مکرم میاں احمددین صاحب (ہو میو ڈاکٹر) کوئٹہ
خاکسار کے والد مکرم احمددین بٹ صاحب ہومیو ڈاکٹر (جو عرفِ عام میں بھائی اور بھائی احمد دین کے نام سے یاد کئے جاتے تھے) ابن مکرم علم الدین صاحب کوٹلی پٹھاناں پنجاب۔ پاکستان میں 1911ء میں پیدا ہوئے۔ والدہ کی وفات کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تو ہندوستان چلے گئے وہاں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ علیہ السلام کی کتابیں مل گئیں مطالعہ کیا تو سلسلہ کی حقانیت روشن ہو گئی 1930ء میں انیس سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ہاتھ پر بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ 1935ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد حکومت نے کوئٹہ رہائش کی کھلی اجازت دے دی تو آپ کوئٹہ آگئے اور کیفے سٹینلے میں بیکر کی ملازمت کرلی ۔ کچھ عرصے بعد کچھ احمدی احباب کی دعوت پر ان کی ٹیکسٹائل مل میں ڈیزائنر کی ملازمت کی ۔ اکتوبر 1947ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے قادیان کی حفاظت کے لئے رضاکار انہ طور پر جانے والوں کے نام مانگے تو کوئٹہ سے دس احباب نے لبیک کہا جن میں میرے والد صاحب میاں احمد دین صاحب بھی شامل تھے ۔
(تاریخ احمدیت جلد10 صفحہ116)
حضور ؓ کے ارشاد پر دسوں والنٹئیر کوئٹہ سے لاہور پہنچے۔ وہاں دوسرے شہروں سے بھی قادیان جانے کے خواہش مند احباب آگئے۔ اس سفر کے لئے جماعت نے بتیس لاریوں کا انتظام کیا تھا مقصد یہ تھا کہ واپسی پر قادیان سےپاکستان آنے کا ارادہ رکھنے والوں کو ساتھ لایا جا سکے۔ یہ قافلہ 2 اکتوبر 1947ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی دعاؤں کے ساتھ لاہور سے روانہ ہؤا۔
حضور نے فرمایا: ’’مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس قافلے کے ساتھ کوئی خطرناک حادثہ پیش آنے والا ہے اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو‘‘
(تاریخ احمدیت جلد10 صفحہ116)
دعائیں کرتے ہوئے سفر کررہے تھے دس بجے ہندوستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ بٹالہ کے راستے میں بہت وحشت اور ویرانی تھی سڑک کے دونوں طرف کئی جگہ دلخراش مناظر دیکھے۔ انسانی لاشوں سے اُٹھنے والی بدبو، انہیں نوچتے ہوئے گدھ اور کتے، پناہ کی تلاش میں خستہ حال مسلمانوں کے لُٹے پٹے قافلے، ا نتہائی تکلیف دہ حالت تھی۔ لمبے سفر کے بعد جب قافلہ کے بٹالہ پہنچنے میں قریباً ایک میل باقی تھا ہندوستانی حکام نے آگے جانے سے منع کردیا۔ کہ راستہ خراب ہے آگے نہیں جاسکتے رُک کر اگلے حکم کا انتظار کرنے لگے شام ہوگئی ماحول کی دہشت بڑھنے لگی پھر رات ہوگئی کوچ کا حکم نہ ہؤا بلکہ رات وہیں گزارنے کا کہہ دیا گیا۔ وہ بالکل نہتے تھے اور دشمنوں کے نرغے میں تھے نیند تو کیا آتی دعائیں مانگتے رہے کہ اللہ خیر کرے۔
صبح ہوئی تو یہ خبر آئی کہ بارش کی وجہ سے راستے خراب ہیں آگے نہیں جاسکتے۔ واپس لاہور چلے جائیں ورنہ ہندو سکھ زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ جو قادیان جانے کی آرزو لے کر آئے تھے شدید مایوس ہوئے مگر کیا کرسکتے تھے منت سماجت کا اثر نہ ہؤا۔ پھر یہ اجازت مانگی گئی کہ واپسی پر پناہ گزینوں کو ساتھ لے جا سکتے ہیں کچھ تامل سے اجازت مل گئی جب نحیف ونزار پناہ گزینوں کو علم ہؤا کہ وہ پاکستان جا سکتے ہیں تو پتا نہیں کہاں سے ان میں اتنی طاقت آگئی کہ تیزی سے لاریوں پر چڑھ دوڑے سب لاریاں بھر گئیں وہاں سے روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ارد گرد لمبی گھاس اور جھاڑیوں میں چھپے ہوئے مشین گنیں اور برین گنیں لئے ہوئے مسلح ہندوؤں اور سکھوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ سب دہل کے رہ گئے ۔ قیامت کا سماں تھا آن کی آن میں بیسیوں پناہ گزین شہید ہوگئے۔ وہاں سے لاریاں روانہ ہوئیں قافلہ آگے بڑھ رہا تھاگولیاں مسلسل برس رہی تھیں زخمیوں کی چیخ وپکار اور دم توڑتے انسان۔ انتہائی تکلیف دہ حالت تھی۔ کچھ دور جا کر لاریاں اچانک رُک گئیں کیونکہ راستہ لوہے کے بڑے بڑے پہئے رکھ کر بند کردیا گیا تھا اور ان پر پھر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی اس حملے میں مکرم عیسیٰ جان صاحب زخمی ہوگئے اچانک تین ملٹری ٹرک آکر عین اس جگہ جہاں ان کے ٹرک روکے گئے تھے ٹھہر گئے اگلے اور پچھلے ٹرک میں سے چند مسلح نوجوان اترے اور رائفلیں اٹھا کر اور ان کے درمیان والے ٹرک جن میں ہندو سکھ مرد اور عورتیں بیٹھی تھیں کی طرف پھیر دیا اور ڈرایا کہ ہم تم کو ماردیں گے اس پر ان ہندوؤں اور سکھوں نے مورچے والوں کو اپنے ہاتھوں کے اشارے سے منت سماجت کی کہ فائرنگ بند کردیں چنانچہ ان کی یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی اور فائرنگ رک گئی ایک فوجی نوجوان نے فوراً سڑک پر سے روکاوٹیں پیچھے ہٹا دیں پھر لاریوں کو اشارہ کیا کہ فوراً نکل جاؤ چنانچہ ڈرائیوروں نے فوراً لاریاں روانہ کردیں اور جب وہ واہگہ پہنچے تو پھر غیر مسلم فوجیوں نےان کا استقبال اس طرح کیا کہ فوراً رائفلیں تان لیں اور فائرنگ کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بلوچ رجمنٹ بھیج دی اس طرح ان وحشیوں کے ارادے خاک میں مل گئے اس طرح یہ قافلہ بخیریت واہگہ سے آگے نکل کر لاہور پہنچ گیا۔
بعد میں پتا لگا کہ اس رات قادیان پر حملہ کرنا تھا اس لئے روکا گیا کچھ عرصہ لاہور میں گزارنے کے بعد لاہور سے کچھ فوجی ٹرک ہندوؤں اور سکھوں کے خاندانوں کو ہندوستان لے جارہے تھے تو جماعت نے ہر ٹرک میں تین تین چار چار احمدی احباب کو بھی سوار کر دیا تاکہ قادیان جا سکیں اس طرح چند لوگ جن میں میرے والد صاحب بھی تھے سب دوست بغیر کسی رکاوٹ کے قادیان پہنچ گئے اور وہاں پر قادیان کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ اس دوران قادیان پر حملہ ہؤا اور ہندوستانی فوجی اسلحہ کی تلاش میں قادیان پہنچے لیکن خدا کے فضل سے ہندوستانی خائب و خاسر واپس ہوئے اور یہ حملہ ناکام رہا اگرچہ وہاں اسلحہ تھا جو دروازوں کے پیچھے رکھا گیا تھا لیکن ان کو نہ مل سکا اور بھی کئی واقعات ہوئے جو ازدیاد ایمان کا ذریعہ ثابت ہوئے ۔ چھ ماہ قادیان میں قیام کے بعد واپس لاہور آگئے اور پھر کوئٹہ پہنچ کر اپنے کام میں لگ گئے ۔ اور بلوچستان ٹیکسٹائل ملز میں کام کرنے لگے۔ اس کے مالی حالات خراب ہونے پر نوکری چھوڑ دی اور اپنی بیکری کی دکان کھول لی۔ اس دوران آپ کے ایک دوست نے کپڑے کی فیکٹری کھولنے کا ارادہ کیا اور آپ کو دعوت شراکت دی آپ نے اس میں کام شروع کردیا لیکن یہ فیکٹری زیادہ دیر نہ چل سکی آپ نے کسی اور کی بیکری میں کام شروع کیا اور اسی دوران آپ نے ہومیو پیتھک کے امتحان کی تیاری کرکے امتحان دیا اور کامیاب ہوگئے اس کے بعد اپنی پریکٹس شروع کردی جو بہت کامیاب رہی ۔ اس دوران مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ نے اپنے ساتھ کام کرنے کی تحریک کی جو آپ نے قبول کرلی اور پھر تاحیات ان کے ساتھ کام کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی قربانی کی بہت توفیق دی جو کماتے جماعت کو چندہ دے دیتے ۔ آپ 1982 میں کوئٹہ سے جلسہ سالانہ ربوہ کے لئے روانہ ہوئے پہلے دن کا جلسہ بخیرو عافیت گزر گیا لیکن رات کو آپ کو کچھ تکلیف ہوئی دوائی لی اور لیٹ گئے اسی دوران دل کا دورہ پڑا اور جان بر نہ ہوسکے موصی تھے بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ آپ کا وصیت نمبر 5800 ہے۔
ہماری والدہ مکرمہ فاطمہ بی بی صاحبہ (1917ء۔ 2004ء) بہت پارسا، صوم و صلوٰۃ کی پابند سلسلے کے ساتھ مخلص بہادر اور محنتی خاتون تھیں۔ ہمارے والد صاحب کی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے والدہ صاحبہ نے نہ صرف ہماری تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی بلکہ محنت کرکے گھر کے اخراجات اُٹھانے میں بھی مدد کرتی تھیں۔ مڈوائف تھیں۔ اپنے کام میں بہت مہارت رکھتی تھیں ۔کوئٹہ کی عورتیں عام طور پر مرد ڈاکٹر کے پاس جانا پسند نہ کرتی تھیں اس لئے آپ ایک مقبول اور مشہور معالج تھیں کہتی تھیں کہ کوئٹہ کا شاذ ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جس کے گھر کے افراد نے آپ سے علاج نہ کرایا ہو۔ سب لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ موصیہ تھیں بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
آپ کی اولاد۔ عبدالخالق بٹ۔ نسیم الدین بٹ۔ منورالدین بٹ۔ امۃ النصیر بٹ ہیں۔
(عبدالخالق بٹ)