برصغیر پاک وہند میں چند سال پہلے تک گھروں میں دھات کے برتنوں کا استعمال عام تھا اور ایک خاص موسم میں قلعی کرنے والے محلوں کی گلیوں میں پھیل جاتے تھے اور گلیوں میں یہ منادی کرتے تھے کہ اپنے اپنے برتنوں کو قلعی کرالو۔ ان کی یہ آواز سن کر گھر والے اپنے گھر کے برتنوں کو جمع کرتے انکے پاس لے جاتے اور ان سے قلعی کرواتے تھے جس کے نتیجے میں ان دھات کے برتنوں کی اندرونی طور پر خوب اچھی طرح صفائی ہوجاتی اور آئندہ ایک سال کے لیے اچھی طرح استعمال کے قابل ہوتے ہیں۔
بالکل ایسی ہی کیفیت ماہ رمضان کی ہے مومنین کی روحوں کو صاف کرنے انہیں دھونے اور پاک بنانے اور انھیں چمکانے کی خاطر ان کی اخلاقی اور روحانی امراض کو دور کرنے کی خاطر انہیں روحانی شفا اور تندرستی عطا کرنے کی خاطر ماہ رمضان اللہ تعالیٰ نے ہر سال نازل فرمایا ہے اور پھر اس کی بڑی برکات بیان فرمائی گئیں کہ جس کی انتہاء حصول تقویٰ ہے۔ (البقرہ: 184)
جس طرح عام دنیوی اداروں میں یہ دستور ہے کہ وہ سال میں چند دن کے لئے اپنے کارکنان کا ریفریشر کورس کرواتے ہیں بالکل اسی طرح رمضان کی حیثیت ریفریشر کورس کی سی ہے۔ اس مہینے میں اسلامی معاشرے میں ہر طرف نیکیوں کا رجحان جنم لیتا ہے وہ لوگ جوبالعموم نمازوں میں سست ہوتے ہیں وہ بھی نمازوں کے جانب متوجہ ہوجاتے ہیں، جو پہلے نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں لیکن باجماعت کی طرف توجہ نہیں ہوتی وہ نماز باجماعت کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں، جو تلاوت قرآن پاک میں باقاعدہ نہیں ہوتے وہ تلاوت قرآن پاک کی جانب مشغول ہوتے ہیں، جن کے نوافل میں سستی ہوتی ہے وہ نوافل اور تہجد کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتے ہیں، صدقہ و خیرات کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر اسلامی معاشرے میں ہر جانب ہر گھرانے میں نیکی پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے میرے صحابہ تمہارے پاس رمضان آیا ہے یہ برکت والا مہینہ ہے اس کو تم پر فرض کیا ہے اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام، بَابُ فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)
یعنی جو شخص ماہ رمضان کی نیکیوں کی جانب توجہ کرے گا اس شخص کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اس کے لیے دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اس کے لئے سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے کیونکہ جب وہ ہر وقت نیکوں کی صحبت میں بیٹھے گا، نمازیں پڑہے گا دعائیں کرے گا نوافل پڑھے گا تہجد پڑھے گا تلاوت قرآن پاک میں مشغول ہو گا صدقہ و خیرات کرے گا تو اس کی بدیاں لمحہ بہ لمحہ جھڑتی چلے جائیں گی اور اس کی نیکیوں کا گراف لمحہ برلمحہ بڑتا چلا جائے گا۔ فرمایا
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(القدر: 4)
اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو کوئی اس رات کی برکت سے محروم کردیا گیا وہ بڑا ہی بدنصیب ہے وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا۔
احادیث کی مشہور کتاب صحيحُ ابن خُزَيمة۔ کتاب الصوم، بَابُ فَضَائِلِ شَهْرِ رَمَضَانَ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہوئی ہے جس میں آپؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری روز چونکہ اس شعبان کے بعد ماہ رمضان کا آغاز ہوتا ہے۔ ’’خَطَبَنَا رَسُولُ اللّٰهؐفِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ، شعبان کے آخری روز آنحضرت ﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا
فَقَالَ: ’’أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ‘‘ فرمایا اے لوگو! ایک عظیم مہینہ آگیا ہے ایک ایسا مہینہ جو بہت مبارک ہے۔ ’’شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ‘‘ اس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ’’جَعَلَ اللّٰهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے دنوں میں روزے کو فرض اور اس کی راتوں کے قیام کو یعنی نوافل اور تہجد کی ادائیگی کو طوئی نیکی قرار دیا۔
نیز فرمایا ’’مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ‘‘ کہ اس مہینے میں کس نے عملی کے ذریعے قرب پانے کی کوشش کی اس کی مثال اس شخص کی مانند ہوگی جو دوسرے مہینوں میں کوئی فرض ادا کرتا ہے۔
نیز فرمایا کہ ’’وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ‘‘ اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا تو اس کا ثواب عام دنوں کے ستر نیکیوں کے برابر ہوگا۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا ’’وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ‘‘ فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا: ’’وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ‘‘ یہ باہمی ہمدردی اور دلداری کا مہینہ ہے یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے یعنی جب بظاہر اس سے مادی رزق میں موجود خوراک سے پرہیز کرنے کا حکم ملتا ہے تو اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ اسے روحانی و جسمانی ہر طور سے رزق کھلاتا چلا جاتا ہے۔
اسی روایت میں مزید یہ بھی لکھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ‘‘ یعنی یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اوّل رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے خلاصی کا موجب ہے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے مثلاً ’’ترمذی أبواب الصوم بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ‘‘ میں درج روایت میں لکھا ہے کہ فرمایا ’’إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ‘‘ جس وقت ماہ رمضان کی پہلی رات شروع ہوتی ہے شیطان اور سرکش جن جکڑ دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔
نیز فرمایا کہ ’’وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ‘‘ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔
درحقیقت یہ دروازوں سے مراد ہے ایسی بدیاں ان کی تعداد بلا انتہا ہے جو انسان کو جہنم میں داخل کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں تو فرما ماہ رمضان میں نیکیوں کے ماحول میں ایک مسلمان کی زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں اور نیکیوں میں پروان چڑھنے کے نتیجے میں جب اس کی بدیاں گھٹتی جائیں گی تو دوزخ کے دروازے بند ہوتے جائیں گےجب اس کی نیکیاں بڑھتی چلے جائیں گی تو وہی نیکیاں جو جنت میں داخل کرنے کا ذریعہ ہیں اس کے لئے وہ دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔
اسی طرح فرمایا کہ ’’وَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلّٰهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ‘‘ ماہ رمضان میں منادی کرنے والا فرشتہ اعلان کرتا ہے اے خیر کے طلبگار نیکی کی طرف متوجہ ہو اور بدی کا ارادہ کرنے والے تو فوری طور پر بدی سے رک جا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس ماہ رمضان میں کئی لوگوں کو آگ کے عذاب سے آزاد فرماتا ہے اور ایسا ماہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
بلکہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ‘‘
(ترمذی، أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ۔ حدیث نمبر: 3545)
وہ انسان بڑا ہی بدقسمت ہے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا مگر وہ رمضان گزر جانے کے باوجود استغفار کر کے توبہ کر کے نیکیاں انجام دے کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:
’’رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نفس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔
جہاں تک روزہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ حکم دیا اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ
(بخاری کتاب الصّوم باب ھل یقول اِنّی صائم اذا شتم)
یعنی روزہ گناہوں سے بچاتا اور عذابِ الٰہی سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسان کی روحانی سیر کی ابتدا گناہوں سے بچنے سے شروع ہوتی ہے اور اس سیر روحانی کی انتہا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچتے ہوئے اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چونکہ روزہ کا اور رمضان کے مہینے کی عبادتوں کا قیام اس غرض سے ہے کہ انسان ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بھی محفوظ رہے اور اس کی رضا کی جنتوں میں بھی داخل ہو جائے اس لئے ہم تمہیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7نومبر 1969ءخطبات ناصر جلد دوئم صفحہ 954)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حدیث میں آتاہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں۔ جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں رکھے اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جائیں گے اور اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں تو تم ضرور اس بات کے خواہشمند ہوتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ تو یہاں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں۔پہلی یہ کہ ایمان کی حالت اور دوسری ہے محاسبہ نفس۔ اب روزوں میں ہر شخص کو اپنے نفس کا بھی محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اس میں مَیں جائزہ لوں کہ میرے میں کیا کیا برائیاں ہیں، ان کا جائزہ لوں۔ ان میں سے کون کون سی برائیاں ہیں جو مَیں آسانی سے چھوڑ سکتاہوں ان کو چھوڑوں۔ کون کون سی نیکیاں ہیں جو مَیں نہیں کر سکتا یامَیں نہیں کر رہا۔اور کون کون سی نیکیاں ہیں جو مَیں اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ تو اگر ہر شخص ایک دو نیکیاں اختیار کرنے کی کوشش کرے اور ایک دو برائیاں چھوڑنے کی کوشش کرے اورا س پرپھر قائم رہے تو سمجھیں کہ آپ نے رمضان کی برکات سے ایک بہت بڑی برکت سے فائدہ اٹھا لیا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 24اکتوبر 2003ء خطبات مسرور جلد اوّل صفحہ418)
(رحمت اللہ بندیشہ۔استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)