• 19 اپریل, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا ایک وصف اور تحریک

بشاشت
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا ایک وصف اور تحریک

وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا

(البقرہ: 84)

فرمایا: ’’ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ مظلومانہ زندگی کوبشاشت کے ساتھ قبول کرے‘‘ (خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 562) ایک اور موقع پر فرمایا ’’دوستوں کو ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا چاہئے‘‘

(خطابات ناصر جلد اول صفحہ585)

ایک صحافی کی روایت

جب یہ عاجز آپ کی سیرت و سوانح پر کام کر رہا تھا تو اتفاقاً ایک مشہور جرنلسٹ سلطان ایف حسین صاحب سے تعارف ہؤا وہ آپ کے ساتھ لاہور کے زمانے میں سیکرٹری پنجاب بیڈمنٹن رہے ہیں جب کہ آپ صدر تھے انہوں نے بتایا کہ آپ بہت خوش مزاج، اعلیٰ تعلیم یافتہ، آکسفورڈ کے گریجوایٹ تھے بڑی قدر کرنے والے اور عزت دینے والے وجود تھے اور بے ساختہ بولے ان کا نورانی چہرہ ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو تھا۔

سنت نبوی

فرمایا: ’’حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق احادیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے آپ کو دیکھنے والا ہر شخص آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت کے آثار مشاہدہ کیا کرتا تھا گویا مسکراہٹ سنت نبوی ہے

اس واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اورمجھ سے پہلوں کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑ رہا ہے مگر ہماری مسکراہٹ کوئی نہیں چھین سکا۔ لوگ جانتے بوجھتے یا ناسمجھی کی وجہ سے اس جماعت کو دکھ پہنچاتے ہیں جس پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری ہے مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں ہماری مسکراہٹوں کو ہم سے نہیں چھین سکے اس لئے ہم تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور آپ کے اسوہ حسنہ میں اپنی زندگی اور زندگی کے حسن کو دیکھتے اور پاتے ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ 22 دسمبر 1972ء)

مسکراتے ہوئے گرفتاری پیش کرنا

1953ء کے فسادات میں آپ کی رہائش رتن باغ لاہور میں تھی اور آپ تعلیم الاسلام کالج لاہور کے پرنسپل تھے ایک سازش کے تحت حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور آپ کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا آپ کی بڑی بیٹی صاحبزادی امۃ الشکور مرحومہ.. کا بیان ہے کہ جب فوجی آپ کو گرفتار کرنے کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا میں کپڑے بدل لوں تو چلتا ہوں .. میں، حلمی (چھوٹی بہن امۃ الحلیم) اور میرے بھائی انس اور چھوٹا بھائی فرید، ہم ایک لائن میں کھڑے تھے آنکھوں سے آنسو، دل کی عجیب حالت ہمارے پاس آئے سب کو ملے پھر میرے چہرے پر تھپکی دے کر بولے ’’مسکراؤ، مسکراؤ‘‘ وہ پہلا سبق تھا جو مشکل وقت میں مسکرانے کا ابا نے دیا آپ بھی مسکرا رہے تھے ہمیں بھی مسکرانے کاکہہ رہے تھے‘‘

(ماہنامہ مصباح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر)

1973ء کا ماحول

1953ء کے دس سال بعد جماعت کو حکومت سے غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی پیش بندی ہو چکی تھی پہلے آزاز کشمیر کی اسمبلی میں قرار داد لانے کی کوشش کی گئی اور ملک میں ماحول بہت Tense ہو گیا ان حالات میں ایک موقع پر آپ نے فرمایا ’’دنیا تیوریاں چڑھا کے اور سرخ آنکھیں کرکے تمہاری طرف دیکھ رہی ہے تم مسکراتے چہرے سے دنیا کو دیکھو‘‘

(خطاب جلسہ سالانہ 1973ء)

1974ء کے فسادات

احمدیوں کی ایذا رسانی، لوٹ مار، بائیکاٹ، اور ہر طرف جلوس اور گالی گلوچ ہو رہی تھی حتی کہ احمدیوں کے ناٹ مسلم ہونے کی legislation ہو گئی اس سنگین صورت حال کے وقت جو لوگ سخت اذیت اٹھا کر آپ کو ملنے آتے تھے اس سلسلہ میں فرمایا. ’’انسانی نفس کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بعض دفعہ مشکلات کے وقت گھبرا جاتا ہے اس لئے بعض چہروں پر کچھ گھبراہٹ اور پریشانی بھی نظر آتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ دو تین سو یا چار پانچ سو احمدی احباب جن سے میں ان دنوں روزانہ اجتمائی ملاقات کیا کرتا تھا جب وہ میری مجلس سے اٹھتے تھے تو ان کے چہروں پر بشاشت کھیل رہی ہوتی تھی اور وہ چھلانگیں مارتے واپس چلے جاتے تھے‘‘

(خطاب 26 دسمبر 1974ء)

مسکراہٹ کا منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہے

فرمایا ’’ہمیں گالی دینا اسی طرح فیشن بن گیا ہے جس طرح ہماری عورتوں میں لپ سٹک لگانا فیشن ہے

…. کفر کے فتوے لگائے جا رہے ہیں لیکن 80 سالہ گالیوں اور کفر کے فتووں نے ہمارے چہرے کی مسکراہٹیں نہیں چھینیں اس واسطے کہ مسکراہٹ کا اصل منبع اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہے جس کو وہ پیار حاصل ہو اس کے چہرے سے مسکراہٹ کون چھین سکتا ہے یہ نا ممکن بات ہے‘‘

(خطابات ناصر جلد اول صفحہ 493)

بشاشت کی بنیاد علم ہے

فرمایا ’’اے میرے بچو اور جوانو ! کہ ہر کام کے لئے بشاشت کی بنیاد علم ہے علم کی وجہ سے بشاشت پیدا ہوتی ہے اگر آپ کو یہ پتہ ہی نہ ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس پیار سے مہدی کا ذکر کیا تو آپکے دل میں بشاشت نہیں پیدا ہوگی لیکن اگر آپ کا ذہن اگر کسی صبح جب خالی الذہن ہوں آپ یہ سوچیں کہ کتنا پیار کیا ہے محمد نے اپنے بیٹے مہدی سے کہ ان الفاظ میں اس پیار کا اظہار کیا اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا آیَتَیْنِ

(سنن دارلقطنی کتاب العیدین باب صفۃ ےطجصلاۃ الخسوف والکسوف)

کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان خدا نے مقرر کئے ہیں اور اس پیار میں ساتھ یہ کہا کہ خدا کو بھی وہ پیارا ہے اور کہا کہ جب سے دنیا بنی اور رہتی دنیا تک کسی اور مدعی کےلئے یہ نشان اس کی صداقت کا مقرر نہیں کیا گیا مہدی منفرد ہے اس نشان کے اندر‘‘

(خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 377)

ہمارا زمانہ خوش رہنے، مسکراتے رہنے اور خوشی سے اچھلنے کا زمانہ ہے:
’’… مجھے خیال اس لئے آیا کہ بعض چہروں پر میں نے مسکراہٹ نہیں دیکھی ہمارے تو ہنسنے کے دن ہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فتح اور غلبہ کی جسے بشارت ملی ہو وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر دل گرفتہ نہیں ہوا کرتا اور جو دروازے ہمارے لئے کھولے گئے ہیں وہ آسمانوں کے دروازے ہیں‘‘

(خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 575)

ارشاد حضرت مسیح موعودؑ

فرمایا ’’ایسا ہی جب ہم تکلف سے ہنسنا شروع کریں تو دل میں ایک انبساط پیدا ہو جاتا ہے‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی)

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ