دبستانِ حیات
قسط ہفتم
ارض سپین سےتائید الہی کےچند دلچسپ واقعات
خاکسارکوحضورِانورنے ازراہِ شفقت تبلیغی مشن پرسپین جانے کا ارشاد فرمایا۔ تعمیلِ ارشادمیں سپین چلا گیا۔ایک خوف ساتھا کہ نامعلوم دورانِ سفرکوئی دشواری نہ پیش آجائے۔اللہ تعالیٰ کے فضل اور پیارے آقا حضورِ انور ايَّده اللہ تعالىٰ کے ارشاد اور دعا کے طفیل میں نے تقریباً دو سال کا عرصہ وہاں گزارا۔ اس دوران کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں خود حیران ہوتا ہوں کہ لندن میں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ رہتا تھا۔ لیکن قیامِ سپین کے دوران اللہ تعالیٰ نےمعجزانہ طور پرشفا دے دی۔ میں نے پورا پورا دن سفر کیا اور بہت مصروف دن بسر کئے۔الحمدللہ
سپین میں ابتدائی روابط
ابتدائی ارشاد موصول ہوا کہ ایک ماہ کے لئے سپین جاکر گیمبیا اور سینیگال کے احمدی اور غیرازجماعت بھائیوں میں تبلیغ وتربیت کا فریضہ سرانجام دوں۔ اس وقت مجھے وہاں کےحالات کاکوئی ادراک نہیں تھا۔
خاکسار نے سپین میں افریقن احمدی بھائِیوں کے بارے میں سپین مشن سے رابطہ قائم کیا ۔مجھے بتایا گیا۔اس وقت سپین میں چار دوست گھانین، تین گیمبئن اور ایک سینیگال سے ہیں۔ میں نے ان دوستوں کے فون نمبرز حاصل کئے اور لندن سے بذریعہ فون رابطہ قائم کرنے کی کوشش شروع کردی۔جس کے نتیجہ میں ان سے تعارف ہوگیا۔ان کومیں نے اپنی آمد کے بارے میں بتایا اور ان سے ہر ممکنہ تعاون کی درخواست کی۔
میں نے لندن میں چند گیمبیئن احمدی حباب سے رابطہ قائم کرکے سپین میں احمدی بھائِیوں کے بارے میں استفسار کیا۔لیکن کوئی معلوما ت نہ ملیں ۔
ایک دوست نے بتایا کہ گیمبیا جماعت کے سابق صدرخدام الاحمدیہ مکرّم طاہرطورے صاحب اس سلسلہ میں مدد کرسکتے ہیں۔میں نےان سے رابطہ قائم کیا۔چند بار فون کرنے کے بعد ان سے رابطہ ہوگیا۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیردے انہوں نے دو دوستوں کے بارے میں بتادیا۔سپین پہنچ کر ان افرادسے بات چیت شروع کی گئی۔اللہ کے فضل سے سب پرانے احمدی تھے۔میں سب کو گیمبیا سے ہی جانتا تھا۔بہت خوش ہوئے۔
تائید الٰہی کا ایک خوبصورت واقعہ
گیمبیا میں فرافینی نامی ایک قصبہ ہے۔وہاں سے مکرم ڈاکٹر فرید احمد صاحب کا کسی کام سے مجھے فون آگیا۔دورانِ گفتگومیں نے انہیں بتایا کہ ان ایّام میں سپین میں ہوں۔اگر آپ کےعلاقہ سے کوئی احمدی بھائی سپین میں ہوتو،مجھے اس کا فون نمبر ارسال کردیں۔
اسی روز شام کو ان کی طرف سے پیغام ملا کہ ایک خادم نے بتایا ہےکہ اس کا ایک چچا زاد سپین میں ہےاوراس کانام لامن جانج ہے۔ اس کا فون نمبر بھی بھیج دیا۔اندھے کو کیا چاہیے دوآنکھیں۔میں نے فوری رابطہ کرنے کی کوشش کی۔چند باراس نمبر پر رابطہ کیاگیا۔مگرجواب ندارد۔مایوسی ہوئی۔لیکن بعد میں،میں نے وائس میسج ریکارڈ کرکے بذریعہ وٹس ایپ بھیجا اور اپنے بارے میں بتایا۔تھوڑی دیر میں اس کی طرف سے فون آگیا۔تعارف کے بعد علم ہوا کہ میں تو اس کو بچپن سے جانتا ہوں۔اس کا والدکسٹم میں ڈرائیور تھا۔میر ابہت مہربان دوست تھا۔اس کو میں نے اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔اس نوجوان کا اس وقت تک جماعت سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ بہت خوش ہوا اور جماعت سے رابطہ قائم کرنے کاوعدہ کیا۔
میں نے اس سے کسی اور احمدی کے بارے میں استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ میرا اپنا بھائی بھی یہاں ایک دوسر ےشہر میں رہتا ہے۔جس کا نام یوسف جانج ہے۔ میں نے اس کا نمبرلےکراس سے رابطہ کیا۔وہ بھی بفضلِ تعالیٰ پیدائشی احمدی تھا۔وہ بھی بہت خوش ہوا۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلتے گئے۔
وہی تو مسبب الاسباب ہے
ایک روزخاکسارعزیزم قاصد احمد مربی سلسلہ سپین کے ہمراہ مکرم امیر صاحب کے ارشاد پر ملاگا کے علاقہ میں گیا۔ہم لوگ کافی دیرافریقن بھائیوں کی تلاش میں سر گرداں رہے لیکن صرف چند ایک کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ہم لوگ اس ناکامی کی وجہ سے دلبرداشتہ ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ اتنے میں ایک سینیگالی احمد باہ نامی دوست سے ملاقات ہوگئی۔
اس سے پوچھا کہ افریقن لوگ کس علاقہ میں رہتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ میں تو ماربیا نامی شہر سے آیا ہوں۔ یہاں کا مجھ علم نہیں ہے۔ ہاں ماربیا شہرمیں بہت سےافریقن دوست ساحلِ سمندرپراشیاء فروخت کرتے ہیں۔نیزا س نے بتایا، ماربیا یہاں سے چالیس منٹ کی مسافت پرہے۔
ماربیا کا نام میں نے سن رکھا تھا۔دراصل چند روز قبل میں نے گیمبئن احمدیوں سے وٹس ایپ پر درخواست کی تھی کہ مجھے اپنے اپنے شہر کا نام ٹیکسٹ کردیں۔ جس کے نتیجہ میں کچھ احباب نے اپنے ایڈریس مجھے بھیج دئے۔ ان میں ایک نام ماربیا بھی تھا۔میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ گیمبیا کے ایک دوست مکرم کتابو کاسما صاحب اسی شہر میں رہتے ہیں۔ میں نے انہیں فون کیا۔ الحمدللہ کہ انہوں نے فون اٹھا لیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں تو ملاگا میں ہوں۔ اگر ممکن ہو تو آپ کے پاس آجاؤں۔ کہنے لگے آج میری رخصت ہے اور میں گھر پر ہی ہوں۔اس لئے آجائیں۔
میں نے قاصد صاحب سےکہا، ماربیا چلتے ہیں۔ اس کے بعد ہم جلد ہی ماربیا میں تھے۔ کتابو صاحب نے بتایا کہ آج میری جاب سے رخصت ہے۔ مکرم کاسما صاحب بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے آج میں بہت خوش ہوں کہ میرے پاس ہمارے مشنری آئے ہیں۔ ان کے ساتھ ہم لوگ تبلیغ کے لئے نکل گئے۔ اللہ کے فضل سے بیس کے قریب سینیگالی افراد سے ملاقات ہوئی اور ان کے فون نمبرز رابطہ کے لئے مل گئے۔
گمشدہ احمدی بھائی
ایک روز میں نے گیمبیا میں ایک مربّی صاحب کو فون کر کے ان سے استفسار کیا۔ کیا وہ سپین میں کسی احمدی یا غیراحمدی دوست کے بارے میں جانتے ہیں۔ کہنے لگے۔ مجھے تو کوئی علم نہیں ہے۔ لیکن ان کے قریب ہی بیٹھے ایک نوجوان نے بتایا کہ میرا چچا زاد الحاجی نیابالی سپین میں رہتا ہے۔ میری درخواست پر اس نے اپنے کزن کافون نمبر بھی بھیج دیا۔
میں نے اس نوجوان سے بذریعہ وٹس ایپ رابطہ قائم کیاکچھ ہی دیر بعد موصوف کا جواب آگیا۔بات چیت کرکے بہت خوش ہوا۔اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور چار بچے بھی ہیں۔
یہ دوست بارسلونا نامی معروف شہر سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع جیرونا نامی قصبہ میں عرصہ دس سال سے مقیم ہیں۔لیکن بوجوہ ان کا بھی جماعت سے رابطہ نہیں تھا۔انہوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا۔اور جماعت سے رابطہ قائم کرنےکا وعدہ کیا۔
ایک یاد گار تصویر
اگلے روز انہوں نے مجھے 1996 میں خاکسار کے ساتھ لی گئی تصویر بھی ارسال کی۔جس میں جلسہ سالانہ گیمبیا کے بعد مَیں اور نیابالی صاحب مسجد بیت السلام میں کھڑے ہیں۔ میں ان کی ناقابل بیان محبت اور یادداشت پر حیران ہو کررہ گیا۔ یہ تصویر 2 سال پہلے کی تھی۔
میں نے الحاجی نیابالی صاحب سے کسی دیگر گیمبیئن احمدی دوست کےبارے میں استفسارکیا تو انہوں نے بتایا۔اس علاقہ میں تین اورگیمبیئن احمدی دوست ہیں لیکن نہ معلوم آج کل کس گاؤں میں کام کرتے ہیں۔بعد میں انہوں نے ایک دوست کا نمبر بھیج دیا۔اس سے بھی الحمد للہ رابطہ قائم ہوگیا۔
نئی جماعت کا قیام
ویلینسیا میں مبلغین کرام کا ریفریشر کورس تھا۔ مکرم امیر صاحب سپین اور نائب امیر صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کو جب میں نے یہ تفصیل بتائی تو بہت خوش ہوئے۔ مکرم امیر صاحب نے نیابالی صاحب کے ساتھ فون پر بات چیت بھی کی۔امیر صاحب نے نائب امیر صاحب کو فرمایا کہ اس علاقہ میں تو ایک اور پاکستانی احمدی بزرگ بھی رہتے ہیں۔ اس لئے وہاں پر جماعت قائم کریں اور نماز سنٹر کا بھی انتطام فرمادیں۔ اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔
اہل بنی اسرائیل سے رابطہ
تقریباً تیس سال قبل کی بات ہے۔گیمبیا کے دارالحکومت بانجول کے فیری ٹرمینل پرایک احمدی مزدوری کیا کرتا تھا۔باقاعدہ ہماری مسجد میں آکر نماز جمعہ ادا کرتا۔ بہت ہی پیارا اور مخلص انسان تھا۔ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ میرے گاؤں کے سب لوگ احمدی ہیں۔اگرآپ وہاں جائیں تو بہت اچھا ہوگا۔وہ گاؤں سینیگال اورمالی کی سرحد کے قریب تھا۔جو کہ بانجول سے بہت دور تھا۔اس دور میں ذرائع نقل وحمل اور مواصلات کی سہولیات نا قابلِ بیان حدتک مشکل تھیں۔میں نے ایک معلّم مکرم محمد سنیاگو صاحب کو تیار کیا اورمختلف سواریوں پر سوار ہوتے ہوئے ایک لمبا سفر طے کرکے وہاں پہنچ گئے۔گاؤں کے امام صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ہم نے انہیں اپنا تعارف کرایا اور اس مزدوردوست کے بارے میں بھی بتایا۔امام صاحب نے بتایا ہم لوگ احمدی نہیں ہیں بلکہ ہم اہلِ سنّت ہیں۔ہم ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں اور تعویذ وغیرہ بھی نہیں باندھتے اس لئےممکن ہے اس وجہ سےاسے یہ احساس پیدا ہوا ہوکہ ہم بھی احمدی ہیں۔الغرض امام صاحب شریف النفس آدمی تھے۔اس نے ہمارابہت احترام کیا۔حسبِ توفیق ہماری خاطرمدارت کی اور رات کو جلسے کا بھی اہتمام کیا۔جس میں ہم نےحسبِ استطاعت پیغام حق پہنچایا۔ لیکن کسی نے بھی بیعت نہ کی۔دودن کے طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد بظاہر خالی ہاتھ واپس آگئے۔ بہر حال اس سرزمین پرحضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی آواز توسب کے کانوں ميں پڑگئی۔
تیس سال بعد اہل بنی اسرائیل سے ملاقات
دسمبر کے اواخرکی بات ہے۔ویلینسیا میں جماعتِ احمدیہ کی مسجد بیت الرحمان میں نمازِ جمعہ کے لئے ایک افریقن دوست تشریف لائے ہوئے تھے۔میں ان سےملا۔معلوم ہوا کہ وہ توسینیگال سے ہیں۔احبابِ جماعت نے بتایا کہ یہ افریقن دوست مسجد کی تعمیر کے دوران یہاں مزدوری کیا کرتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھار ادھر آجاتا ہے۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کی۔اس نے بتایا کہ وہ سینیگال اور مالی کی سرحد پر واقع بنی اسرائیل نامی گاؤں سے ہے۔ اس پر مجھےتیس سالہ پرانا واقعہ یادآگیا۔
اس دوست کوجس کا نام بمبا سیسے ہے۔ میں نے اپنے سفر کی ساری تفصیل بتائی اوران کے گاؤں کانین نقشہ بھی بیان کیا۔ اس پروہ بہت خوش ہو ئے۔ دوستانہ ماحول پیدا ہوگیا۔ میں نے ان سےان کا فون نمبر لے لیا اور اپنا نمبر بھی انہیں دے دیا تاکہ ہمارا باہمی رابطہ قائم رہے۔
اب میں لندن واپس آگیا ہوں۔اب بھی اللہ کے فضل سے اس کا فون آتا ہے۔ممکن ہے۔اللہ کرے۔اس آدمی مسٹر بمبا سیسےکےذریعہ سےہی بنی اسرائیل گاؤں میں احمدیت کا پودا لگ جائے اور دیر آید درست آید کے محاورہ کی عملی تعبیر مل جائے۔ آمین۔
جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار
ایک روز ویلینسا کے علاقہ میں، مَیں اور میری اہلیہ محترمہ دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں گئے۔ کافی دیر تک گھومتے رہے، کوئی افریقن دوست نہ ملا۔تھک کر ایک جانب بیٹھ گئے۔ اسی دورا ن سینیگال سے ایک دوست کا فون آگیا۔خیرخیریت دریافت کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ آجکل میں سپین میں تبلیغ کے سلسلہ میں آیا ہواہوں۔اس پروہ دوست کہنے لگے۔ میرا بھی ایک عزیز دوست سپین میں رہتا ہے۔ آپ اس سے رابطہ کریں۔ اور کہنے لگے میں ابھی آپ کو اس کا نمبر بتاتا ہوں ۔آپ اس سے رابطہ کرلیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ،انہوں نے متعلقہ آدمی کا نمبر مجھے دےدیا۔ جس کا نام الامامی دابو تھا۔ میں نے اسے فون کیا۔ جو اس نے اٹھا لیا۔
اس دوران اس سینیگالی دوست نےاپنے دوست سے رابطہ قائم کرکے میرے بارے میں تفصیل سے بتا دیا۔میں نے جب اس دوست کو فون کیا ۔و وہ بہت خوش ہوا۔اس طرح باہمی گفت وشنید کا سلسلہ چل نکلا۔یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا۔کچھ دنوں میں ہی جماعت احمدیہ سپین کا سالانہ جلسہ منعقد ہونے والاتھا۔ میں نے الامامی صاحب کو جلسہ میں شرکت کے لئے دعوت دی، جو موصوف نے بخوشی قبول کرلی۔اگرچہ وہ دوست مرکزِجماعت سپین پیدرو آباد سے قریبا ایک ہزارکلو میٹر دور، بارسلونا شہر کے مضافات میں رہتے ہیں ۔بہر حال تیار ہوگئے۔ وین کےذریعہ طویل اورتھکا دینےوالے سفر پر، اپنے پانچ دیگر دوستوں کے ہمراہ جلسہ میں شرکت کے لئےچل نکلے۔ طویل سفر کی وجہ سے ایک رات ویلینسیا کے مشن ہاؤس میں گزاری۔ اللہ کے فضل سے ویلینسیا شہرکی جماعتِ احمدیہ بہت ہی مخلص ہے۔یہاں خوبصورت مسجد بیت الرحمان اورمشن ہاؤس بھی ہے۔ احباب جماعت ویلینسیا کی مہمان نوازی اور دلداری نے بھی ان معزز مہمانوں کے دلوں میں جماعت کی محبت کی شمع روشن کردی۔ پھرجلسہ کے روحانی ماحول سے یہ خدائی مہمان اس قدر متاثر ہوئے کہ واپس جانے سے قبل انہوں نے برضاورغبت اور شرح صدر کے ساتھ اپنے دیگر پانچ دوستوں کے ساتھ بیعت کرکے اپنے آپ کو امام الزّماں کی غلامی میں دے دیا ۔الحمدللّٰہ۔ ثم الحمدللہ جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار۔
معجزانہ اتفاق
ویلینسا شہر میں ایک دوست مکرم سلمان صاحب نے مجھے ایک سینیگالی دوست ابراھیم صاحب کا فون نمبردیاایک دفعہ ان کے ساتھ فون پر بات ہوئی اچھے علم دوست ہیں۔ ماشاء اللہ بڑی شُستگی اور روانی سے عربی بولتے ہیں۔
میں نے سپین میں نئے بننے والے رابطوں کے لئے ایک وٹس ایپ گروپ بنایا۔ میں نےا س دوست کو بھی وٹس ایپ گروپ میں تبلیغ کی نیت سے ڈال لیا۔لیکن اگلے روز ہی انہوں نے گروپ کو خدا حافظ کہہ دیا۔میں نے سوچا کہ مولوی آدمی ہیں۔ ممکن ہے جماعت کے مخالف بھی ہوں۔ اس لئے احتیاطًا ان سے رابطہ قائم نہ کیا۔اس طرح کئی مہینے گزر گئے۔
ایک روز خاکسار ویلینسیا شہر میں تبلیغ کی خاطر گیا۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ آپ ہر سفر کے لئے نئی ٹکٹ نہ خریدیں بلکہ بہتر ہے کہ آپ بس پرسوار ہونے کے لئے ٹکٹیں اکٹھی لے لیں ،تو یہ سستی پڑیں گی۔ ایک راہگیر سے ان ٹکٹوں کے بارے میں استفسار کیا تو علم ہوا کہ یہ بس ٹکٹ تمباکو کی دوکانوں سے ملتے ہیں۔ کافی تلاش کے بعد منزلِ مقصود مل گئی۔
صاحبِ دوکان سے ٹکٹوں کے بارے میں پوچھا۔اتفاق سے یا رمن ترکی است و من ترکی نہ دانم۔کافی کوشش کی کہ اسے بتا سکوں،اشارے کنائے سب فیل ہوگئے۔میں نے مایوسی کے ساتھ اپنے ماحول میں نظر دوڑائی۔تھوڑے ہی فاصلہ پرایک افریقن دوست کھڑے تھے۔میں نے اسے پوچھا کیا آپ کو فرانسیسی آتی ہے۔اس نے اثبات میں سرہلایا۔میں نے اسے بتایا کہ میری ترجمانی کردیں،الحمدللّٰہ ان کی معاونت سے میرا مسئلہ حل ہوگیا۔
میں نے اس کاشکریہ ادا کیا اورپوچھا کیا آپ سینیگال سے ہیں؟ کہنے لگے میرا نام ابراھیم ہے۔مجھے یہ نام قدرے مانوس لگا۔میں نے یونہی اندھیرے میں تیر چلایا اور کہا کہ تم سلمان صاحب کوجانتے ہو؟ اس نے بتایا جی میں اسے خوب جانتا ہوں۔میں نے بتایا کہ وہ میرا بھی دوست ہے۔اس پر کہنے لگا کہ آپ لندن سے آئے ہیں۔میں نے بتایا ،جی!اس پر وہ بڑے تپاک سے مجھے ملا۔میں نے اسے درخواست کی اگر ممکن ہو تو کہیں بیٹھ کرایک کپ چائے ہو جائے-وہ بخوشی راضی ہوگئے۔جس پر ہم ایک قریبی ریستوراں میں بیٹھ گئے۔میں نے کافی دیرتک اس کو جماعت کے بارےمیں بتایا جس کو اس نے بڑی فراخدلی اورانہماک سے سنا۔الحمدللّٰہ
اس کے بعد ہمارا ایک باہمی رشتہ بن گیا۔اکثر فون پربات ہونے لگی۔ایک دن ہم لوگ اس کے گھر گئے۔اس نے ہماری حسبِ توفیق خاطر مدارت کی۔جماعت کے بارے میں تفصیلی باتیں ہوئیں۔جس کے بعد اسےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب خطبہ الہامیہ بھی دی گئی۔ جس کے مطالعہ کے بعد وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عاشق بن گیا ہے۔اب جماعت کی صداقت کا برملا اظہار کرتا ہے۔
گذشتہ دنوں ایک مذھبی جلسہ میں اس نے جماعتی وفد کو بھی دعوت دی۔اور جملہ حاضرین کے سامنے جماعت احمدیہ کا خوبصورت الفاظ میں تعارف پیش کیا ۔جس کے بعد خاکسار کے ہمراہ موجود مقامی مربّی صاحب نے بھی جلسہ سے خطاب کیا اور تبلیغی فرض ادا کیا۔
سینیگال سے سپین میں دعوت ألی اللہ
ایک دن مکرّم سلمان احمد صاحب (ایک مخلص اور پُرجوش داعی اللہ) دوافریقن دوستوں کے ہمراہ مسجد احمدیہ ویلینسیامیں تشریف لائے۔یہ دونوں دوست سینیگال سے تھے۔ان کا علاقہ سینیگال اور موریطانیہ کی حدود میں واقع ہے۔ان سے ملاقات ہوئی۔ مختلف امور پر دوستانہ ماحول میں بات چیت کررہے تھے۔اسی دوران سینیگال سے مبلّغِ سلسلہ مکرم حفاظت نوید صاحب کا فون آگیا۔انہوں نے بتایا کہ سینیگال کے دومعلمین مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ مکرم حفاظت نوید صاحب اوردونوں معلّمین ان دوافریقن بھائیوں کےعلاقہ سے ہی تھے۔اور اسی علاقہ میں اس وقت موجود تھے۔ان مہمانوں کی معلّمین کے ساتھ وڈیو کال کے ذریعہ سے بات چیت کرائی گئی۔جس کا اللہ کے فضل سےان مہمانوں پربہت نیک اثرہوا۔الحمدللہ
مکرم صدر صاحب کی حیرانگی
ایک روزمقامی صدرجماعت مکرم شمریز احمد صاحب کے ساتھ ویلینسیا شہرمیں گئے۔میں نےانہیں درخواست کی ایسےعلاقہ میں چلتے ہیں جہاں کوئی سینیگالی ریستوراں ہو۔وہاں لوگ ضرور کھانا کھانے آئیں گے۔اس طرح ان سے بات چیت کا رستہ کھل جائے گا۔
میں نے چند سینیگالیوں سے معلوم کیا کہ کیا یہاں کوئی سینیگالی ریسٹورنٹ ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ویلینسیا کے ایک محلہ پاٹریایکس میں ایک سینیگالی ریسٹورنٹ ہے۔ہم لوگ ادھر چلے گئے۔ہمارا تجربہ کامیاب ہوگیا۔اللہ کے فضل سے بہت سے افریقن بھائیوں سے رابطے بن گئے۔
زبان تبلیغ کے لئے ایک اہم ہتھیار
خاکسار کو منڈنگا، فولا، وولف، فرانسیسی اور عربی زبان سےآشنائی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی آدمی سے رابطہ کرنے میں دشواری نہیں ہوتی بلکہ ہر ایک کے ساتھ ایک فوری تعلق بن جاتاہے۔جس کے نتیجہ میں بفضل تعالیٰ بہت سے روابط بن گئے۔
ہم لوگ جسے بھی ملتے۔میں اس سے سینیگالی زبان وولف،فولا،منڈنگا یا فرانسیسی زبان میں بات چیت کرتا۔تو وہ بڑے حیران ہوتے۔چونکہ خاکسار نےایک رُبع صدی سینیگال میں گزار ی ہے جس کی وجہ سے ملک بھرکے بیشترعلاقوں اور شخصیات کو جانتا ہوں-جیسے ہی ان کے حوالے سے بات چیت کی جاتی۔ مدِّمقابل فوری طورپردل کا دروازہ واکردیتا ۔اس طرح کچھ دیر بات چیت کرکے ان سے ان کا فون نمبر لے لیتےاور اپنا فون نمبر انہیں دے دیتے۔
لَاتَقْنَطُوْامِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہ
سینیگال سے ایک دوست الفا عمر جالو صاحب ہیں۔انہوں نےکافی سال قبل مربّئِ سلسلہ ملک طارق احمدصاحب کےذریعہ بیعت کی تھی۔ میں نے الفا عمر کےسے لندن سےرابطہ قائم کیا۔وہاں پہنچ کر انہیں چند مرتبہ فون کیا مگرانہوں نےفون نہیں اٹھایا۔جس سے بڑی مایوسی ہوئی۔لیکن آخری دنوں میں ان کا پیغام آیا۔بات چیت ہوئی توانہوں نے بتایا کہ ان کا فون خراب تھا۔ اس لئے رابطہ نہیں ہوسکا۔اسی روزمیں نےمکرّم مربّی کلیم احمد صاحب سےدرخواست کی کہ الفاعمرصاحب کومل کرآتے ہیں۔ خير،ان کے پاس گئے۔بہت خوش ہوئے۔میں سینیگال میں ان کے علاقہ سے خوب واقف ہوں۔ ان کے ساتھ ان کے علاقہ کی باتیں ہوئیں۔اس لئے بہت خوش ہوئے۔انہوں نےوعدہ کیا کہ اب ان شاء اللہ وہ جماعت سے رابطہ رکھیں گے۔
خاموش تبلیغ
ایک گیمبیئن دوست مکرّم فِلِی ڈانسوصاحب سپین میں بنی کارلو نامی قصبہ میں رہتے ہیں۔انکے ساتھ ٹیلیفون پررابطہ ہوا۔بہت خوش ہوئے۔انہوں نے وعدہ کیا کہ اتوار کے روز مجھے ملنے ویلینسیا آئیں گے لیکن کسی وجہ سے نہ آسکے۔میں نے مکرّم کلیم احمد صاحب مربّی سلسلہ سے درخواست کی کہ ان کے پاس چلتے ہیں۔ اس طرح ہم دونوں اس قصبہ میں پہنچ گئے۔وہاں پر پانچ احمدی دوست رہتے ہیں۔جن میں سے تین پاکستانی ہیں۔ ایک کا تعلق قادیان سےاورایک فلی ڈانسو صاحب جو گیمبیا سے ہیں۔چاراحمدی دوست ایک گھرمیں دیگرکےساتھ رہتے ہیں۔ایک دوست حبیب اللہ صاحب ایک دوسرے مکان میں دیگر پاکستانی غیر از جماعت احباب کے ساتھ مقیم ہیں۔سب سے ملاقات ہوئی ۔ ہمارے کھانے کا انتظام مکرم حبیب اللہ صاحب نے کیا ہوا تھا۔لیکن معلوم یہ ہورہاتھا کہ کھانے کی تیاری اور خدمت میں غیرازجماعت دوست ہی کام کررہے تھے۔
ہم نے نمازِظہروعصرادا کرنی تھی۔مکرم حبیب اللہ صاحب نےاپنےمکان کےڈرائنگ روم میں نماز باجماعت کا اہتمام کیا۔سب غیرازجماعت دوست ادھر ہی تھے۔کسی نے کسی قسم کا اعتراض نہ کیا بلکہ وہ ہمیں نمازپڑھتا دیکھتے رہے۔
بلکہ ایک دوست نےغیرازجماعت دوستوں کو یہ بھی بتایا کہ یہ مہمان ہمارے مربّئِ سلسلہ ہیں۔جنہیں ایک لمبا عرصہ افریقہ میں خدمتِ دین کی توفیق ملی ہے۔اس سے ان دوستوں کی بلند حوصلگی اور باہمی حسنِ سلوک کا علم ہوتا ہے۔اس طرح نمازکی ادائیگی کےساتھ ایک قسم کی خاموش اور عملی تبلیغ بھی ہوگئی۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔
کیا آپ اسے اتفاق ہی کہیں گے
ایک روز خاکسار مکرّم مربّی کلیم احمد صاحب کےہمراہ ایک قریبی مارکیٹ میں بغرضِ تبلیغ گیا۔سپین میں یہ طریق ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی گاؤں میں مارکیٹ لگتی ہے۔جس میں ہر کوئی بنیادی ضروریات زندگی خرید سکتا ہے۔اکثرلوگ ٹیبل لگا کراپنا سامان بیچتے ہیں۔افریقن لوگ توزمین پرکپڑا ڈال کراسی پر اپنا سازوسامان سجا لیتے ہیں۔جب ہم مارکیٹ پہنچے۔ میں بیماری کی وجہ سےجلد ہی تھک گیا۔ ادھر ایک افریقن دوست کےسٹال کے قریب سے گزرے۔اس کے پاس ایک کرسی پڑی تھی۔ میں نے اسے درخواست کی کہ اگر اجازت دیں تومیں تھوڑی دیر کے لئے آپ کی کرسی پر سستا لوں۔اس دوست نے بخوشی مجھے کرسی پیش کردی۔میں اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔اس نےبتایا کہ اس کا نام ابراھیم کاہ ہے اور وہ سینیگال سے ہے۔ میں نے اس کے ساتھ ان کی زبان میں بات چیت کرنی شروع کردی جس پر وہ بہت حیران ہوا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے سینیگال میں ایک لمبا عرصہ گزاراہ ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔میں نے ان سے ان کا فون نمبرلےلیا اوراپنا نمبر دے دیا۔
اسکےبعد میں واپس لندن آگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک روزمکرّم کلیم احمد صاحب اس مارکیٹ میں گئے۔ انکی ملاقات ابراھیم صاحب سے ہوگئی، علیک سلیک ہوئی۔ اس دوست نے انہیں پوچھا کہ وہ بابا جی کدھر ہیں۔کلیم صاحب نے بتایا وہ واپس لندن چلے گئے ہیں۔
کچھ عرصہ کےبعد میں واپس سپین گیا۔مجلس انصاراللہ ویلینسیا نےایک پروگرام ترتیب دیا۔میں نےدرخواست کی کہ ہمیں افریقن را بطوں کو بھی دعوت دینی چاہیے۔میں نے ابراھیم صاحب کو فون کیا اورانہیں ہمارے پروگرام میں شمولیت کی درخواست کی۔اس پر کہنے لگے معذرت خواہ ہوں کیونکہ آج ہماری افریقن کمیونٹی کا بھی اجلاس ہےاورانہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ممکن ہوتومیں ان کی میٹنگ میں شرکت کروں۔میں تو ایک ایک آدمی کے لیے روزانہ سفر کرتا تھا۔یہ تو اللہ تعالیٰ راستہ کھول رہاتھا۔میں نے انہیں بتایا میں انشاء اللہ حاضرہوجاؤں گا۔انصاراللہ کے پروگرام سے فارغ ہو کرخاکسارمکرّم کلیم صاحب اور مکرّم سلمان طاہر صاحب کے ہمراہ ان کے ہاں پہنچ گیا۔وہاں پر پچاس سے زائد لوگ ہمارے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ہماری خوب آؤبھگت کی اورمجھے تقریر کی دعوت دی۔سپین میں اتنی بڑی تعداد میں اجتماعی میٹنگ کا یہ پہلا موقع تھا۔جس میں سب افریقن دوست تھے۔یہ سب کچھ معجزانہ ہوا۔اسکے بعد یہ رشتہ مستحکم ہوتا چلا گیا۔کئی دفعہ ان کےمرکز میں جانے کا اتفاق ہوا۔انہیں بھی مسجد میں آنے کی دعوت دی گئی۔اسی دوران جلسہ سالانہ جرمنی آگیا۔میں نے کچھ دوستوں کوحضورِانورکی اجازت سے جلسہ جرمنی میں شرکت کی دعوت دی۔وہ راضی ہوگئے۔جلسہ کے روحانی ماحول نے ان کی سعید فطرت پرانقلابی اثرکیا اوروہ جماعت کے بہت قریب آگئے۔
کچھ عرصہ کے بعد جلسہ سالانہ سپین آگیا۔انہیں جلسہ میں شرکت کی دعوت دی گئی۔اپنے چند دوستوں کے ہمراہ جلسہ میں شریک ہوئے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی گرہ کھول دی اور انہوں نے شرح صدر کے ساتھ بیعت کرلی۔الحمد للہ اب ایک فعال داعی الی اللہ بن چکے ہیں۔
(باقی آئندہ)
(منو راحمد خورشید ۔واقفِ زندگی)