• 16 مئی, 2024

تم دوسروں کے سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے

تم دوسروں کے سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے، قربِ الٰہی اُس کے فضل سے ملتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت میاں عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد عمر صاحب جو قادیان کے رہنے والے تھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدمہ میں حضور گورداسپور تشریف لے گئے اور بوجہ روزانہ پیشیوں کے حضور نے وہاں قیام فرما لیا۔ میری عادت تھی کہ مَیں پہلے کھانا نہیں کھایا کرتا تھا بلکہ حضور جب کھانا کھا لیتے تو پھر کھایا کرتا تھا۔ سارے کا سارا کھانا پکوا کر بھجوا دیا کرتا تھا۔ یہ کھانا پکواتے تھے مہمانوں کا بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی، لیکن اپنے لئے نہیں نکالتے تھے، سارا بھجوا دیتے تھے۔ ایک دن مَیں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو تاکید کی کہ میرا کھانا یہاں لے آنا مگر اُس دن خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ کئی دوست تھے، وہ سب کھانا کھا گئے اور میرے واسطے کچھ بھی نہیں بچا۔ مَیں حافظ صاحب سے غصے ہو گیا اور یونہی سوگیا۔ صبح حضور نے آواز دی کہ کیا کھانا تیار ہے۔ حافظ حامد علی صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ ابھی تو کھانا پکانے والا ہی نہیں اُٹھا اور ہم سے غصّہ ہیں۔ پھر حضور نے کھڑکی کی طرف سے آواز دی۔ کھڑکی چوبارے کی تھی اور باورچی خانے کے سامنے تھی مگر مَیں نے پھر بھی آواز نہ دی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دے رہے ہیں انہوں نے پھر بھی جواب نہیں دیا)۔ اس پر حضور نے پھر آواز دی مَیں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ پھر حضور خود تشریف نیچے لے آئے اور فرمایا کہ‘‘کاکا’’آج کیا ہو گیا ہے، کھانا کس طرح تیار کرو گے؟ اس پر حافظ حامد علی صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! یہ رات سے ناراض ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ حضور کے کھانے کے بعد میرا کھانا لانا، مگر چونکہ کھانا بچا نہیں تھا اس لئے اس کو نہ دے سکا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کو پہلے دے دیا کرو۔ اُس نے عرض کیا(حافظ حامد علی نے) کہ یہ پہلے نہیں لیتا۔ پھر حضور نے حافظ صاحب کو کہا کہ اس کے لئے ایک سیر دودھ روزانہ لایا کرو۔ اُس بات کو سن کے مَیں مچلا بنا ہوا سو رہا تھا۔ مَیں فوراً اُٹھا اور عرض کی کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کھانا تیار ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی آگ جلا کر آدھا گھنٹہ گزرنے سے پہلے کھانا تیار کر دیا۔ جب حضور کے پاس کھانا گیا تو مَیں بھی اوپر چوبارے پر چلا گیا۔ حضور نے پوچھا تم نے کیا طلسمات کیا ہے؟ کیا جادو کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا پھر بتاؤں گا۔ دوسرے دن صبح جب مہندی لگانے کے لئے گیا تو فرمایا کل کیا جادو کیا تھا کہ کھانا اتنی جلدی تیار ہو گیا۔ چونکہ حضور اکیلے تھے مَیں نے حضور سے عرض کیا کہ دراصل خالی گوشت پک رہا تھا، گوشت رکھ کے تو ہلکی آنچ مَیں نے رکھ دی تھی، اور تیز آگ بند کی ہوئی تھی۔ اُس وقت جب آپ نے کہا تو مَیں نے جلدی سے سبزی ڈالی اور کھانا تیار ہو گیا۔ حضرت صاحب اس سے بڑے ہنسے اور خوش ہوئے۔

(مأخوذ از روایات حضرت میاں عبدالرحیم صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد8 صفحہ228تا230)

حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب ولد شیخ عمر بخش صاحب گوجرانوالہ کے ہیں۔ یہ کہتے ہیں 1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ سالانہ جلسے کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے، نماز ظہر کا وقت تھا اور نمازی جمع تھے۔ حضور نماز ادا کرنے کے بعد تقریر فرما رہے تھے۔ ایک شخص اُس وقت باہر سے آیا اور دوستوں کے سر سے پھاندتا ہوا حضور کے قرب میں چلا گیا۔ (اوپر سے پھلانگتا ہوا آیا، آگے چلا گیا) اُس کی اس جدو جہد میں ایک دوست کی پگڑی اُتر گئی، ٹھوکر لگی جو بیچ میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے کسی کی پگڑی اُتر گئی اُس سے، اور اُس نے حضور کو شکایتی رقعہ لکھ دیا۔ حضور اُس کو پڑھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور گھر کی کھڑکی کے پاس پہنچ کر حضرت مولانا نورالدین صاحب کو بلایا اور کھڑکی کے پاس چند باتیں کر کے اندر تشریف لے گئے۔ مولوی صاحب واپس آ کر کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع کی۔ تقریر تو دس پندرہ منٹ کی کی، مگر شروع کے مطلب کے الفاظ مجھے آج بھی من و عن یاد ہیں۔ حضور نے فرمایا (حضرت خلیفہ اول نے) کہ دیکھو آج مَیں تمہیں ایک خوفناک بات سناتا ہوں۔ خود نہیں، بلکہ مامور کیا گیا ہوں (خود نہیں بتا رہا مَیں، بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے) کہ یہ بات بتا دو۔ تمہیں بتاؤں کہ آج ہمارا امام دعا کر رہا ہے کہ خشک ڈالی مجھ سے کاٹی جاوے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو کہا کہ آج مَیں یہ دعا کر رہا ہوں کہ جو خشک ڈالیاں ہیں وہ مجھ سے کاٹی جائیں۔ جو اپنے ایمان میں مضبوط نہیں ہونا چاہتے وہ مجھ سے کٹ جائیں۔ پھر حضرت خلیفہ اوّل نے کہا یہ بھی آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ تم دوسروں کے سر کچل کر خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتے، قربِ الٰہی اُس کے فضل سے ملتا ہے۔

(ماخوذ ازروایات حضرت میاں شیخ مشتاق حسین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد11 صفحہ329)

لوگوں کے سروں سے پھلانگتے ہوئے جاؤ، کسی کو تکلیف دو، کسی کو ٹھوکر مارو کہ قریب پہنچ کر میں زیادہ قرب حاصل کر لوں گا۔ تو فرمایا کہ لوگوں کو تکلیف دینے سے قرب نہیں ملا کرتا، قرب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اُس فضل کو تلاش کرو۔ پس آج بھی بعض دفعہ مَیں نے دیکھا ہے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی پھلانگتے ہوئے آگے آنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کو احتیاط کرنی چاہئے۔ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔ کسی دوسرے کی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ اور جلسے کے دنوں میں کیونکہ رَش ہوتا ہے اس لئے جو پہلے آنے والے ہیں وہ آگے آکر بیٹھ جایا کریں تا کہ پیچھے سے آنے والے آرام سے بیٹھا کریں، بجائے اس کے کہ بیچ میں جگہ خالی ہو اور پھر لوگوں کو پھلانگ کر آنا پڑے۔

حضرت غلام محمد صاحب، یہ نارووال کے تھے پولہ مہاراں کے۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسہ 1904ء میں شمولیت کے لئے خاکسار بمع دیگر احمدیان چوہدری محمد سرفراز خان غیر مبائع سکنہ بدو ملہی اور میاں چراغ دین صاحب مرحوم ستواڑو، چوہدری حاکم سکنہ منگولہ اور یہ سارے لوگ بہت سارے جو تھے رات کو امرتسر گاڑی پر پہنچے۔ کہیں رات کو کسی جگہ بٹالے میں اترے۔ کسی سید کی مسجد میں رات گزاری۔ پھر صبح قادیان پہنچ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دالان میں تقریر فرما رہے تھے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا گھر ہے جہاں آج کل، یہیں پہلے مہمان خانہ ہوتا تھا۔ تقریر سورۃ بقرۃ کے رکوع نمبر ایک اور سورۃ دھر کی تفسیر تھی۔ نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، نفسِ مطمئنہ کی تشریح تھی۔ یعنی نفسِ امارہ وہ ہوتا ہے جب انسان گناہ ہی کرتا ہے۔ تو نفسِ امّارہ غالب ہوتا ہے۔ نفسِ لوّامہ گناہ بھی کرواتا ہے اور نیک کام بھی، اور بعض بعض دفعہ نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی باہمی لڑائی رہتی ہے۔ کبھی گناہ کی حالت غالب کر لیتی ہے، کبھی نیکی کی۔ نیکی غالب ہو جانے پر، اگر مکمل طور پر نیکی غالب آ جاتی ہے جب اور گناہ دور بھاگ جاتا ہے تو پھر نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے۔ انسان گناہ نہیں کرتا بلکہ نیکی سے ہی واسطہ رہتا ہے۔ اُس صورت میں پھر جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے۔ نفسِ امارہ و نفسِ لوامہ کی کُشتی ہوتی ہے۔ یعنی برائی کو ابھارنے والا نفس اور پھر اس پر ملامت کرنے والا نفس جو ہے وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ جیت گیا، کبھی وہ جیت گیا۔ کبھی وہ اوپر ہوتا ہے کبھی وہ نیچے، کبھی وہ اوپر کبھی وہ نیچے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد آیت اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا (الدھر: 6) تلاوت فرمائی کہ خدا کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو ایسے پیالے پیش کئے جائیں گے جن میں کافور کی خاصیت ملی ہوئی ہو گی۔ اس تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ جس طرح کافوری شربت ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، اسی طرح جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جاوے، اطمینان ہو جاتا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا (الدھر: 18) کہ اور اس میں ان پیالوں میں پلایا جاتا ہے جس میں زنجبیل ملی ہوئی ہو گی۔ پھر فرمایا کہ جس طرح زنجبیل کا شربت لذیذ ہوتاہے ایسا ہی نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جانے پر نیکی کی لذت حاصل ہو جاتی ہے۔ بدی کی طرف خیال بھی نہیں جاتا۔

(مأخوذ از روایات حضرت غلام محمد صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ172، 173)

پس یہ روایت مَیں نے خاص طور پر اس لئے بھی لی تھی کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کو کس طرح سنتے تھے؟ کس طرح اُن سے استفادہ کرتے تھے؟ اور کس طرح اُن کو یاد رکھتے تھے؟ پھر بڑے سادہ الفاظ میں آگے بیان بھی کر دیا کہ دوسروں کو سمجھ بھی آ جائے۔ پس اسی سوچ کے ساتھ ہمارے یہاں جلسے پر آنے والے ہر شخص کو جلسے میں شامل ہو کر تقاریر کو سننا بھی چاہئے اور اُن سے علمی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے، روحانی فیض بھی حاصل کرنا چاہئے اور یاد بھی رکھنا چاہئے، تا کہ پھر آگے اس علم اور روحانیت کو پھیلانے والے بھی بنیں۔

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جون 2021