• 26 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے

پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے سکھائی ہے۔ وہ دعا یہ ہے کہ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (ھود:48) کہ اے میرے ربّ یقینا مَیں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں کہ جس کے مخفی رکھنے کی وجہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ اور اگر توُ نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو مَیں ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔

یہ دعا سکھا کر اس امر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے۔ مثلاً دعا ہے۔ ایک آدمی دعا کرتا ہے تو اس کے بارے میں بھی شکوے ہو جاتے ہیں کہ مَیں نے تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دعا کی تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہیں کی۔ اللہ سے شکوے ہوتے ہیں کہ اے اللہ کیوں میری دعا قبول نہیں کی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر غور کر رہے ہیں تو یہ بات سامنے رہے گی کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کو تمام آئندہ آنے والی باتوں کا بھی علم ہے۔ اس کو یہ بھی علم ہے کہ ہر ایک کے دل میں کیا ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ کیا چیز میرے بندے کے لئے ضروری اور فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ اس لئے کسی قسم کے شکوے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ وہ اپنے بندے کی بعض باتوں کو اس لئے رد ّکرتا ہے کہ وہ انہیں اس کے لئے بہتر نہیں سمجھتا۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بعض وعدے بھی کرتا ہے، ان کو بعض باتیں سمجھا دیتا ہے لیکن اجتہادی غلطی کی وجہ سے بندہ سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ الفاظ واضح نہیں ہوتے اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی تاویل یا تشریح کچھ اور ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ دعا حضرت نوح ؑ کی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب حضرت نوح ؑ نے بیٹے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اے اللہ میاں !میرا بیٹا تومیرے اہل میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں مجھے سب پتہ ہے کہ کون اہل میں ہے اور کون نہیں اور اس کی تعریف کیا ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں نہ موجودہ حالت میں ایمان ہے اور نہ اس کی آئندہ ایمانی حالت ہونی ہے اس لئے وہ تیرے اہل میں شمار نہیں ہو سکتا اس لئے یہ دعا نہ مانگ۔ پس یہ جواب سن کے حضرت نوح ؑ نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش اور اس کا رحم مانگا۔ تو یہ واقعہ اور دعا سکھا کر ہمیں بھی توجہ دلائی ہے کہ تمہارے ساتھ زندگی میں ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ پس کبھی شکوہ نہ کرنا۔ جس طرح میرے اس نیک بندے نے فوراً اللہ کے پیغام کو سمجھتے ہوئے استغفار کی، اگر کبھی کسی قسم کا امتحان یا ابتلاء آئے تو شکوے کی بجائے استغفار کرو، اس کا رحم مانگو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرو، صدقہ دو اور دعا کرو اور پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑو اور پھر یہ دعا بھی ساتھ کرتے رہو کہ اے اللہ مَیں تیرے سامنے فضول سوال کرنے کی بجائے ہمیشہ تیری رضا پر راضی رہنے والا بنوں۔ کیونکہ یہ حالت اللہ کے فضل سے ملتی ہے اس لئے فضول سوالوں سے بچنے کی بڑی ضرور ی دعا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی نظر اپنے بندے پر پڑتی رہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ ورنہ یہ شکوے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوتے ہیں اور آخر کار بندے کو نقصان پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں جاتا۔ اس لئے ایسی حالت میں خاص طور پر جب انتہائی مایوسی اور صدمے کی حالت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ ہر قسم کے شرک سے، انتشار ذہن سے بندہ محفوظ رہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6 اکتوبر 2006ء ۔ بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جولائی 2021