• 27 اپریل, 2024

خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ (حضرت مسیح موعودؑ)

یاد رکھنا چاہیے کہ عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
دورانِ گفتگو مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ: ’’دشمن بد اندیش صرف عداوت کے سبب ہماری ہر بات اور ہر فعل پر اعتراض کرتا ہے، کیونکہ اُس کا دل خراب ہے۔ اور جب کسی کا دل خراب ہوتا ہے تو پھر چاروں طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ یہ نادان کہتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں اور کچھ کام نہیں کرتے‘‘۔ (یعنی آپ کے متعلق کہا کہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہے کوئی کام نہیں کرتے) ’’مگر وہ خیال نہیں کرتے کہ مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دَم سے کافر مریں گے۔ یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعے سے تمام کام کرے گا۔ اگر مَیں جانتا کہ میرے باہر نکلنے سے اور شہروں میں پھرنے سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے تو مَیں ایک سیکنڈ بھی یہاں نہ بیٹھتا۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ پھرنے میں سوائے پاؤں گھسانے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں‘‘۔ فرمایا ’’کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا۔ راستے میں ایک فقیر نے اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اُس سے پوچھا کہ تو ایک بے سروسامان فقیر ہے تُو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ مَیں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلہ میں جنگ کروں گا۔ بادشاہ نے کہا، مَیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔ غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانے میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس واسطے اُس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ اُن کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں ہے۔ مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر9 صفحہ28-27۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

پس یہ دعا کے مضمون کے چندنمونے ہیں جو مَیں نے آج آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کے مضمون کو سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر خدا تعالیٰ کی ذات ہو، اُس کی رضا کا حصول ہو۔ ہر آسائش میں بھی اور ہر مشکل میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس سے دعائیں مانگنے کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں۔ ہم اُس روح کو سمجھنے والے ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رشتہ بیعت جوڑ کر ہم پر کیا ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں۔ اور یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اب ہمارا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں۔ ان دنوں میں جب مخالفینِ احمدیت کی طرف سے حملے شدت اختیار کر رہے ہیں، جماعت کی حفاظت کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر شر اُس پر الٹائے اور جماعت کی ہر آن حفاظت فرمائے۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم۔

اے اللہ! ہم ان مخالفین کے مقابلہ میں تجھے لاتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

رَبِّ اِنِّی مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِرْ۔ اے میرے رب! مجھ پر ظلم کیا گیا ہے۔ تُو ہی انتقام لے۔

رَبِّ کُلُّ شَیءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اے میرے رب! ہر چیز تیری خادم ہے۔ پس مجھے حفاظت میں رکھ۔ میری مدد فرما اور میری حفاظت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔


حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خاص دعا ہے

رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَالْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۔ کہ اے میرے خدا! اسلام پر مجھے وفات دے اور نیکو کاروں کے ساتھ مجھے ملا دے۔

ہمیشہ ہم صالحین کے ساتھ شامل ہونے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول فرمائے۔ ہمیں اُس طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 20؍ مئی 2011ء)

پھر عید کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا:
یاد رکھنا چاہیے کہ عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے۔ اگر کامیابی نہیں تو کون عقل مند ہے جو خوش ہو گا بلکہ الٹا ناکامی پر روئے گا۔ پس عید کو بھی ہمیں اسی طرح دیکھنا ہو گا۔ جب کوئی عید مناتا ہے تو اصل میں وہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ جب یہ کامیابی کا دعویٰ ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا حقیقت میں کامیابی ہے اور کیا اس کامیابی کی وجہ سے اسے حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عید منائے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک دن ہم عید کا مقرر کر کے اس دن ہم اچھے کپڑے پہن لیں، کھانا پینا اچھا کر لیں، ظاہری طور پر رونق لگالیں، شورشرابا کر لیں، دعوتیں کھا لیں اور کھلا دیں۔ ان سب چیزوں میں ہم کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں۔ یہ سارے کام مفت نہیں ہوتے۔ تو جس عید پر ہم صرف خرچ کرتے ہیں اور وہ ہمیں کچھ دے کر نہیں جاتی تو پھر وہ عید نہیں ہو سکتی۔ یا کچھ حاصل بھی کیا تو وقتی خوشی۔ عید تو وہ ہے جو ہمیں کچھ دے کر جائے اور وہ باطنی عید ہے۔ اندرونی عید ہے ۔ دلی عید ہے۔ وہ عید ہے جو ہماری روح کو سیراب کرے، جو ہمیں کچھ دے۔ اور ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور ہونا چاہیے اور یہی حقیقی عید ہے کیونکہ اس میں کامیابی نظر آ رہی ہے۔ روزوں کے بعد یہ عید اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھی ہے تا کہ یہ خوشخبری دے کہ روزے قبول ہو گئے۔ پس عید پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا حقیقت میں ہمارے روزے قبول ہو گئے ؟کیا واقعی میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کی توفیق دی اور کیا واقعی میں ہماری عبادت قبول بھی ہو گئی؟ کیا پتہ کہ جس عبادت کی ہمیں توفیق ملی وہ قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ کئی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جلدی جلدی نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی۔ اس نے پھر جلدی جلدی نماز پڑھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ پھر نماز پڑھو تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی۔ اس نے پھر نماز پڑھی پھر اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تو اس پر اس شخص نے کہا کہ کس طرح نماز پڑھوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آہستگی اور سکون سے نماز پڑھو۔ یہ اصل نماز ہے پس اس کو ہمیں پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو لوگ حقوق العباد ادا نہیں کرتے ان کی نمازیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔

پس جس طرح نمازیں قبول نہیں ہوتیں اسی طرح بعض روزے داروں کے روزے بھی قبول نہیں ہوتے۔ روزوں میں حقوق اللہ کے ساتھ جو حقوق العباد کرنے کا خاص طور پر حکم ہے اگر وہ ہم نے ادا نہیں کیے توکس طرح روزے قبول ہوں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزے رکھنے کی رخصت ہے، مجبوری ہے اور یہ اجازت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے لیکن کیونکہ وہ باقی فرائض اور نوافل اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو روزے نہ رکھنے کے باوجود ثواب سے محروم نہیں رکھتا۔ ایسے لوگ تو عید بھی اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے منا رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر نظر کر کے ان کے کھاتے میں حقیقی عید کی خوشیاں لکھ رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ روزے کی طاقت ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھتے اور افطاری ایسے ذوق شوق سے کرتے ہیں جیسے سب سے زیادہ ان کو ہی روزے کی کمزوری ہو رہی ہے اور پوچھو تو کہتے ہیں کہ روزہ تو فلاں فلاں عذر کی وجہ سے نہیں رکھا، نمازیں بھی کاروباری یا کام کی مصروفیت کی وجہ سےٹھیک طرح نہیں پڑھ سکا ، نوافل بھی ادا کرنے کے لیے نہیں اٹھ سکا نیند بڑی آ جاتی ہے، نیند کا غلبہ آ جاتا ہے، فلاں احکام بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اگر افطاری بھی نہ کھاؤں تو بالکل ہی کافر ہو جاؤں۔ اس حوالے سے لوگوں نے مختلف لطیفے بھی بنائے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر یہ لطیفے آج کل پھیلے بھی ہوئے ہیں اور پرانے زمانے سے ہی پھیلے ہوئے ہیں۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ یہ صرف لطیفہ ہی نہیں ہے حقیقت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور عید والے دن بھی سب سے پہلے آ کر شامل ہو جاتے ہیں کہ عید کے منانے کا سب سے زیادہ ادراک شاید صرف انہیں ہی ہے لیکن اس قسم کے دھوکوں کے ساتھ خدا تعالیٰ دھوکے میں نہیں آ سکتا ،نہ ہی ہمارے نفس کو اس کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پس ہمیں اپنے دلوں پر غور کرنا چاہیے۔ یہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری عید کیسی ہے؟

(خطبہ جمعہ 24؍ مئی 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مئی 2021

اگلا پڑھیں

عید مبارک