• 3 مئی, 2024

غزل (کلام چوہدری محمد علی مضطر)

غزل
(کلام چوہدری محمد علی مضطر)

اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے
ڈھل گئے آفتاب چہروں کے

ہم سے پوچھو عذاب چہروں کے
ہم بھی تھے ہمرکاب چہروں کے

ہم ہیں قاری صحیفۂ رخ کے
ہم ہیں اہلِ کتاب چہروں کے

ہم نے دیکھے ہیں جاگتی آنکھوں
خواب در خواب خواب چہروں کے

ذہن کے پار تک ہیں پھیلے ہوئے
سلسلے بے حساب چہروں کے

ہو گئے لقمۂ نہنگِ نظر
کیسے کیسے گلاب چہروں کے

شیخ پکڑے گئے سرِ بازار
منتظر تھے جناب چہروں کے

رنگ لا کر رہیں گے بالآخر
یہ سوال و جواب چہروں کے

بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی
دیکھ کر اضطراب چہروں کے

ان کو آزردہ دیکھ کر مضطرؔ!
رنگ بدلے شتاب چہروں کے

پچھلا پڑھیں

اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ