• 5 مئی, 2024

زیتون کا درخت ’’شجرہ مبارکہ‘‘

زیتون کا پھل اپنی غذائی اور ادویاتی اہمیت کے پیش نظر ایک عطیہ خداوندی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ اس پھل کا ذکر موجود ہے۔ سورۃ النور میں خدا تعالیٰ نے زیتون کے درخت کو شجرہ مبارکہ کہا ہے۔ اور پھر فرمایا کھجور اورمزروعات جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور زیتون اور انار جن کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور ملتی بھی ہیں تم ان کے پھلوں کو کھائو جب وہ پک جائیں مگر ضائع نہ کرو۔ایک جگہ تو خدا تعالیٰ نے زیتون کی قسم بھی کھائی ہے۔سات مرتبہ قرآن کریم میں اس مبارک درخت کا مختلف پیرائے میں ذکر فرمایا گیا ہے۔

احادیث مبارکہ میں بھی اس شفا بخش انمول مبارک درخت کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ ترمذی میں لکھا ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ زیتون کے تیل کو کھاؤ اور اس سے جسم کی مالش کرو یہ ایک شفا بخش درخت ہے۔ ابن الجوزی سے روایت ہے کہ زیتون کا تیل کھائو اور بدن پر مالش کرو۔ کیونکہ یہ بواسیر کو زائل کرنے میں مد د دیتا ہے۔ ابو نعیم سے روایت ہے کہ زیتون کا تیل کھائو اور اسے لگائو کیونکہ اس میں ستر بیماریوں سے شفا ہے۔جن میں ایک کوڑھ بھی ہے۔ گزشتہ مذہبی کتب مثلاً مقدس بائبل، توریت اور وید میں بھی نہایت احسن رنگ میں اس بیش قیمت درخت کا ذکر موجود ہے۔

تاریخ و تعارف

ماہرین کے مطابق زیتون کا درخت تاریخ کا قدیم ترین پودا ہے۔ طوفان نوح کے اختتام پر پانی اُترنے کے بعد زمین پر جو سب سے پہلی چیز نمایاں ہوئی وہ زیتون کا درخت تھا۔ اس کے علاوہ مصر قدیم میں بھی زیتون کا تیل کھانے ، اشیاء کو محفوظ کرنے ، جسم پر لگانے اور علاج کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے مصری مقابر سے برآمد ہونے والی اشیاء میں زیتون کے تیل سے بھرے ہوئے برتن بھی شامل تھے۔ توریت میں بھی زیتون کا تیل استعمال ہونے کا ذکر ملتا ہے۔

زیتون کا درخت تقریباً تین میٹر کے قریب اونچا ہوتا ہے۔ چمکدار پتوں کے علاوہ اس میں بیر کی شکل کا ایک پھل لگتا ہے جس کا رنگ اودا اور جامنی، ذائقہ بظاہر کسیلا ہوتا ہے۔ زیتون کے پکے ہوئے پھل سے تیل حاصل کیا جاتا ہے۔ زیتون کا آبائی گھر بحیرہ روم کا خطہ ہے۔ بحیرہ روم کے ممالک مثلاً اٹلی، یونان، سپین، پرتگال، ترکی، اردن اور تیونس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ، ارجنٹائن میکسیکو اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی تجارتی پیمانے پر زیتون کی کاشت کر رہے ہیں۔ زیتون کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام اور تین ہزار سے زیادہ مروجہ نام ریکارڈ پر ہیں جن میں زیادہ تر اقسام کا تعلق سپین اور اٹلی سے ہے۔

افعال و استعمال

زیتون کا تیل امراض قلب کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں موجود کافی مقدار میں غیر سیر شدہ چکنائی Unsaturated Fatty) (Acid اس کی غذائی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کیونکہ اس کے مفید اثرات خاص کر دل کی بیماریوں پٹھوں کی کمزوری اور نیند نہ آنے کے کنٹرول کے علاوہ دماغی صلاحیت پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ دل کے امراض کے لئے تو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے ایک ٹانک مہیا کر دیا ہے۔ کیونکہ زیتون کے تیل میں موجود Alpha Linolnic Acid خون میں موجود چکنائی کو جمنے نہیں دیتا جس سے دل کے عوارض کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ زیتون کے تیل کا مناسب حد تک مسلسل استعمال خون میں مفید چکنائی (HDL) کی سطح کو بڑھا دیتا ہے جس سے غیر موزوں چکنائی (LDL) کا لیول کم ہو کر بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زیتون کا تیل مقوی معدہ اور سینے کی بیماریوں سے تحفظ مہیا کرتا ہے۔ پیٹ کے فعل کو اعتدال پر لاتا ہے۔ پتہ کی سوزش کم کر کے پتھری نکالتا ہے۔ پٹھوں اور جوڑوں کے دردوں کے لئے مفید ثابت ہوا ہے۔ قبض اور بواسیر کے لئے مفید پایا گیا ہے۔

زیتون کا تیل بطور (Cooking Oil) یعنی کھانا پکانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ بہت زیادہ گرم کرنے سے یہ اپنی افادیت کھو دے گا اور عام بازاری تیل کی طرح ہو جائے گا۔ زیتون کے پکے ہوئے پھل کو براہ راست مشین کے کولہو میں ڈال کر تیل کی جو پہلی کھیپ وصول کی جاتی ہے اسے سب سے عمدہ تیل قرار دیا جاتا ہے جسے Extra Virgin oil کہا جاتا ہے اس کا رنگ سنہرا اور اس میں ہلکی سی خوشبو ہوتی ہے۔ یہ دیر تک خراب نہیں ہوتا۔ اس کے بعد حاصل پھوگ پر گرم پانی ڈال کر دوبارہ کولہو میں ڈالا جاتا ہے اور بعد میں پانی کو تیل سے الگ کر لیا جاتا ہے اس طرح حاصل شدہ دوسری اور تیسری کھیپ کے تیل کو Table Oil کہتے ہیں اس کا رنگ سبزی مائل ہوتا ہے اور پہلی مرتبہ نکلے ہوئے تیل سے گاڑھا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ تیل ابھی ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوا۔ زیادہ تر اٹلی فرانس اور سپین سے درآمد کیا جا رہا ہے۔ صبح ناشتے میں روٹی تر کر کے (چوپڑ کر) کھا سکتے ہیں بعض سالن میں ڈال کر پسند کرتے ہیں۔ قبض او ربواسیر کے مریض کونیم گرم دودھ میں دو چمچ تیل ملا کر استعمال کرنے سے فائد ہ ہوتا ہے۔ سرد مزاج افراد کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ زیتون کے تیل کا مساج (مالش) مردہ رگوں ( پٹھوں) میں نئی زندگی پیدا کر دیتا ہے۔ زیتون کے پھل کا اچار بھی شیشے کے جار میں محفوظ مل جاتا ہے۔

خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے وطن عزیز کواس بیش قیمت عطیہ سے مالا مال کر رکھا ہے۔ پاکستان کے پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقوں بشمول خیبر پختون خواہ، فاٹا، بلوچستان اور پنجاب میں وادی سون، پوٹھوہار اضلاع میں زیتون کی کاشت کو تجارتی پیمانے پر رواج دینے کے لئے روشن امکانات ہیں۔

جنگلی زیتون کے درخت کو اردو میں زیتون (Zytoon) پشتو میں شوان (Showan) سرائیکی سندھی اور پنجابی میں کائو (Kow) کہتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی لاکھ سے زائد جنگلی زیتون کے درخت پاکستان کے مختلف علاقہ جات میں موجود ہیں یعنی مندرجہ بالا علاقہ جات میں کائو (Kow) کے جتنے بھی جنگلات ہیں وہ سب زیتون کے درخت ہیں گو مقامی لوگ اس بات سے لا علم ہیں ۔ اگر جنگی بنیادوں پر کام کر کے ان درختوں کی گرافٹنگ کر کے انہیں پیداواری پودوں (Productive Oil Plants) میں تبدیل کر دیا جائے تو سالانہ ایک بلین ڈالر کی آمدن پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح موزوں علاقہ جات میں غیر کاشت شدہ رقبہ جات کو قابل کاشت بنا کر زیتون کی Plantation کو دی جائے تو کئی ملین ڈالر سالانہ آمد پیدا کی جا سکتی ہے او رملکی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں ۔

1950ء میں حکومت نے گرافٹ شدہ زیتون کے چند پودے درآمد کر کے ملک کے مختلف علاقہ جات مثلاً کشمیر، بلوچستان، پشاور، سوات، راولپنڈی خوشاب میں لگائے۔ خاکسار کو وادی سون نوشہرہ کے تجرباتی فارم اور سکیسر کے ہیلی پیڈ پر تجرباتی طور پر لگائے گئے زیتون کی مختلف اقسام کے درخت دیکھنے کا موقع ملا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیابی سے پھل دے رہے ہیں جو اس بات کایقینی ثبوت ہے کہ اگر حکومتی سطح پر وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کر کے محنت کی جائے تو اس عطیہ خداوندی سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے گو پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (PARC) نے گورنمنٹ آف اٹلی کے تعاون سے محدود پیمانے پر کئی ایک منصوبہ جات شروع کر رکھے ہیں درحقیقت زیتون کی کاشت کو فروغ دینے کیلئے ایک مستقل ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

(روزنامہ الفضل 19نومبر 2015ء)

(محمد اکرم خالد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2021