سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ؒجب سپین کے کامیاب دورے سے واپس تشریف لائے تو حضور نے فرمایا کہ آج شکرانے کے طورپر جماعت کے لوگ ایک اچھا کام کرنا شروع کریں۔ اس وقت ہمارے صدر محلہ مکرم قاضی عبدالسلام بھٹی تھے۔جب انہوں نے مسجد میں اعلان کیا تو ہم نےحضو رکی خدمت میں لکھا کہ ہم اپنی ساری زندگی میں پانچ وقت نماز ادا کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس پر حضور نے ازراہ شفقت ہمیں بلالیا۔ ہم چارپانچ بچے تھے جو صدر صاحب محلہ کے ساتھ قصر خلافت میں حضور سے ملاقات کے لیے گئے۔حضور کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعدیہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ حضور کا نورانی چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔حضور بار ی باری ہم سب بچوں کو اپنے پاس بلاکرپیار کرتے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔
1984میں ضیاء دور میں خلیفہ وقت کے پاس ڈیوٹی کے لیے ربوہ سے جن خدام کو منتخب کیاگیا خوش قسمتی سے خاکسار بھی ان میں شامل تھا۔ہم چوبیس گھنٹے قصر خلافت میں رہتے اور ڈیوٹی کےساتھ ساتھ حضور کی زیارت کا شرف حاصل کرتےتھے۔جس دن حضور ہجرت کرکے لندن تشریف لے جارہے تھے۔ اس دن میری ڈیوٹی قصر خلافت کے گیٹ پرتھی۔نمازمغرب کےبعد ڈیوٹی شروع ہوئی۔ اس وقت جو افسر حفاظت تھےان کےساتھ دائیں طرف کے محراب کے بالکل سامنے خاکسار ڈیوٹی پرکھڑاتھا۔حضور نے جو آخری خطاب فرمایا وہ خاکسار نے سُنا پھرحضور ہجرت کے لیے تشریف لے گئے۔اس کےبعد جماعت کاجو حال تھا وہ سب کو پتہ ہے۔خلیفہ وقت کی جدائی برداشت سے باہر تھی۔ا س کے بعد میں نے بہت دعائیں کیں کہ اےاللہ! تو ہمیں خلیفہ وقت کے ساتھ ڈیوٹی دینے کا موقع عطا فرما دے۔مجھے شروع ہی سے بہت شوق تھاکہ یہ کام ہو۔ لیکن جب حضور لندن تشریف لے گئے تو اس سلسلے میں میرے جذبات بڑھتے چلے گئےاور اللہ سے باربار دعا کی کہ اللہ میاں! توہی کوئی سبب بنادے۔ بہرحال جب حضور قادیان کےدورے پر تشریف لائے تو خوش قسمتی سے مجھے بھی قادیان جانے کا موقع ملا۔ پہلے دن نماز فجر پرحضور تشریف لائے۔ اتنے طویل عرصے بعد ہمیں خلیفہ وقت کے پیچھے نماز باجماعت ادا کرنے کی توفیق ملی تو اس نماز کا بہت ہی مزا آیا۔میں نے اس رات بیت الدعا میں بہت دعا کی کہ اللہ میاں! میری دو ہی خواہشات تھیں۔ ایک تو یہ کہ خلیفہ وقت کےساتھ ڈیوٹی دوں۔ اور حضور جیسے مقدس وجود کو قریب سے دیکھ لوں۔ شام کو جب حضور کےساتھ مجلس سوال وجواب ہورہی تھی توخاکسار کو حضور کے ساتھ ڈیوٹی دینےاور حضور کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔ الحمدللہ۔نیز اللہ تعالیٰ نے بیت الدعا میں کی گئی دعاؤں کے حوالے سے اتنا فضل کیاکہ پاکستان سے جن لوگوں کو لندن ڈیوٹی کے لیے بھجوانا مقصود تھا خاکسار کو بھی ان خوش نصیبوں میں شامل کردیااور خاکسار ڈیوٹی کے لیے لندن چلاگیا۔
لندن پہنچنے پر حضور نے مجھے فرمایا کہ ماحول سے واقفیت حاصل کریں پھر بعد میں ہفتہ وار ڈیوٹی پر آجائیں۔ میں اپنی ڈیوٹی کے لیے بہت پر جوش تھا مجھے نیند بھی نہیں آرہی تھی۔ رات کو میں پہرے داروں کے ساتھ ہی بیٹھا رہا جو رات کی ڈیوٹی پر تھے ان کےساتھ وقت گزارا۔ نماز فجر کےوقت میں بھی ٹریننگ کی خاطر حضور کو لینےچلاگیا مجھے دیکھ کر حضور بہت خوش ہوئے اورفرمایا کہ آپ سوئے نہیں میں نے عرض کی حضور نیند ہی نہیں آئی۔ حضور نے مجھے اور میرے ساتھ جوپہریدار تھے دونوں کو اکٹھا کھڑا کیا کہ دیکھتے ہیں کہ تم دونوں میں لمبا کون ہے۔ ہم دونوں (تقی اور میں) ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ ایک جیسے ہی ہو۔ قد بھی برابر ہے۔ حضور کو پتلے اور کمزور آدمی کی بجائے صحت مند بندے پسند تھے۔ فجر کی نماز پر بات چیت ہوئی تومجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ حضور کے ساتھ اس طرح بات چیت ہوتی ہے اور ہم حضور کو اتنا قریب سے دیکھیں گےتو وہ جو میری بچپن سے خواہش تھی وہ پوری ہوتی چلی گئی اور میری نائٹ ڈیوٹی ہی لگتی رہی۔
ڈیوٹی کے دوران صبح سیر پر جاتے ہوئے بھی بعض دلچسپ واقعات پیش آتے رہے۔ خاکسار صبح کی نماز کے بعد اکثر حضور کے ساتھ ڈیوٹی پر جاتا تھا۔ اس وقت میں حضور کے آگے آگے بھاگتا تھا اور ایکسر سائز کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ایکسر سائز نہ کی کیونکہ مجھے ہدایت ملی تھی کہ آپ جب ڈیوٹی پر جاتے ہیں تو ایکسر سائز بالکل نہیں کرنی۔
جب حضور واپس گاڑی میں بیٹھنے لگے تو حضور نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔ آج آپ نے ایکسر سائز نہیں کی۔ پہلے تو میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور حضور میری طرف دیکھتے رہے کہ میں نے جواب نہیں دیا تو پھر مجھے بتانا پڑا کہ حضور مجھے ہدایت ملی ہےکہ آپ ایکسر سائز نہیں کرسکتے۔ اس پر حضور نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ کیوں ایکسر سائز کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ آپ کو ایکسرسائز کرنی چاہیے۔ ایکسر سائز کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ سردی بڑی ہوتی تھی تو اس سے جسم گرم ہوجاتا تھا اور سردی کی شدت میں کمی آجاتی تھی۔ ہم تو پاکستان سےگئے تھے اور لندن کی آب وہوا میں صبح بہت ٹھنڈ ہوتی تھی توا س وجہ سے بھی ایکسر سائز کیاکرتےتھےاور فٹ رہتے تھے۔ حضور نے دوسروں کو بھی ایکسر سائز کی ہدایت فرما دی۔ یہ میرے لیے بڑا سرپرائز تھا۔ اس کے بعد میں نے باقاعدہ ایکسر سائز شروع کردی۔ ہم حضور کے آگےآگے بھاگتے تھے۔ اگر میری ڈیوٹی پیچھے لگتی تو میں پیچھے ایکسر سائز کرتا تھا۔ ایکسر سائز کے دوران اکثر ایسا ہوجاتا کہ جنگل جس میں بے شمار درخت تھے۔ جنگل تو نہیں کہنا چاہئے بلکہ وہ ایک باغ تھا، ایک پارک تھا جس کے اندر سے ہم گزرتے تھے وہاں درخت بہت زیادہ تھے لیکن اچانک کہیں سے کوئی نہ کوئی بندہ نکل آتاتھا۔ ہم آگے جاتے ہوئے سائیڈز پر دیکھ رہےہوتے تھے توجہاں کوئی بندہ نکلتا تھا، میں وہیں کھڑا ہو جاتا تھا اور وہاں کھڑے ہوکر جمپنگ شروع کردیتا تھا۔ جب حضور بالکل قریب آکر گزر جاتے تو پھر اس ٹریک کو چھوڑ کر بھاگ کر آگےگزرجاتے اس لیے کہ اگر وہ بندہ کھڑا رہے اور خدانخواستہ کوئی شرپسندی کا واقعہ ہو جائے۔
حضور کی طرف سے آدھا لٹر دودھ ہر سیکیورٹی گارڈ کو ملتاتھا۔ حضور کی طرف سے اس بابرکت تحفہ پر ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ یہ حضور کی طرف سے تبرک ہے اور کبھی کبھی حضور کی طرف سے بعض اشیاء بھی تبرک کے طورپر آجاتی تھیں۔ ۔ حضور چاکلیٹ بھی دیاکرتےتھے۔
حضور جب سیر کے لیے تشریف لے جاتے تو ہم روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑ ے کرلیاکرتےتھے۔جو کہ حضور وہاں پرندوں کو ڈالا کرتےتھےاور مز ے کی بات یہ ہے کہ وہ پرندے بھی حضور کی آمد کے لیے بے چین ہوا کرتےتھےکہ جیسے ہی حضور وہاں پہنچتے تو وہ پرندے بھی حضور کے ارد گرد جمع ہوجاتےاور حضور انہیں روٹی کے ٹکڑ ےڈال دیتے تھے۔
ایک رات میں نے خواب دیکھاکہ میں لندن میں بیٹھاہوں تو دوبندے آتے ہیں جو دیوار کے اندر سے گزرجاتے ہیں۔میں اندر بھاگتا ہوں کہ یہ اندر کیسے چلےگئے۔ دروازہ کھولتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ حضور اتنی دیر میں ان کےساتھ نیچے اُترتےہوئےآرہےہیں اور ایک بندہ اُوپر سیڑھیوں پر کھڑا ہے جس کی طرف میں نے توجہ نہیں کی۔میں حضور کی طرف متوجہ تھا۔ حضور نکلتےہی مسجد فضل سے دائیں جانب ہوگئے اور حضور اُن سے باتیں کررہے ہیں۔میں خواب میں بہت پریشان تھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔بہرحال میں چپ چاپ نیچے چلتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد نقشہ بدلتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک تخت کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے ہیں تووہ دوسرے صاحب جو حضور حضور کہہ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ لو اپنے پوتے سے ملو۔ جو کام اسکے سپرد تھا وہ اس نے کامیابی سے مکمل کردیا ہے۔اس پر گھبراکر میری آنکھ کھل گئی اور پھر مجھے احسا س ہوا کہ یہ خواب تو حضور کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔تو بہر حال میں نےصدقہ دیا۔ بہت پریشان ہوا۔ میں نےسید صہیب احمد صاحب کو اس خواب کا گواہ بنایا اور ان کو پاکستا ن میں فون کرکے بتایا کہ میں نے یہ خواب دیکھاہے۔ تو انہوں نے کہا کہ حضور کو لکھو، میں نے کہا کہ میں نہیں لکھو ں گا۔ بہرحال میں نے اپنی خواب حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھ دی تھی۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع کی بے شمار یادیں ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضور کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں آپ کی تمام نیک یادوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(طارق محمود ناصر۔ واشنگٹن ڈی سی، امریکہ)