• 16 جولائی, 2025

رمضان، تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی کا مہینہ

رمضان المبارک انسان کی روحانیت کو تیز کرنے کے لئے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے نہایت سازگار مہینہ ہے، ہر طرف نیکی کی فضاء قائم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے، استغفار،درود اور دیگر دعاؤں سے اپنی زبانیں تر رکھنی چاہئیں۔ اپنے اوقات بھی خدمت دین میں اور دعوت الی اللہ میں صرف کرنے چاہئیں اور بکثرت عبادت بجالانی چاہئے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’اس مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ اور بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو دَور مکمل کئے جائیں ورنہ کم از کم ایک تو ضرور ہو۔ اور ہر رحمت کی آیت پر خدائی رحمت طلب کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیا جائے۔

اس مہینہ میں دعاؤں اور ذکر الٰہی پر بھی بہت زور ہونا چاہئے اور دعا کے وقت دل میں یہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہم گویا خدا کے سامنے بیٹھے ہیں یعنی خدا ہمیں دیکھ رہاہے اور ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ دعاؤں میں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور حضرت خلیفۃ المسیح۔۔۔ ایدہ اللہ کی صحت اور درازعمر اور سلسلہ کے مبلغوں اور کارکنوں اور قادیان کے درویشوں اور ان کے مقاصد کی کامیابی کو مقدم کیاجائے۔ عمومی دعاؤں میں (رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ) بڑی عجیب و غریب دعا ہے اور نفس کی تطہیر کے لئے (لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ) غیرمعمولی تأثیر رکھتی ہے۔ اور استعانت باللہ کے لئے یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ کامیاب ترین دعا ؤں میں سے ہے۔ اور سورۂ فاتحہ تو دعاؤں کی سرتاج ہے۔

برکات کے حصول کے لئے کثرت کے ساتھ درود پڑھنا اوّل درجہ کی تاثیر رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ایک رات میں نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ میرا دل و سینہ معطّر ہو گیا۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے نور کی مشکیں بھر بھر کے میرے مکان کے اندر آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ نور اس درود کا ثمرہ ہے جو تو نے محمد ﷺ پر بھیجا ہے‘‘

(روزنانہ الفضل ربوہ، 9؍مارچ 1960ء)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ

(البقرہ: 187)

’’چونکہ اس آیت سے پہلے بھی اوراس کے بعد بھی روزوں کا ذکرہے اس لئے اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو اس طر ف توجہ دلائی گئی ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور ان کی حاجات کو پورا فرماتا ہے لیکن رمضان المبارک کے ایام قبولیت دعا کے لئے مخصوص ہیں۔ اس لئے تم ان دنوں سے فائدہ اٹھاؤ اورخدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ ورنہ اگر رمضان کے مہینہ میں بھی تم خالی ہاتھ رہے تو تمہاری بدقسمتی میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔

جس طرح مظلوم کی ساری توجہ محدود ہو کر ایک ہی طرف یعنی خدا تعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے اسی طرح ماہ رمضان میں مسلمانوں کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ جب کوئی پھیلی ہوئی چیز محدود ہو جائے تواس کا زور بہت بڑھ جاتاہے جیسے دریا کا پاٹ جہاں تنگ ہوتاہے وہاں پانی کا بڑا زور ہوتاہے۔اسی طرح رمضان کے مہینہ میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو دعا کی قبولیت کاباعث بن جاتے ہیں۔ اس مہینہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرتی ہے۔ پھر سحری کے لئے سب کواٹھنا پڑتاہے اور اس طرح ہر ایک کوکچھ نہ کچھ عبادت کا موقعہ مل جاتا ہے۔ اس وقت لاکھوں انسانوں کی دعائیں جب خداتعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ردّ نہیں کرتابلکہ انہیں قبول فرماتاہے۔ اُس وقت مومنوں کی جماعت ایک کرب کی حالت میں ہوتی ہے۔پھر کس طرح ممکن ہے کہ ان کی دعا قبول نہ ہو۔ درد اور کرب کی حالت کی دعا ضرور سنی جاتی ہے۔ جیسے یونسؑ کی قوم کی حالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے ان کو بخش دیا اور ان سے عذاب ٹل گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سب اکٹھے ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئے تھے۔

پس رمضان کا مہینہ دعا ؤں کی قبولیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتاہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں دعا کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے (قَرِیْبٌ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر وہ قریب ہونے پر بھی نہ مل سکے تو اور کب مل سکے گا۔ جب بندہ اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتاہے اور اپنے عمل سے ثابت کر دیتاہے کہ اب وہ خدا تعالیٰ کا در چھو ڑ کر اور کہیں نہیں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں اور (اِنِّیْ قَرِیْبٌ) کی آواز خود اس کے کانوں میں آنے لگتی ہے جس کے معنے سوائے اِس کے اور کیا ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہروقت اُس کے ساتھ رہتاہے۔ اور جب کوئی بندہ اس مقام تک پہنچ جائے تواسے سمجھ لینا چاہئے کہ اُس نے خدا کو پا لیا‘‘۔

(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ تفسیر سورۃ البقرہ زیر آیت187)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’ایک حدیث مسنداحمد بن حنبل جلد2 صفحہ75 مطبوعہ بیروت سے لی گئی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، عمل کے لحاظ سے ان دس دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب اور کوئی دن نہیں ہیں۔ عمل کے لحاظ سے جو ان دنوں میں برکت ہے ایسے اور کسی عشرے اور کسی اوردن میں برکت نہیں ہے۔ پس مبارک ہو کہ ابھی کچھ دن باقی ہیں اور یہ برکتیں کلیۃً ہمیں وداع کہہ کر چلی نہیں گئیں۔ آپ ان کا استقبال کریں تو آپ کے گھر اتر کر ٹھہر بھی سکتی ہیں اور یہی حقیقی نیکی کا مفہوم ہے۔ نیکی وہ جو آکر ٹھہر جائے اور پھر رخصت نہ ہو۔

ان ایام میں خصوصیت سے رسول اللہ ﷺ نے جس ذکر الٰہی کی تاکید فرمائی ہے وہ ایک ہے تہلیل۔ تہلیل سے مراد ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، دوسرے تکبیر اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، تیسرے تحمید، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ تو یہ تین سادہ سے ذکر ہیں جو بآسانی ہر شخص کو توفیق ہے کہ ان پر زور ڈالے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍جنوری 1998ء)

پس رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرنا چاہئے تاکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ ایک بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے۔ اللہ کرے کہ ہم ان نصائح کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں اور نہ صرف رمضان میں بلکہ سارا سال ہماری زبانیں ذکر الٰہی سے تر رہیں اور تلاوت قرآن کی عادت ہم میں ایسی پختہ ہو جائےکہ پھر اس میں کبھی کمی نہ آئے۔ آمین

(احتشام الحسن۔ مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا