کی اپنی کم مائیگی کا اظہار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے؟ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اُس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ہر چیز اُس کی پیدا کردہ ہے اور اُس کے ذریعہ سے قائم ہے۔ اُسی کی ملکیت ہے اور اُس کے چاہنے سے ہی ملتی ہے۔ پس جب ایسے قادر اور مقتدر خدا پر ایمان ہو اور اُس کی خشیت دل میں پیدا ہو تو پھر ہی انسان اُس کی قدرتوں سے حقیقی فیض پا سکتا ہے۔

یہاں یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت علماء میں ہی ہوتی ہے تو کیا ہر عالم کہلانے والا یا اپنے زعم میں عالم اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہے۔ اور یہ بھی کہ شاید جو غیر عالم ہیں وہ اُس معیار تک نہیں پہنچ سکتے جس خشیت کا معیار اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ اگر یہی معیار ہے کہ صرف عالم اُس تک پہنچ سکے تو پھر آجکل تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں علماء دیکھتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ جو قرآنِ کریم کو بھی صحیح طرح نہیں سمجھتے، جنہوں نے اس زمانے کے امام کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ مخالفت میں گھٹیا ترین حرکتوں کی بھی انتہا کی ہوئی ہے اور وہ کہلاتے عالم ہیں۔ پس یقینا یہ باتیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ علماء کی تعریف کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ جن علماء کا یہاں ذکر فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو علماء کہتا ہے وہ کچھ اور لوگ ہیں۔ اگر ہر ایک کو ہی عالم سمجھ لیا جائے جو دینی مدرسہ میں واجبی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوا ہے، جس طرح آجکل عموماً ہمارے ملکوں میں پھرتے ہیں یا جس کو عام دنیادار یا اُس کے ارد گرد کے طبقے کے لوگ عالم سمجھتے ہیں یا جس نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے، عالم کی ایک اور صورت بھی ہوتی ہے کہ دینی نہ سہی اپنی دنیاوی تعلیم کی بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان ہیں، سائنسی تجربات کرنے والے ہیں۔ دنیاوی علوم میں اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ تو یہ بات بھی غلط ہو گی کہ صرف دنیاوی عالم کو عالم سمجھا جائے۔ دنیاوی علوم حاصل کرنے والے تو بعض ایسے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے ہی منکر ہیں کجا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُن کے دلوں میں پیدا ہو۔ تو یہاں عالم کی تعریف کی تلاش کرنی ہو گی کہ حقیقی عالم کون ہے؟ نہ نام نہاد دنیا کے لالچوں میں گھرے ہوئے دینی عالم یہاں مراد ہیں اور نہ ہی دنیاوی عالم۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ بیشک اسلام دینِ کامل ہے اور یہ دینی علم رکھنے والے دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم نے یہ دین کا علم حاصل کیا ہے۔ بعض لوگ اسلام کا پیغام بھی پہنچاتے ہیں۔ اسلام کا پھیلنا بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے لیکن یہ ایسے علماء کے ہاتھوں سے نہیں ہو گا جن کے دنیاوی مفادات ہیں یا جن کے دنیاوی مفادات زیادہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت نام کی کوئی چیز اُن میں نہیں ہے۔ شاید میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، اس دفعہ امریکہ کے دورہ میں جب ٹی وی کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا کہ امریکہ میں اسلام کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ تو اس کو مَیں نے یہی کہا تھا کہ اسلام تو ان شاء اللہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں پھیلے گا مگر ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں اور ان علماء کے ذریعے سے نہیں پھیلے گا بلکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پھیلے گا اور دلوں کو فتح کر کے اور امن اور پیار اور محبت کی تعلیم دے کر، نہ کہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے جس کی تعلیم آجکل یہ علماء اکثر دیتے رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ حقیقی اسلام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو اس زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہودنے ہمیں کھول کر بتایا ہے اور سکھایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں حاصل کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ علماء صرف ایک طبقے کا نام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو محدود ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ انسانوں کو باخدا انسان بنانے کے لئے تشریف لائے تھے اور انسان باخدا انسان نہیں بن سکتا جب تک کہ اُس میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہ ہو۔ اسلام میں آ کر تو بڑے بڑے چور ڈاکو صرف اس لئے ولی بن گئے کہ اُن میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کا فہم و ادراک پیدا ہو گیا۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 اگست 2012 ۔ بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2021