• 16 مئی, 2024

انسان کے تین زمانے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے اختتامی خطاب میں فرماتے ہیں :۔
’’اس میں آپ نے انسان کے تین زمانوں کا ذکر فرمایا ہے، عمر کے تین دوروں کا ذکر فرمایا ہے۔ انسانی عمر کا پہلا دور وہ ہوتا ہے جب انسان پیدائش کے بعد سے بچپنے کی عمر میں رہتا ہے جس میں کسی بات کا اس طرح گہرائی میں جا کر علم نہیں ہوتا کیونکہ ابھی تک اچھے بُرے کی تمیز کرنے اور نیکی بدی میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہوا ہوتا۔ پھر اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے۔ اس میں قدم رکھتے ہی نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور جو مرضی چاہیں کریں یہاں یورپ میں بھی خاص طور پر ٹین ایجر (Teenager) جنہیں کہتے ہیں وہ اس عمر کو پہنچتے ہی اپنے آپ کو ہر چیز سے بالا مخلوق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی انہیں بیہودگیوں کی وجہ سے آج کل اخباروں میں بھی آ رہا ہے، ان کے متعلق قانون بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یعنی پہلے تو اس معاشرے نے خودہی ان کو چھٹی دی، معاشرے نے ان کو آپے سے باہر کر دیا اور نفس امارہ کو کھلی چھٹی مل گئی یعنی وہ حِس ہی ختم ہو گئی جن سے بنیادی اخلاق کا علم ہو جس کی وجہ سے بُرائی اور اخلاق سوز حرکتیں غالب آنے لگ گئیں۔ جب یہ حِس ختم ہو جائے تو پھر پتہ نہیں لگتا کہ اخلاق کیا ہیں، بدی کیا ہے، بُرائی کیا ہے۔ اور جب یہ عادتیں پکی ہو جائیں تو پھر جتنا مرضی زور لگا لیں کم از کم ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے، کسی نہ کسی رنگ میں یہ بُرائیاں موجود رہتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو۔ کیونکہ ہمارے بچے بھی یہیں اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور بعض دفعہ معاشرے کی ان برائیوں کے سیلاب میں وہ بھی بہہ جاتے ہیں۔ چاہے چند ایک ہی ہوں،لیکن چند ایک بھی کیوں ہوں؟ اور صرف ابتدائی نوجوانی کی عمر کے لڑکے نہیں بلکہ بعض دفعہ اچھے بھلے شادی شدہ بھی جن کے بچے بھی ہوتے ہیں ان بُرائیوں میں پڑ جاتے ہیں اور بجائے بچوں کے حقوق ادا کرنے کے اپنی رقمیں شراب اور جوئے اور دوسری بُرائیوں اور نشوں وغیرہ میں ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا کہ ان لوگوں نے بھی اپنی زندگی کا مقصد ضائع کر دیا۔ پھر تیسری قسم کے لوگ ہیں جو بڑھاپے میں داخل ہوگئے اور بعض کو خیال آ بھی گیا چلو اب اس عمر میں آ رہے ہیں، نیکیاں کر لیں۔ تو فرمایا کہ اعصاب اتنے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں کہ اب وہ اس قابل بھی نہیں رہتے کہ نیکیوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کر سکیں جن کی جوانی میں توفیق مل سکتی ہے۔ تو اس طرح زندگی یونہی بے مقصد گزر گئی آخر کو وفات کا وقت آ گیا۔ تو فرمایا کہ بچہ تو پھر بڑوں کی نقل کر لیتا ہے،بعض دفعہ نقل میں دیکھا دیکھی نماز وغیرہ پڑھ لیتا ہے لیکن جب انسان بوڑھا ہو جائے تو اس سے بھی رہ جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بچپن اور بڑھاپے کے زمانے، عمر کے یہ حصے جو ہیں ایسے ہیں جن میں انسان کی پیدائش کے اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے اس لئے صرف جوانی کا زمانہ رہ جاتا ہے۔ اگر اس وقت کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر سکتا ہے اور بندوں کے حقوق کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر سکتا ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنی ہے، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شمار ہونا ہے، اپنی نسلوں کے نیکیوں پر قائم رہنے کی ضمانت حاصل کرنی ہے تو جوانی کی عمر سے لے کر بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے خدا کے دیئے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔

(اختتامی خطاب 2004ء۔ بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جون 2021