• 20 اپریل, 2024

ہم احمدی خوش قسمت ہیں، اور ہم خوش قسمت تبھی کہلا سکتے ہیں جب ہم اپنی زندگیوں کو قرآنِ کریم کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اس دَور میں اب پھر ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے تا کہ آیات پڑھ کر سنائے۔ الٰہی نشانات سے ہماری روحانیت میں اضافہ کرے، ہمارے ایمان اور یقین میں اضافہ کرے، ہماری زندگیوں کو صحیح رہنمائی کرتے ہوئے پاک کرے، ہمیں اس الٰہی کتاب کی حقیقت اور اس کے اسرار سے آگاہ کرے، ہمیں بتائے کہ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا (بنی اسرائیل: 83)، کہ یہ شفاء اور رحمت ہے مومنین کے لئے۔ یہ عظیم کتاب ہمارے لئے شفا کس طرح ہے؟ اس آخری شریعت کی تعلیم میں جو پُر حکمت موتی پوشیدہ ہیں اُس سے ہمیں آگاہی دے۔ پس یہ احسان ہے جو مؤمنوں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور جو صرف اور صرف آج اُس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور اُن پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے والے، اُس پر چلنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں۔ اس زما نے میں قرآنِ کریم کی عظمت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس طرح واضح فرمایا ہے اور توریت کا موازنہ کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ
’’یہ دعویٰ پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی‘‘۔ فرمایا: ’’بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھوکہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق ِعباد کا بھی ذکر ہے۔ پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی۔ مگر یہ دھوکہ اسی کو لگے گا جس نے کلامِ الٰہی میں کبھی تدبر نہیں کیا۔ واضح ہو کہ الٰہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں۔ چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں۔ قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے۔ درجہ اوّل عوام کے لئے، یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں دوسرا درجہ خواص کے لئے، یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الٰہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں۔ اور تیسرا درجہ خواص الخواص کیلئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں‘‘۔

فرمایا: ’’اوّل مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر ہے اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے‘‘ (بچا جائے)۔

’’دوسرا مرتبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثرِ حقیقی خدا تعالیٰ کو سمجھا جائے‘‘ (یعنی نتیجہ پیدا کرنے والا، اثر ڈالنے والاحقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے) ’’اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ زیدنہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو مَیں تباہ ہو جاتا۔ اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے‘‘۔

فرمایا: ’’تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا۔ یہ توحید توریت میں کہاں ہے؟ ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا۔ اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں۔ ایسا ہی توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں۔ اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ۔ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص: 2 تا 5) ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے۔ ایسا ہی توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے۔ مثلاً وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآئ ِذِی الۡقُرۡبٰی (النحل: 91) یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے۔ یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا۔ لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورت الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اور ہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی کی مقدور میں نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجودنہ ہو‘‘۔ فرمایا: ’’ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں۔ اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں۔ مگر قرآن شریف کا مدّ نظرتمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے‘‘۔

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن۔ جلد13صفحہ83تا 85)

پس یہ ایک جھلک ہے اُس خزانے کی جو زمانے کے امام نے ہمیں قرآنِ کریم کی برتری کے بارہ میں بتائی ہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں، اور ہم خوش قسمت تبھی کہلا سکتے ہیں جب ہم اپنی زندگیوں کو قرآنِ کریم کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، دنیا کو دکھائیں کہ دیکھو یہ وہ روشن تعلیم ہے جس پر تمہیں اعتراض ہے۔ تبھی ہم آخرین کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کر سکیں گے۔

(خطبہ جمعہ 25؍ مارچ 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اپریل 2021