حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات
15؍ اگست 2019ء
31 جولائی 2019ء کو خاکسار دوپہر 12 بجے لندن پہنچا اور اگلے دن یکم اگست 2019ء کو جب خاکسار دفتر ملاقات اسلام آباد میں حضور انور سے ملاقات کا وقت لینے کے لئے حاضر ہوا تو حضرت صاحب کی مصروفیت کی وجہ سے قریب ترین 15 اگست 2019ء کو شام 5 بجے کا وقت ملا۔ اُسی دن دوپہر کو مکرم و محترم ظہیر احمد خان صاحب استاذ جامعہ احمدیہ یوکے کی طرف سے جلسہ سالانہ یوکے میں شریک ہونے والے واقفین زندگی مہمانان کی پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بالخصوص حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے جو کپڑے خاکسار نے تیار کروائے تھے ان کو گاڑی میں ساتھ رکھ کر اور ان کے علاوہ کچھ سامان جس میں 2 تحائف، ایک شہد کی شیشی، کچھ دوستوں کے خطوط، مکرم محمد افضال صاحب کی تصویر جو انہوں نے مکرم و محترم مولانا میر محمود احمد ناصر صاحب سے جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے موقع پر سند لیتے ہوئے بنوائی تھی اوراس پر حضور انور کے دستخط کروانے کے لئے خاکسار کو دی تھی اور چند انگوٹھیاں جو مکرم محمد عدیل فیصل صاحب ، مکرم فرید احمد بٹ صاحب ، مکرم سیف الرحمٰن صاحب ، عزیزم سمیر احمد صاحب نے خاکسار کو متبرک کروانے کے لئے دی تھیں، شامل تھیں۔ یہ سب سامان لے کر خاکسار اپنے خالو جان مکرم نوید احمد صاحب اور دو اور مہمانان کے ساتھ 15 اگست 2019ء کو 12 بجے گھر سے نکل کر ایک بجے کے قریب اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں پر دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔
شام 5 بجے دعوت سے فارغ ہو کر خاکسار نے محترم ظہیر خان صاحب کے گھر میں ہی ہاتھ منہ دھو کر وہ کپڑے زیبِ تن کیے جو خاکسار حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے گھر سے ساتھ لے کے آیا تھا اور مکمل تیاری کر کے خاکسار ان کے گھر سے اسلام آبادکی طرف روانہ ہوا جو وہاں سے صرف 10 منٹ کی مسافت پر تھا۔
اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ان 10 منٹ میں ہزاروں خیالات خاکسار کے دماغ میں آئے اور گئے۔ عجیب سے ڈر اور خوشی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ خاکسار اسلام آباد پہنچا۔ اس وقت جو سب سے زیادہ خیال اور ڈر خاکسار پر غالب تھا وہ خاکسار کی بازو پر لگی ہوئی چوٹ تھی کہ اگر حضور نے میرا ہاتھ دیکھ لیا اور میرے سے اس کے بارے میں پوچھ لیا تو میں کیا جواب دوں گا، حضور کو برا لگے گا، حضور سے ڈانٹ پڑے گی، یا حضور ہمیشہ کے لئے میرے پہ موٹر سائیکل چلانے پر پابندی لگا دیں گے، مجھے بازو دکھانی چاہیے یا چھپا لینی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
اسلام آباد پہنچ کر خاکسار اس مارکی میں پہنچا جہاں خاکسار سے پہلے بہت سے پروانے اپنی شمع کو دیکھنے کے لئے بے تاب بیٹھے تھے۔ خاکسار نے بھی وہاں جا کر اپنا اندراج کروایا اور وہاں پہنچ کر علم ہوا کے خاکسار کا 32واں نمبر ہے۔ چونکہ پہلے فیملیز کی ملاقات ہوتی ہے اور اس کے بعد حضور فرداً فرداً ملاقاتیں فرماتے ہیں۔ اس لئے فیملیز کے بعد ہی خاکسار کی باری تھی۔ خاکسار وہاں اپنے کوائف کا اندراج کروا کر انتظار میں بیٹھ گیا اور مسلسل دعاؤں میں مشغول رہا۔
بہر حال جیسے تیسے کر کے خاکسار کا نام پکارا گیا اور خاکسار جلدی سے آگے بڑھا۔ سب سے پہلے انتظامیہ نے دفتر سے باہر Hand Sanitizer سے ہاتھ صاف کروائے اس کے بعد پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر کے باہر کرسیوں پر بٹھا دیا۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اگلے مرحلہ میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر کے اندرلگائی گئی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا۔ پھر تھوڑا اور انتظار کرنے کے بعد حضور انور کے دفتر کے بالکل باہر لگائی گئی کرسیوں پر بٹھا دیا گیا جس کا مطلب تھاکے اب اگلا نمبر ملاقات کا میرا تھا۔
خاکسار عجیب سی بے چینی کی حالت میں بیٹھا تھا کہ اچانک خاکسار کا نام پکارا گیا اور خاکسار جلدی سے اٹھ کر اس کمرہ کے دروازے میں داخل ہوا جہاں بالکل سامنے اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب خلیفہ رونق افروز تھا۔ کمرہ میں داخل ہوتے ہی پیارے آقا اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے اور مصافحہ فرما کے بیٹھنے کا حکم دیا۔ خاکسار حضور انور کے سامنے لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ حضور انور کا چہرہ بے انتہا پُرنور اور پر کشش تھا جس کا ٹی-وی پر دیکھ کر گمان بھی بالکل نہیں کیا جا سکتا اور یہ لذت صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے پیارے خلیفہ کا روبرو دیدار کرنے کا شرف حاصل ہوا ہو۔ پیارے حضور سے ملاقات سے پہلے خاکسار نے مختلف لوگوں سے سن رکھا تھا کہ حضور انور کے چہرۂ پر نور کی طرف مسلسل دیکھنا بہت مشکل ہے۔ لیکن میرا خیال اس کے برعکس ہے کہ حضور کے پُر نور اور خوبصورت چہرہ سے نظر ہٹانا بہت مشکل ہے۔
بہر حال سب سے پہلے حضور انور نے تعارف لیا کہ کون ہو، کہاں سے ہو، کیا کرتے ہو، دادا اور والد صاحب کا تعارف ہوا۔ اس کے بعد ہونے والے سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں۔
پیارے حضور: شادی ہو گئی ہے؟
خاکسار: پیارے حضور آپ نے 5 تاریخ کو نکاح پڑھایا ہے۔
پیارے حضور: اچھا تو نکاح ہو گیا ہے؟
خاکسار: جی پیارے حضور۔
پیارے حضور: تو ٹھیک ہے، جا کر شادی کرو۔
خاکسار: جی پیارے حضور۔
پیارے حضور: اور پھر کیا فرماتے ہو؟
خاکسار :پیارے حضور دعا کی درخواست ہے۔
پیارے حضور: کس کے لئے؟
خاکسار: حضور والدہ کے لئے۔
پیارے حضور: کیا ہو اہے والدہ کو؟
خاکسار :حضور ان کو پٹھوں اور مہروں کی تکلیف ہے۔
پیارے حضور: چلو اللہ فضل فرمائے گا آ جاؤ تصویر بنوا لو۔
خاکسار جلدی سے کرسی سے اٹھا اور حضور کے پاس گیا تو یاد آیا کہ کچھ دوستوں نے چند انگوٹھیاں متبرک کروانے کے لئے دی تھیں۔ تو خاکسار نے جلدی سے وہ انگوٹھیاں نکالیں اور اپنے ہاتھ سے بھی انگوٹھی نکال کر حضور انور کی ہتھیلی میں رکھیں اور حضور نے وہ لے کر مسلنا شروع کیں۔ اسی لمحہ حضور انور کی نظر خاکسار کے ہاتھ پر پڑ گئی اور حضور نے دریافت فرمالیا کہ:
پیارے حضور: یہ کیا ہوا ہے؟
خاکسار: حضور چوٹ لگی تھی۔
پیارے حضور: کیسے؟
خاکسار: حضور بائک سے گرا تھا۔
پیارے حضور: کس کی اجازت سے چلا رہے تھے؟
خاکسار :حضور کسی کی بھی نہیں۔
پیارے حضور: کیوں چلا رہے تھے؟
خاکسار: حضور غلطی ہو گئی۔
پیارے حضور: (حضور مسکرائے اور انگوٹھیاں واپس کرتے ہوئے فرمایا) اچھا چلو تصویر بنوا لو۔
حضور انور نے خاکسارکا ہاتھ تھام کر تصویر بنوائی (جب خاکسار نے بعد میں تصویر دیکھی تو حضور انور نے شفقت اور دعائیں کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے خاکسار سے مصافحہ کیا اور دوسرا ہاتھ خاکسار کی اس بازو پر رکھا ہوا تھا جس پر خاکسار کو چوٹ لگی تھی)۔
پیارے حضور: چلو ’’اللہ حافظ‘‘
اسی لمحہ خاکسار کو پریشانی لاحق ہوئی حضور نے خود سے ہی اللہ حافظ کہہ دیا ہے اور میرے پاس تو اتنا سامان ہے جو میں نے ابھی حضور کی خدمت میں پیش کرنا تھا۔ لیکن حضور کے اللہ حافظ کہنے کے بعد مزید کوئی بات کرنی خاکسار کو بے ادبی معلوم ہوئی اور اسی پریشانی کے عالم میں لفافے کو اٹھا کر خاکسار باہر آنے لگا تو حضور انور نے خاکسار کے ہاتھ میں وہ لفافہ دیکھ لیا اور شاید میری پریشانی کو پیارے آقا نے میرے چہرے سے بھانپ بھی لیا اور فرمایا:
پیارے حضور: اس میں کیا ہے۔
خاکسار: حضور اس میں آپ کے لئے تحائف ہیں۔
پیارے حضور: (حضور نے تبسم فرمایا اور بطور مزاح فرمایا) میں نے اتنے تحائف کیا کرنے ہیں؟
(اسی لمحے خاکسار نے اس لفافے میں سے ایک تحفہ نکالا جس میں ایک عطر تھا اور مکرم کامران لطیف صاحب مربی سلسلہ نے اپنے پیارے آقا کی خدمت میں پیش کرنے کی غرض سے دیا تھا وہ خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں پیش کر کے عرض کی) حضور یہ خاکسار کے ایک دوست نے آپ کے لئے پاکستان سے بھیجا ہے۔
خاکسار: (حضور نے میرے ہاتھ سے وہ تحفہ لے کر مجھے واپس بطور تحفہ کے دے دیا۔ خاکسار نے اسے واپس لفافے میں رکھا اور دوسرا تحفہ نکالا اور حضور انور کی خدمت میں پیش کیا اور کہا) حضور یہ میں آپ کے لئے لایا تھا۔
پیارے حضور: اچھا اسے ادھر رکھ دو۔ اور؟
خاکسار: (میں نے شہد کی شیشی نکالی اور عرض کی) حضور یہ متبرک کروانی تھی۔
پیارے حضور: اچھا اسے (لفافے کو) نیچے رکھو اور جلدی سے کھولو اسے۔ (خاکسار نے اسے جلدی میں کھولنے کی کوشش کی تو حضور نے دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا ) آرام سے کھولو گرا نہ دینا۔ (خاکسار نے اسے کھولا تو حضور نے اپنی انگلی اس میں لگا کر متبرک فرمایا اور فرمایا اور؟
خاکسار: حضور کچھ خطوط ہیں۔
پیارے حضور: اچھا وہ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں دے دو۔ اور؟
خاکسار: (خاکسار نے مکرم محمد افضال صاحب کی تصویر نکالی اور حضور انور کی خدمت میں پیش کی اور عرض کی) حضور یہ تصویر خاکسار کے دوست نے بھیجی ہے حضور کے دستخط کروانے کے لیے۔
پیارے حضور: تو جن کی تصویر ہےان سے کروائیں دستخط۔
خاکسار :حضور ان سے تو سند لے لی ہے تو آپ دستخط فرما دیں۔
پیارے حضور: (حضور مسکرائے اور فرمایا) تو میر صاحب سے کروائیں دستخط۔ (اور حضور انور نے تصویر لے کر اس پر دستخط فرما دیئے اور فرمایا) اور؟
خاکسار: جزاکم اللّٰہ حضور۔
پیارے حضور: ٹھیک ہے اللہ حافظ۔
خاکسار: اللہ حافظ پیارے حضور۔
خاکسار اسی خوشی کے احساس میں دفتر سے باہر آیا اور جب سب نے دریافت کیا کہ کیسی رہی ملاقات تو مجھے خیال آیا کہ میں اس وقت ایسا محو اور گم سم تھا کہ مجھے کچھ یاد ہی نہیں رہا کہ ملاقات میں کیا کیا باتیں ہوئیں۔ ایک عجیب ہیبت دل پر طاری تھی اور باہر آ کر مجھے خود پہ قابو پانے میں چند لمحات درکار تھے اور پھر آہستہ آہستہ مجھے سب یاد آنا شروع ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں۔ اور جیسے ہی خاکسار دفتر سے باہر آیا اور فون آن کیا تو چند لمحوں کے بعد ہی خاکسار کو وہ تصویرای-میل آگئی۔ (الحمد للّٰہ)
(ذٰلک فضلُ اللّٰہ یؤتیہ من یشاء)
(فیصل مظفر)