اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ
(سورۃ الفاتحہ:6)
ترجمہ:ہمیں سیدھے راستہ پر چلا۔
یہ قرآنِ مجید کی ہدایت کے لئے وسیع دعا ہے۔ یہ مبارک آیت سورۃ فاتحہ کی ہے جس کے بارے میں ہمارے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
اس کی سات آیات بار بار پڑھی جائینگی ۔یہی وہ قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (پوری دنیا کی ہدایت کے لئے) اس دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
انسانیت میں جو لامحدود کمالات ہیں۔ ہر انسان کو، ہر مومن کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی وسعت ہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔
پھر ہماری اس دعا کرنے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح اس دعا کو وسیع کرنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا کے بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں۔
(1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے۔ (پوری دنیا کا جو انسان ہے اس کو اپنی دعا میں، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں شریک رکھے) ۔۔۔۔
2) تمام مسلمانوں کو (اپنی دعا میں شریک رکھو۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صراط مستقیم پہ چلائے۔) ۔۔۔۔ تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں۔ پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خداتعالیٰ کا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی سورۃ میں اس نے اپنا نام ربّ العالمین رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں۔ پھر اپنا نام رحمان رکھاہے اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے۔ کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ رکھا ہے اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے۔ کیونکہ یَوْمُ الدِّیْن وہ دن ہے جس میں خداتعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی۔ سو اس تفصیل کے لحاظ سے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا ہے۔ پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام بنی نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو‘‘۔
(الحکم جلد 2 شمارہ 33 مورخہ 29؍ اکتوبر1898ء صفحہ 4 کالم 1-2)
پس ساری باتیں جو آپ نے سنیں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم دنیا کی ہدایت کے لئے دعا کریں۔ مسلمانوں کی ہدایت کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انسانیت کو بھی تباہ ہونے سے بچائے ۔۔۔۔ پس خاص کوشش سے اپنے اندر بھی تبدیلیاں پید کرتے ہوئے اور دنیا کی تباہی کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر بہت دعائیں کريں۔ اﷲ ہميں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین
(خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2009ء)
(مرسلہ: مریم رحمٰن)