• 14 جولائی, 2025

اقبال ہائیڈل برگ میں

اگست2020 میں جرمنی کے مہنگے ترین، رومان پرور اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی اتالیق ’’ایما‘‘ کے شہر ہائیڈل برگ جانے کا اتفاق ہوا اور دوپہر تک یادگاروں پر گھومتے ہوئے تصور چشم میں مفکر پاکستان کو دیکھتا رہا، اور سوچتا رہا۔ میرے میزبان پاکستان نژاد ممبر سٹی پارلیمنٹ ہائیڈل برگ تھے، ان کی پاکستان جرمن مابین کلچرل تعاون کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اقبال کی یادگاروں کے محفوظ کرنے کے حوالے سے خصوصی کاوشیں کر رہے ہیں۔ مختلف عالمی نشریاتی ادارے بھی اقبال اور ہائیڈل برگ تعلق بارے بہت کچھ لکھ چکے ہیں لیکن اس کے باجود مزید تشنگی باقی ہے اور نئی تحقیق کی ضرورت ہے۔

شاعر مشرق کی ’’مغرب‘‘ میں اپنی اتالیق سے عشق کی ابتداء دریائے نیکر کے سرسبز و شاداب کنارے کے سحر انگیز اور رومان پرور ماحول میں ہوئی تھی۔ نیلی آنکھوں اور کالے گیسوؤں والی 28 سالہ جرمن دوشیزہ ایما کی محبت گو پروان نہ چڑھ سکی تھی لیکن یہ نامکمل تعلق اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گیا تھا ان میں اقبال کے خطوط خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن میں ہمیں وہ اقبال ملتا ہے جوپاکستان میں متعارف کرائے گئے اقبال سے بالکل ہی مختلف ہے، ان خطوط میں اقبال نے اپنی ذہنی کیفیت کا کھل کر اظہار خیال کیا تھا اور ایما کے لئے اپنے پرخلوص جذبات بیان کئے تھے، بدقسمتی سے دونوں کے بھائیوں نے ’’ظالم سماج‘‘ کا کردار ادا کیا تھا جن کی وجہ سے ’’مشرق و مغرب‘‘ کی محبت پروان نہیں چڑھ سکی تھی۔ مختلف تحریروں میں لکھے ہوئے حالات و واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خود ایما بھی اقبال سے نہ صرف متاثر تھیں بلکہ ان سے شادی کی خواہاں تھیں لیکن ایما کے بڑے بھائی نے ان کوہندوستان جانے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ وہ بالغ اور باشعور سلجھی خاتون تھیں اور اپنے فیصلہ میں آزاد تھیں لیکن پھر بھی خاندان کے فیصلے کو ترجیح دی۔ عظیم مفکر اور شاعر محمد اقبال1907 میں ہائیڈل برگ میں جس مکان میں قیام پذیر تھے وہ دریائے نیکر کے کنارے سڑک کی دوسری طرف واقع ہے۔ اقبال اسی گھر سے نکل کر سڑک کی دوسری طرف دریائے نیکر کے کنارے بیٹھا کرتے تھے اور وہیں پر ’’نیلی آنکھوں اور سیاہ بالوں والی 28 سالہ جرمن دوشیزہ ایما‘‘ سے ملاقات ہوئی تھی۔ دریا کا یہ کنارا اس قدر خوبصورت، رومان پرور اور سحر انگیز ہے کہ گہرے سیاہ بادلوں کے موسم میں ہر جرمن دوشیزہ وہاں جنت کی حور کی مانند ہی لگتی ہے، 1907 میں اقبال اس وقت تیس برس کے لگ بھگ تھے اور نہ صرف شادی شدہ بلکہ دو بچوں کے باپ بھی تھے۔ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی اس رہائش گاہ کوشہر کی پارلیمنٹ1969 میں ایک یادگار ورثہ قرار دے چکی ہے، مفکر پاکستان نے انہی رومان پرور کناروں پر بیٹھ کر اک نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے ) لکھی تھی جس کا جرمن زبان میں ترجمعہ کرکے اس کویادگاری کتبے پر لکھ کر وہیں نصب کیا گیا ہے، نظم کے اشعار کچھ یوں ہیں کہ

خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خاموش ہر شجر کی
وادی کی نوا خاموش،
کہسار کی سبز پوش خاموش
فطرت بےہوش ہو گئی ہے
آغوش میں شب کے سوگئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
اے دل، تو بھی خاموش ہوجا
آغوش میں غم کو لے کے سوجا

اس کے قریب ہی کی معروف شہر کو اقبال کے نام سے منسوب کرکے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، یہ اقبال اوفر کے نام سے مشہور ہے۔ دریائے نیکر کے کنارے سے جنم لینے والے مشرق و مغرب کی محبت اقبال کے خطوط آج جرمن و پاک ادب و کلچر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، اقبال کے ان خطوط کی تعداد 27 بتائی جاتی ہے، جو 1907-1914 اور پھر وفات سے قبل 1931-1933 کے عرصہ میں لکھے تھے، ان خطوط میں اقبال نے ہائیڈل برگ سے اپنی والہانہ چاہت کا اظہار کیا تھا۔ ایک خط میں اقبال ایما کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اپنے اس دوست کو مت بھولئے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو کبھی آپ کو فراموش نہیں کرسکتا۔ ۔ ۔ ہائیڈل برگ میں میراقیام ایک خواب لگتا ہے، میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں، کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں‘‘۔ ایک اور خط میں اقبال ایما کو لکھتے ہیں ’’مجھے امید ہے کہ آپ کو وہ پرمسرت دن یاد ہونگے جب ہم ایک دوسرے کے بےحد قریب تھے، روحانی طور پر‘‘۔ 1909 میں لاہور سے ایک خط لکھا جس میں اپنی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’میرا جسم یہاں ہے لیکن میرے خیالات جرمنی میں ہیں‘‘۔ اقبال کے ان خطوط سے ہمیں اقبال کی بالکل الگ تھلگ شخصیت ملتی ہے جس کے بارے یہ سوچنا کہ وہ کبھی مفکر پاکستان حکیم الامت بھی بن سکیں گے ناقابل یقین لگتا ہے۔ انہی خطوط میں اقبال نے اپنی پہلی شادی کےبارے بھی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور انتقاما ملک چھوڑنے یا شراب نوشی کے ذریعے خودکشی کی دھمکی آمیز بات بھی لکھی تھی۔ بی بی سی نے ایک تفصیلی رپورٹ میں ہائیڈل برگ اور اقبال کے ان خطوط پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اقبال کے یہ محبت نامے ایک تاریخی ادبی ورثہ ہیں۔ مختلف تحریروں کے مطابق ایما یہ خطوط پاکستان کے آرکائیوز کے سپرد کرنا چاہتی تھیں جو ممکن نہ ہوسکا اور بالاخر 1970 کے اوائل میں اپنی موت سے پہلے یہ سب خطوط پاکستان جرمن فورم کے حوالے کردیئے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ اقبال نے اپنی وفات سے پہلے کے آخری سالوں میں جہاں ایما کو خطوط لکھ کر پرانی محبت کو یاد کیا تھا وہیں گول میز کانفرنس لندن کے موقع پر جرمنی جاکر اس سے ملاقات کی کوشش کی بھی کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اقبال کا انتخاب ہائیڈل برگ جرمنی کا علم و عرفان کا شہر ہے جہاں جرمنی کی سب سے پہلی اور قدیم یونیورسٹی موجود ہے جو 1386 میں قائم ہوئی تھی، اس شہر کا ایک اور عالمی اعزاز یہ ہے کہ اس کے 8 باشندوں کو امن کا عالمی نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔ اقبال نے یہاں قیام کے دوران فلسفہ اور اپنی فکر و سوچ کے علاوہ شاعری سے جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا، ’’اقبال اور ایما‘‘ کی محبت کی ادھوری داستان اب جرمن کلچر کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔

(مرسلہ: منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ