• 26 اپریل, 2024

میں تو انتہائی عاجز سا انسان ہوں

میں تو انتہائی عاجز سا انسان ہوں
جناب مبارک صدیقی سے حضور کی گفتگو

قارئین الفضل کے لئے ایک خصوصی دلکش تحفہ

یہاں ادارہ قارئین کی خدمت میں ان کے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی ایک پیاری اور دلوں کو چھو لینے والی گفتگو پیش کر رہا ہے جو حضور نے جماعت کے معروف شاعر جناب مبارک صدیقی سے فرمائی۔اس تحریر کو بعد ملاحظہ حضور انور قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ ایڈیٹر

چھ مارچ 2022ء بروز اتوار نماز فجر کے بعد خوشی کے مارے نیند ہی نہیں آرہی تھی کیونکہ آج صبح دس بجے پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات تھی۔

اسلام آباد ٹلفورڈ کی طرف جاتے ہوئے میری گاڑی خود بخود ہی تیز چلتی ہے سوا دس بجے کی بجائے میں ساڑھے نو بجے اسلام آباد ٹلفورڈ میں موجود تھا۔ جب ملاقاتیں شروع ہوئیں تو خاکسار سے قبل مکرم حنیف احمد محمود صاحب، ایڈیٹر ’’روزنامہ الفضل آن لائن لندن‘‘ کو دفتری ملاقات کی سعادت ملی۔ ان کے بعد  خاکسار عقیدت و احترام سے خوشی سے لرزتے ہوئے دربار خلافت میں حاضر ہوا۔

جن احباب کو حضور انور سے ملاقات کی سعادت ملی ہے یا ملتی رہتی ہے وہ جانتے ہیں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرنور چہرے کو دیکھتے ہی برسوں کی تھکاوٹیں اتر جاتی ہیں اور روح شاداب ہو جاتی ہے۔ اس روحانی ماحول کو اور دل کو چھو جانے والے ان لمحات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ آج میری خوش بختی  تھی کہ حضور انور  نے ازراہ شفقت اس عاجز کو ملاقات کے لئے بہت سا اضافی وقت عطا فرمایا۔ اس لئے آج کی ملاقات میں تعلیم الاسلام کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی مساعی کی مختصر رپورٹ پیش کرنے  کے علاوہ بھی کچھ موضوعات پر حضور سے مجھے باتیں کرنے کی سعادت ملی جو خاکسار قارئین الفضل آن لائن  کے لئے رقم کر رہا ہے۔

   *میں تو انتہائی عاجز سا انسان ہوں

پیارے حضور معمول کے مطابق خطوط کی فائلز ملاحظہ فرما رہے تھے ۔ میں نے نہایت ادب و احترام سے عرض کی۔ پیارے حضور! ایک بات بہت عرصے سے پوچھنا چاہ رہا تھا ۔ جب حضور خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تھے تو اگلے روز مجھے ربوہ سے میرے ایک خالہ زاد بھائی کا فون آیا تھا۔  کہہ رہا تھا کہ حضور  گوشہ نشین  ہیں لیکن انتظامی امور میں  بہت strict  ہیں۔ خاکسار نے حضور  سے عرض کی کہ حضور! میں نے تو پچھلے اٹھارہ انیس سال میں  حضور کو بہت زیادہ رحمدل، شفیق اور ازحد درجے درگزر کرنے والا پایا ہے۔ تو حضور یہ فرمائیے کہ کیا میرے کزن کو غلط فہمی ہوئی تھی یا مجھے  غلط فہمی ہے۔ میرا سوال سن کر حضور بہت  مسکرائے۔ کچھ دیر توقف فرمایا اور پھر فرمانے لگے۔ جہاں تک گوشہ نشینی کی بات ہے تو اب  احباب  سے ملنا اور  انکی رہنمائی کرنا میرے فرائض میں شامل ہے اور جہاں تک strict ہونے کی بات ہے تو انتظامی امور میں قواعد کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے اسے شاید آپکا کزن strict ہونا سمجھ بیٹھا ہو۔حضور نے فرمایا میں نے کسی سے کیا سختی کرنی ہے میں تو انتہائی عاجز سا انسان ہوں۔

*مجھے آپ کی باتوں اور سوالات پر غصہ نہیں آتا

اس کے بعد خاکسار نے عرض کی کہ حضور ایک بات میں نے نوٹ کی ہے کہ صبح کے وقت جب دفتری ملاقاتیں ہوتی ہیں تو  حضور ایک وقت میں دو دو کام کر رہے ہوتے ہیں۔ انتہائی اہم خطوط بھی ملاحظہ فرما رہے ہوتے ہیں اور ملاقات پر آنے والوں کی باتیں بھی توجہ سے سن رہے ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ حضور!  جب میں گھر میں کاغذات وغیرہ دیکھ رہا ہوتا ہوں تو اگر کوئی بچہ بار بار مجھ سے سوالات پوچھے تو ہر چند کہ لوگ مجھے حلیم الطبع کہتے ہیں، مجھے تھوڑا سا غصہ آ ہی جاتا ہے اور میں بچوں سے کہتا ہوں۔ پلیز! مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔ تو حضور آپ خطوط پڑھتے ہوئے بھی اکثر  مجھ جیسے بندے کی  باتیں سن کر  مسکرا رہے ہوتے ہیں آپ کو غصہ نہیں آتا۔ اسکا کیا راز ہے؟ 

اس پر حضور بہت مسکرائے اور فرمانے لگے۔ آپکو کیا پتہ ۔ہو سکتا ہے مجھے دل ہی دل میں آپ پر بہت غصہ آ رہا ہو۔ پھر حضور نہایت شفقت سے مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ہر گز ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے آپکی باتوں اور آپ کے سوالات پر غصہ نہیں آتا کیونکہ مجھے علم ہے کہ آپ رہنمائی کے لئے سوال پوچھتے ہیں اور مجھے اس طرح کام کرنے کی عادت ہے۔

*روس ،یو کرائن جنگ اور پیارے حضور کی دعا

’’اللہ تعالیٰ رحم  کرے اور پوری دنیا میں امن قائم ہو‘‘

اس کے بعد موجودہ جنگ کی صورتحال پر بات ہوئی تو

خاکسار نے عرض کی کہ حضور ہمیں علم ہے کہ آپ تو گزشتہ بہت سالوں سے عالمی جنگ سے متعلق عالمی راہنماوں کو متنبہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں  قیام امن کی تحریک کر رہے ہیں۔ اب  روس یوکرائن جنگ شروع ہو چکی ہے اور گزشتہ روز روسی صدر نے کہا ہے کہ یورپ کی اقتصادی پابندیوں کو بھی جنگ ہی تصور کیا جائے گا۔ حضور یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور آگے کیا ممکنات ہیں؟

اس پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تو ان راہنماوں کو پہلے بھی امن کے قیام کے لئے خطوط لکھے تھے اور اب بھی لکھے ہیں۔ اگر ان دنیاوی سربراہان  نے اب بھی ہوشمندی سے کام نہ لیا تو عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے جس سے  بڑے پیمانے پر تباہی کے امکانات ہیں۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ دنیا میں امن قائم ہو ۔حضور نے فرمایا کہ پہلے کسی نہ کسی رنگ  میں روس کو یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرائن ایک غیر جانبدار ملک رہے گا اور روس اور یورپی یونین کے مابین پُل کا کردار ادا کرے گا۔لیکن اب یوکرائن کو نیٹو کا حصہ بنانے کے ارادے کی وجہ سے یہ خوفناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب شام اور عراق پر بمباری اور حملے ہوتے ہیں اس وقت تو یہ ممالک متحد ہو کر احتجاج بلند نہیں کرتے اور حملہ کرنے والوں پر اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کرتے۔ اللہ تعالی رحم  کرے اور پوری دنیا میں امن قائم ہو ۔

*جنگ سے بچاؤ کے لئے کیا خندق کی ضرورت ہے؟

خاکسار نے عرض کی کہ حضور! جب میں چھوٹا تھا تو مجھے یاد ہے پاکستان ہندوستان کی جنگ کے وقت بعض گھروں میں صحن میں خندقیں بھی بنائی گئی تھیں تاکہ ایٹم بم کے حملے سے بچنے کے لئے زیر زمین پناہ لی جا سکے کیا موجودہ صورتحال میں بھی گھروں میں زیر زمین پناہ گاہ بنانی چاہیے۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ یہ ہر کسی کا انفرادی فیصلہ ہے۔

*’’دی ٹائمز‘‘ میں حضور کی مصروفیات کے متعلق انٹرویو پڑھنے کی تلقین

خاکسار نے عرض کی کہ حضور ایک غیر احمدی صحافی جسے حضور انور کی اتنی زیادہ مصروفیات کا علم نہیں ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ بہت آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں انہیں کوئی غم فکر نہیں۔  تو حضور! کیا  جماعت احمدیہ کے امام کی زندگی بہت آرام دہ ہوتی ہے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے علم ہے ۔اس صحافی نے کہا ہے جماعت احمدیہ کے امام مرسیڈیز میں سفر کرتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ یہ انگلستان ہے ۔آپ بھی جانتے ہیں کہ یہاں تو ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مرسیڈیز چلاتی ہے۔ تو انگلستان میں مرسیڈیز میں سفر کرنا کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ باقی خلیفہ وقت کی آرام دہ زندگی سے متعلق میں یہی کہوں گا کہ مشہور اخبار دی ٹائمز کے نمائندے نے میری مصروفیات سے متعلق میرا انٹرویو شائع کیا تھا۔ یہ صحافی میرا وہ انٹرویو پڑھ لیں تو انہیں خود حقیقت حال کا علم ہو جائے گا۔

*حضور کا اپنی صحت پر ایک شعر کا پڑھنا

اس کے بعد خاکسار نے عرض کی کہ حضور آپکی اتنی مصروفیات ہیں۔ ایک دفعہ میں نے محترم منیر احمد  جاوید صاحب پرائیویٹ سیکریٹری کا انٹرویو کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ایک ہفتے میں ہزاروں خطوط  حضور انور ملاحظہ فرماتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں کی راہنمائی فرماتے ہیں۔ پانچ وقت نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہر ہفتے خطبہ جمعہ کی تیاری، دو سو سے زائد ممالک کے احمدیوں سے رابطہ۔ نماز فجر سے نماز عشاء تک حضور کی بہت مصروفیات ہیں۔ تو حضور میرا سوال یہ ہے کہ ایسے میں  حضور اپنی صحت کا خیال کیسے رکھتے ہیں اور اپنے رشتے داروں کو کیسے وقت دے پاتے ہیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ میں نے کیا کرنا ہے یہ سب تو  اللہ تعالیٰ  کا فضل ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں ہے۔عام دنوں میں تو میں اپنے عزیزوں رشتے داروں کو وقت دیتا ہوں۔ آجکل کورونا کی وجہ سے یہ سلسلہ کچھ کم ہے ۔ بچوں سے کھانے کے وقت پر ملاقات ہو جاتی ہے۔ جہاں تک صحت کا سوال ہے آپکے سامنے ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ  کا فضل ہے۔ خاکسار نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی صحت بہت اچھی ہے۔ اس پر  حضور انور نے مسکراتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔

؎ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

*مشاعرے جماعت کی اعلی اقدار اور روایات کے مطابق ہوں

اس کے بعد خاکسار نے مودبانہ طور پر عرض کی کہ حضور! کسی نے کہا تھا کہ اگر کبھی حضور انور سے ملاقات ہو تو  ایک سوال پوچھیں۔ کیا اجازت ہے۔ حضور نے ازراہ شفقت اجازت عطا فرمائی۔ میں نے کہا کہ دو تین خواتین نے پوچھا ہے کہ ایک ملک میں خواتین کے مشاعرے پر پابندی لگائی گئی ہے کیا یہ کورونا کی وجہ سے ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کورونا کی وجہ سے نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ  مشاعرے جماعت کی اعلی اقدار اور روایات کے مطابق ہی ہونے چاہئیں ۔ کسی اور ملک والوں نے مجھ سے مشاعرہ کرنے کی  اجازت مانگی تھی تو انہیں میں نے پروگرام کرنے کی اجازت دی ہے۔

*سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے

خاکسار نے عرض کی حضور! میں نے آپکو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا ہے۔ ہم عام انسان تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبراجاتےہیں تو حضور ازراہ کرم مشکل حالات میں مسکرانے کا ہنر مجھے بھی سکھا دیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ انسان کو  اللہ تعالی کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں۔ پھر ایک بات پرحضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ پڑھا۔

؎سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے

*میں خاموش رہتا ہوں اور سب کے لئے دعا کرتا ہوں

  حضور نے فرمایا صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ انسانوں کے آگے نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ دشمن تو چاہتا ہے کہ انکی باتوں سے ڈر کر میں بھی بولوں لیکن میں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اسلئے   میں خاموش رہتا ہوں اور سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔

*آپ تو ایسے ہے جیسے کہ چشم تصور سے جماعت کے ہر فرد کو دیکھ رہے ہوں

اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ  نے خطوط کی دو فائلیں ملاحظہ کرکے، خطوط پر دستخط کر کے انہیں مکمل کر کے میز پر رکھا اور کھڑے ہو کر تیسری فائل اٹھائی۔ خاکسار نے عرض کی۔ حضور! چند ماہ قبل میرے بھتیجے عثمان کی شادی تھی امریکہ  میں۔ وہاں یوں تو سبھی پیارے حضور کو بڑی محبت سے سلام کہنے کا کہہ رہے تھے لیکن  ایک صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جو حضور کا بہت ہی  عقیدت سے ذکر کر رہے تھے اور مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ  سے اپنی ملاقات کے بہت دلچسپ واقعات بھی سنا رہے تھے۔ حضور نے فرمایا کیا نام تھا ان کا۔ میں نے نام یاد کرنے کی کوشش کی لیکن نام ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ خاکسار نے عرض کی ۔حضور! انکا نام میرے فون میں ہے اگر اجازت ہو تو فون جیب سے نکال کر دیکھ لوں۔ فرمایا جی ٹھیک ہے۔ خاکسار نے فون نکالا اور تیزی سے انکا نام تلاش کرنے لگا۔ ادب اور گھبراہٹ کے مارے نام ڈھونڈنا کافی مشکل  ہو رہا تھا۔ میں نے سرچ بار میں لکھا یو ایس اے اور جلدی یو ایس اے کے سارے نام پڑھنے لگا ۔ میں نے کہا جی حضور! مل گیا ۔ انکا نام ہے کریم صاحب۔ حضور نے فرمایا امریکہ کے  کس شہر میں تھے آپ؟ میں نے عرض کی لاس اینجلس میں ۔ حضور فرمانے لگے اچھا اچھا  لاس اینجلس کے کریم صاحب۔ ساتھ ہی حضور انور نے کریم صاحب کی  مصروفیات ،انکا حلیہ ،انکے کاروبار سے متعلق بتا کر پوچھا وہ والے کریم صاحب ؟ میں نے عرض کی ۔اللہ اکبر! حضور بالکل وہی کریم صاحب آپ تو ایسے ہے جیسے کہ چشم تصور سے جماعت کے ہر فرد کو دیکھ رہے ہوں۔حضور نے فرمایا جی کریم صاحب  مجھے دعا کے خطوط لکھتے رہتے ہیں۔

*دو سو سے زائد ممالک کے احمدی حضور کو دعاؤں میں یاد رہتے ہیں

  قارئین کرام !یہاں میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی مصروفیات سے متعلق ایک مضمون غالبا چار صفحات کا الفضل میں لکھا تھا ۔کبھی وقت ملے تو ضرور پڑھیں۔ اسکے علاوہ خاکسار نے حضور انور کی حیرت انگیز یادداشت سے متعلق دو صفحات پر مشتمل ایک مضمون الفضل میں لکھا تھا اور یہی عرض کی تھی کہ کیسے جماعت احمدیہ کے افراد کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت سے نوازا ہوا ہے کہ خلیفہ وقت دو سو سے زائد ممالک کے احمدیوں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور  جو لوگ حضور کو دعا کے لئے خطوط لکھتے رہتے ہیں۔ کیسے وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعاؤں میں یاد رہتے ہیں۔

اس کے بعد شعر و شاعری کے موضوع پر بات ہوئی تو پیارے آقا ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’آجکل آصف باسط صاحب بہت اچھی نظمیں لکھ رہے ہیں‘‘۔

*جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے

الحکم اخبار کی بات ہوئی تو  حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ قاصد معین صاحب نے بہت پیارا مضمون لکھا ہے۔ آپ نے پڑھا ہے الحکم اخبار میں؟ میں نے کہا حضور اچھا! قاصد صاحب نے مضمون لکھا ہے؟ مجھے اس کا علم نہیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ کمال کرتے ہیں مبارک صاحب۔  جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے. قاصد صاحب کا مضمون پڑھیں۔

اس کے بعد ملاقات اختتام کو پہنچی۔ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دفتر سے باہر نکلتے سوچ رہا تھا کہ دنیا میں کوئی اتنا پیارا راہبر اتنا پیارا  مرشد نہیں ہے جو مجھ جیسے نابکار و دلفگار کا دل رکھنے کے لئے اسے اتنا زیادہ  وقت دے اور ہر ہر معاملے میں ہر سائل کی رہنمائی کرے۔ اللہ تعالیٰ  قدم قدم پر ہمارے محبوب امام کا حافظ و ناصر ہو آمین۔

دفتر سے واپسی پر اپنی کار میں ، میں اپنی ہی لکھی ہوئی ایک غزل دھرا رہا تھا ۔

اے مِرے خدا! مِرے چارہ گر اُسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر اُسے کچھ نہ ہو

تِرے پاؤں پڑ کے دعا کروں سرِ دشت میں
مِرے سر پہ ہے وہی اک شجر اُسے کچھ نہ ہو

وہ جو ایک پل تھا قبولیت کا مجھے ملا
تو کہا تھا خالقِ بحر و بر اُسے کچھ نہ ہو

اے غنیمِ جاں چلو آج تجھ سے یہ طے ہوا
مجھے زخم دے بھلے عمر بھر اُسے کچھ نہ ہو

پچھلا پڑھیں

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد (قسط 2)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2022