• 16 جولائی, 2025

حضرت بلال ؓ کا رمضان المبارک سے ایک لطیف رشتہ

مکرم ایڈیٹر صاحب نے رمضان اور افریقہ کے صحابی حضرت بلالؓ پر مضمون لکھنے کا کہا۔ پہلا خیال ذہن میں یہ آیا کہ اس موضوع پر شاید ایک مختصر مضمون ہی تیار ہو سکے گا۔ جس میں شاید آپ کے سحر و افطار کا ذکر کرنا ہو۔ لیکن جب اس موضوع کے حوالہ سے مواد تلاش کیا لیکن آپؓ کی عبادات سے متعلق ایسا تو کوئی مواد نہ ملا لیکن یہ معلوم پڑا کہ رمضان اور حضرت بلالؓ کا تو نہایت گہرا تعلق ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم ہوچکا ہے۔ اور اس کی بناء وہی خاصة ہے جو خدا تعالیٰ کی جانب سے آپ کو ودیعت کیا گیا تھا یعنی آذان کا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کے ذکر میں حضرت بلالؓ کا بھی ذکر فرمایا۔ حضور انورایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت بلالؓ کے والد کا نام رباح تھا اور والدہ کا نام حمامہ۔ حضرت بلالؓ اُمَیَّہ بن خَلَفْ کے غلام تھے۔ حضرت بلالؓ کی کنیت ابوعبداللہ تھی جبکہ بعض روایات میں ابو عبدالرحمٰن اور ابوعبدالکریم اور ابو عمرو بھی مذکور ہے۔ حضرت بلالؓ کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں لیکن والد سرزمینِ عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ محققین نے لکھا ہے کہ وہ حبشی سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے یعنی قدیم زمانے میں سامی یا بعض عربی قبیلے افریقہ میں جاکر آباد ہو گئے تھے جس کے باعث ان کی نسلوں کے رنگ تو افریقہ کی دوسری اقوام کی طرح ہو گئے لیکن وہاں کی خاص علامات اور عادات ان میں ظاہر نہ ہوئیں۔ بعد میں ان میں سے بعض لوگ غلام بن کر عرب واپس لَوٹ گئے۔ چونکہ ان کا رنگ سیاہ تھا اس لیے عرب انہیں حبشی یعنی حبشہ کے رہنے والے ہی سمجھتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت بلالؓ مکہ میں پیدا ہوئے اور مُوَلِّدِیْن میں سے تھے۔ مُوَلِّدِیْن ان لوگوں کو کہتے تھے جو خالص عرب نہ ہوں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ سُرَاۃ میں پیدا ہوئے اور سُرَاۃ یمن اور حبشہ کے قریب ہے جہاں مخلوط نسل کثرت سے پائی جاتی ہے۔۔۔۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام لانے میں سبقت لے جانے والے اشخاص چار ہیں۔ أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ۔ یعنی مَیں عربوں میں سے سبقت لے جانے والا ہوں۔ سَلْمَانُ سَابِقُ الْفُرْسِ۔ سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور بِلَالٌ سَابِقُ الْحَبَشَۃِ۔ بلال اہلِ حبشہ میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور صُہَیْبٌ سَابِقُ الرُّوْمِ اور صہیب رومیوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں۔

۔۔۔حضرت بلالؓ کا شمار اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ176 ‘‘بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2020ء)

حضرت بلال کی اذان اور روزے کا تعلق

حضرت بلال کے روزے رکھنے کا ذکر تو نہیں مل سکا۔ لیکن آپ کے بروقت اذان دینے اور سحری کے اختتام کا فقہی مسئلہ بھی یہاں حل ہوتا ہے کہ روزے کا اذان سے نہیں بلکہ قرآن کریم کے مطابق صبح صادق کے تبین سے ہے۔

آنحضرت ﷺ نے رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان حضرت بلالؓ فجرکے طلوع ہونے سے پہلے دیتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے اور دوسری اذان حضرت ابن ام مکتومؓ اس وقت دیا کرتے تھے جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اور اس کا مقصد سحری کے وقت کے ختم ہو جانے کا اعلان ہوتا تھا۔ اس لئے حضور ؐ نے فرمایا کہ جب بلال اذان دے تو کھاتے رہا کرو اورجب ابن ام مکتوم اذان دے تو سحری ختم کر لیاکرو۔

(بخاری کتاب الصوم باب قول النبی لا یمنعکم من سحور کم اذان بلال)

لیکن اس میں گنجائش بھی رکھ دی کہ جب تک پوری طرح فجر نہ ہو جائے تو کھا پی سکتے ہیں خواہ اذان ہو رہی ہو۔

(سنن نسائی کتاب الصیام باب کیف الفجر)

رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سحری کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے انس! میں نے روزہ رکھنا ہے مجھے کھانے کی کوئی چیز لا دو‘‘۔ حضرت انس کہتے ہیں میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی لے آیا۔ اور اس وقت حضرت بلالؓ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ حضور نے فرمایا ’’انس! دیکھو (مسجد میں) کوئی اورآدمی ہے جو میرے ساتھ سحری میں شامل ہو‘‘۔ حضرت انسؓ نے زیدؓ بن ثابت کو بلایا تو انہوں نے کہا ’’میں تو ستّو پی کر روزہ رکھ چکا ہوں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’ہم نے بھی روزہ ہی رکھنا ہے‘‘۔ چنانچہ زیدؓ بن ثابت نے حضور ؐ کے ساتھ سحری کھائی۔ (سنن نسائی کتاب الصیام)

(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل8؍نومبر، 15؍نومبر 2002ء)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بلال کی اذان کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ نے خود بھی کچھ کھایا ہے۔حضرت بلالؓ کی اذان کا مقصد یہی تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے۔

اس مسئلہ پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ سحری کا تعلق اذان سے ہرگز نہیں بلکہ صبح صادق سے ہے۔ حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ
’’دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لئے لوگ عموماً بعض جگہوں پہ سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔ اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو اس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی۔ اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر320 صفحہ295-296)

حضرت بلال بطور مؤذن

حضرت بلال ؓ کا تعلق افریقہ سے تھا۔ افریقی لوگوں کا ایک خاصہ آواز کا بلند ہونا بھی ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ روز مرہ کی بول چال میں بھی نہایت تیز آواز کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسری بات اسی ضمن میں یہاں مقامی سطح پر ان کی تہذیب و تمدن کا حصہ بن چکی ہے وہ مختلف قبائلی گیت ہیں۔ جو تمام لوگ مل کر اور ہم آواز ہو کر ایک خاص ردھم میں پڑھتے ہیں۔ یہ نسلاً بعد نسلٍ ان کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔

یہی خاصہ حضرت بلال ؓ کی آواز کا حصہ تھا۔ بلند بارعب اور اسلام کے نور سے منور ہو کر ایک خاص تاثیر لئے تھی۔ صحابہ حضرت بلال ؓ کا یہ خاص رتبہ تسلیم کرتے تھے۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے خاص مشیر، قابلِ اعتماد اور وفادار صحابہ میں سے تھے۔

آپ اسلام کے پہلے مؤذن تھے۔ پہلے آپ الصلاة جامعة کہہ کر لوگوں کو نماز کی اطلاع دیا کرتے تھے تاوقتیکہ اذان کے مروجہ الفاظ رائج ہو گئے۔ آپؓ نے فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کے چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیکر خانۂ خدا کا بطور صنم کدہ خاتمہ کا اعلان کیا۔ لیکن عاشق رسولﷺ حضرت بلالؓ نے آپؐ کی وفاة کے بعد اذان دینا چھوڑ دیا۔ گویا اس بات کا برملا اظہار کیا کہ یہ اذان کا ذمہ داری کا بار رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اٹھایا ہوا تھا۔ اور یہ زبان صرف عشق رسول ﷺ میں توحید کے ترانے گاتی تھی۔ اور یہ آواز صرف محبت رسول اللہﷺ میں فرزندانِ توحید کو عبادت کی خاطر جمع کرتی تھی۔

ایک بار دمشق میں حضرت عمر ؓ کی موجودگی میں آپ ؓ نے باصرار اذان دی۔ حضرت بلالؓ جب اذان ختم کرتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں۔ یہ اثر ہوتا ہے اور چند منٹ بعد فوت ہوجاتے ہیں۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محبت اور یہ عشق سب سے بڑی گواہی ہے جو غیرعرب قوموں نے آپؐ کے لیے دکھایا۔ یہ ہے وہ سچی گواہی، عملی گواہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں تو یہ ہے اس کا اظہار۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے اسے یقین کروا دیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کر سکتی جو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کرتے تھے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد30 صفحہ263تا 267 خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 1949ء)

اللہ کے رسول کا یہ محب، خزانچی، نقیب، صاحب الجنة کو دنیا صرف اذان کی وجہ سے پہچانتی ہے۔ مکہ میں تکالیف کا سامنا کرنے پراحد احد کے الفاظ سے پہچانے جانے والا یہ وجود اور مدنی زندگی میں الصلاة الجامعہ اور اذان دینے کا خاصہ لئے دنیا سے رخصت ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ
پس ایک تو یہ ہے کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے اور اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں، جو شروع سے ہی وفا دکھانے والے ہیں ان کا مقام بہرحال اونچا ہے چاہے وہ حبشی غلام ہو یا کسی نسل کا غلام ہو۔ اور یہ وہ مقام ہے جو اسلام نے حق پر رکھا ہے، جو اپنے میرٹ پر رکھا ہے اور ہرایک کو ملتا ہے۔ یہ نہیں کہ کون امیر ہے کون غریب ہے۔ قربانیاں کرنے والے ہوں گے، وفا کرنے والے ہوں گے، اپنی جانیں نثار کرنے والے ہوں گے، ہر چیز قربان کرنے والے ہوں گے تو ان کو مقام ملے گا۔

(خطبہ جمعہ 18؍ستمبر 2020ء۔ الفضل انٹر نیشنل 9؍اکتوبر 2020ء صفحہ 5-9)

(حضرت بلال ؓ کے تفصیلی مناقب کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ 11، 18 و 25؍ ستمبر 2020ء ملاحظہ ہوں۔)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا