• 6 مئی, 2024

خاوندوں کی فرمانبردار عورتوں سے اللہ تعالیٰ کے وعدے

حدیقة النساء
خاوندوں کی فرمانبردار عورتوں سے اللہ تعالیٰ کے وعدے

وَمِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّرَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ

(روم: 22)

اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا بنایا اور سارے رشتے اس کے بعد وجود میں آتے گئے۔ اس سے اس رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس رشتے کا ٹھیک ہونا اسی طرح درست ہے جس طرح کسی عالیشان عمارت کی بنیاد کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ جس طرح کسی بھی عمارت کی پائیداری کا انحصار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے اسی طرح ایک پُر امن اور خوبصورت معاشرے کے قیام کے لیے رشتہ ازدواج سے منسلک افراد کی محبت و اخلاص و وفاداری اور باہمی سمجھوتہ بے حد ضروری ہے۔ اگر اس رشتے میں الفت و چاہت کا عنصر عنقا ہو جائے تو گھر جہنم کا نظارہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ خاندانوں کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اولاد کا مستقبل تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ دنیا چلانے کا ایک مروجہ اصول ہے کہ ایک سربراہ ہوتا ہے اور کچھ اس کے ماتحت رہ کر اس کی نگرانی میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے کسی کی اہمیت میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی بلکہ ہر کسی کا اپنا ایک الگ دائرہ کار ہوتا ہے۔ جس کے اندر رہ کر وہ اپنے کام سر انجام دیتے ہیں۔ نگران کے بارے میں عموماً یہ تاثر ہوتا ہے کہ اس کا نام ورتبہ بڑا ہے لیکن اگر غیر جانب دار ہو کر دیکھا جائے تو نگران کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے میں مرد کو گھر کا سربراہ بنایا ہے۔ قرآن پاک میں یہ کہہ کر کہ

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ

(النساء: 35)

مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔

یعنی خدا تعالیٰ نے مرد کو عورت پر نگران بنایا ہے ان فضیلتوں کی بناء پر جو ان کو بخشی گئیں۔ اب جو مرد اس شرط پر پورا نہیں اترتے اس کی نگرانی میں کیسے رہیں یہ ایک ایک موضوع ہے۔ اس وقت ہمیں یہ بات کرنی ہے کہ خاوند کی فرمانبرداری کرنی کیوں ضروری ہے اور اس کے کتنے باثمر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’عورتوں کے لیے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی۔ تو خدا ان کو ہر بلا سے بچاوے گا اور ان کی اولاد عمر والی ہو گی اور نیک بخت ہو گی۔

(مکتوب جلد5:200 بنام اہلیہ حضرت میاں عبداللہ سنوری)

خاوند کی اطاعت گزار بیوی پر خدا کی بھی پیار کی نگاہ پڑتی ہے اور ظاہر ہے خاوند بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پھر اولاد کی نظر میں بھی ماں کی قدرو قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر گھر کا ماحول پُر سکون رہتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی کا ایجنڈہ ایک ہی ہوتا ہے تو اولاد بھی اسی لائحہ عمل پر عمل کرتی ہے اور وہ بھی خود بخود فرمانبراد ہو جاتی ہے جب کہ سرکش اور باغی عورتوں کی اولادیں بھی عموماً سرکش اور باغی ہی ہوا کرتی ہے۔ تو خاوند کی اطاعت کرنے کا ہر لحاظ سے فائدہ ہی ہے۔ حدیث النبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ
’’جس عورت نے پانچوں وقت کی نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو بُرے کاموں سے بچایا اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کی اور اُس کا کہنا مانا، ایسی عورت کو اختیار ہے کہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘

(مجمع الزوائد۔ کتاب النکاح۔ باب فی حق الزوج علی المرأۃ)

اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہر خاوند کی اطاعت کی جائے کیونکہ دین دار اور صالح مرد ہی نیکی اور خیر کی راہ پر چلتا ہے بے دین شوہر کی اطاعت کرنے سے تو ایمان ہی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ تو دراصل اصل میں تو شوہر کی اطاعت بھی ہم اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ اللہ کا حکم ہے تو اطاعت تو حقیت میں اللہ ہی کی ہے اگر وہ کوئی بات خلاف شریعت کرتا ہے تو اس وقت اس کی اطاعت نہیں کرنی۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ شوہر کی اطاعت اور خوشنودی حاصل کرنا تمہارا فرض ہونا چاہیے سوائے ان امور کے جو خلاف شریعت اور رضائے مولیٰ کے خلاف ہوں۔

(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صفحہ256)

کچھ عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ جو کام خود نہ کرنا ہو وہ خاوند کے نام سے منسوب کر کے کہ وہ منع کرتے ہیں یا جو خود کرنا چاہتی ہوں اس پر کہ میں تو نہیں کرنا چاہتی میرے شوہر چاہتے ہیں تو کرتی ہوں جیسے پردہ کی پابندی یا جماعتی پروگراموں میں شرکت۔ لیکن اس وقت یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس سارے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ سسرال والوں یا اپنی تنظیم کی عہدیداران سے تو ہم غلط بیانی کر سکتے ہیں لیکن اس کی تو ہماری سوچ تک رسائی ہے۔ پھر ناشکری کرنا ہے کہ شوہر ساری عمر بھی اچھا سلوک کرتا رہے لیکن اگر اس سے ذرا سی بھی کوتاہی ہو گی تو اس کی ساری عمر کی ریاضت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے کہ مجھے تو کبھی کوئی آرام نہیں ملا۔ یا ہمیشہ اپنے میکے کو یاد کرتے رہنا کہ وہاں بہت آرام تھا۔

حضرت ابن ِعباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’مجھے دوزخ دکھائی گئی، تو میں نے دیکھا کہ اس میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ کفر کرتی ہیں۔‘‘ صحابہؓ نے دریافت کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں! وہ شوہروں کا کفر کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔

(صحیح مسلم: حدیث نمبر: 80)

یعنی شوہر کا احسان نہ ماننا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ ناشکری کی عادت سے بچیں۔ جو بھی آپ کا جیون ساتھی اپنی حیثیت کے مطابق آپ کو لا کر دے رہا ہے اس پر پہلے خدا کی حمد بجا لائیں پھر اس کا شکریہ ادا کریں۔ اس سے اللہ بھی خوش ہو کر اور نوازتا ہے اور شوہر بھی خوش ہوتا ہے کہ میری بیوی میری کوششوں کی قدر کرتی ہے۔

صحابیات کی سیرت اور سیرت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا بار بار اور بطور مطالعہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ہم یہ بات تو بارہا دہراتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بے حد خیال رکھتے تھے اور ان سے بے حد پیار و الفت کا سلوک کرتے تھے لیکن کیا اس کے ساتھ وہ طریق بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنائے تھے۔ اپنا اتنا بڑا شہر اور سب عیش و آرام چھوڑ کر قادیان جو اس وقت بہت ہی پسماندہ اور چھوٹا سا گاؤں تھا اور دنیاوی راحت و آرام حاصل نہ تھا لیکن آپ نے کامل وفا دکھائی اور اسی رنگ میں رنگ گئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رنگ تھا۔ تنگی، ترشی عسر یسر ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔ ہر وقت کی مہمانداری، ہر کسی آئے گئے سے پیار کا سلوک، جماعتی خدمت کے لیے اپنے زیور تک پیش کر دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسن سلوک مردوں کے لیے بطور نمونہ کے ہے تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا ہمارے لیے ایک مثالی بیوی کی مثال ہیں۔

وَاللّٰہِ! سب کے سب ہیں مجسّم نظامِ حق
اے اُمِّ مومنین! تری شان ہے بلند
یہ گھر زمانے بھر میں ہے بیت الحرامِ حق
دامن تمہارا پاک ہے ہر نقص و عیب سے
مخصوص ہے ترے لئے دارالسّلامِ حق
قوموں کی ماں ہے اُن کی ترقی کی جاں ہے تو

(کلام مکرم جناب قاضی محمد ظہور الدین اکمل)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دُوسری جگہ رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اُس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہیے کہ چون چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30)

پھر مزید فرمایا:
’’خاوند کی اطاعت کے حوالے سے بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے اپنی عزت کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں میں داخل ہو جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ اُن پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی اس کے بہت حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گویا بالکل کرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا ہے کہ ان کی خبر گیری کر۔ اس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہے۔دیکھو کہ موچی ایک جُوتی میں بد دیانتی سے کچھ کاکچھ بھر دیتا ہے صرف اس لئے کہ اس سے کچھ بچ رہے تو جورو بچوں کا پیٹ پالوں۔ سپاہی لڑائی میں سر کٹاتے ہیں صرف اس لئے کہ کسی طرح جورو بچوں کا گذارہ ہو۔ بڑے بڑے عہدے دار رشوت کے الزام میں پکڑے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ کیا ہوتا ہے؟ عورتوں کے لئے ہوتا ہے۔ عورت کہتی ہے کہ مجھے زیور چاہیے کپڑا چاہیے۔ مجبوراً بچارے کو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ایسی طرزوں سے رزق کمانا منع فرمایا ہے۔

یہاں تک عورتوں کے حقوق ہیں کہ جب مرد کو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو۔ تو مہر کے علاوہ ان کو کچھ اور بھی دو۔ کیونکہ اس وقت تمہاری ہمیشہ کے لئے اس سے جدائی لازم ہوتی ہے۔ پس لازم ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ30)

شوہر کی عزت و احترام کے حوالے سے ایک اور حدیث جس سے شوہر کی کتنی عزت کرنی چاہیے اس کا انذازہ ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو عورت کو یہ حکم دیتا کہ خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘

(ابنِ ماجہ)

حضرت امّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا، وہ جنّت میں داخل ہوگی۔‘‘

(ترمذی)

عورت اپنے شوہر کے لیے سکون کا مرکز ہوتی ہے۔ مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچے تو اس کا استقبال اور خدمت اچھے اور مسکراہٹ بھرے چہرے کے ساتھ ہو جس کی طرف وہ دیکھے تو اس کی صفائی ستھرائی، حسن اخلاق کی وجہ سے اور دل سے اس کی قدر کرنے والی شخصیت کو دیکھ کر اس کی ساری تھکن دور ہوجائے اور اسے زندگی کا حسن محسوس ہونے لگے۔ اسی طرح حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بہترین بیوی وہ ہے کہ جس کی طرف شوہر نظر اٹھا کر دیکھے تو اس کو خوشی محسوس ہو۔

’’سب سے بہترین عورت وہ ہے کہ شوہر اسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کردےاور جب وہ اس کو حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، اور اپنی ذات اور شوہر کے مال میں جو چیزیں اس کو ناپسند ہوں اس کی مخالفت نہ کرے‘‘

(مسند احمد)

ان سب احادیث و اقتباسات سے ہمیں اپنے جیون ساتھیوں کی عزت و قدر کا بخوبی احساس ہو گیا ہے اور یہ بھی ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنے سے خدا تعالیٰ ہم سے کس قدر خوش ہوتا ہے۔ تو اب ہمارا یہ فرض ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اپنے خاوند کی عزت کریں ان کی اطاعت میں رہیں۔ ان میں اگر کوئی ایسی بات ہے جو ہمیں ناپسند ہے اور ہم کسی عادت سے نالاں ہیں تو بجائے ادھر ادھر بتانے کے اپنے خالق حقیقی کے سامنے جھکیں اس سے دعائیں مانگیں کہ وہ ان عادات و اطوار کو بدل دے۔

مغربی ممالک میں جہاں بظاہر عورتوں کے بہت حقوق ہیں ان عورتوں کے دیکھا دیکھی کچھ مشرقی ممالک کی خواتین بھی جب یہاں آتی ہیں تو اس کلچر سے متاثر ہوتی ہیں اور مردوں سے خوامخواہ مقابلہ بازی کرنے لگتی ہے اور ان کو بار بار یہ دھمکیاں دینا شروع کر دیتیں ہیں کہ ہم پولیس کو بلا لیں گے ہم بچے لے کر الگ ہو جائیں گے یا اسی طرح کے معاملات جس سے بعض مرد ڈر جاتے ہیں اور پھر بیوی کی ہر جائز نا جائز بات مانتے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ عورت ان کے دل سے اتر جاتی ہے اور کبھی اپنے حالات کی وجہ سے اور کبھی اولاد کی وجہ سے وہ ساتھ تو رہتے ہیں لیکن جو آپسی محبت اور دوستی کا تعلق ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور ان کا رشتہ ایسا ہی رہ جاتا ہے جیسے کوئی دیمک زدہ کھوکھلی عمارت جو کسی بھی وقت ڈھ سکتی ہو۔ اور جو مرد یہ سب برداشت نہیں کرتے وہ پھر علیحدگی کو ترجیح دیتے ہیں جس سے سب سے زیادہ نقصان اولاد اٹھاتی ہے۔ وہ اولاد جس کو ماں باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پھر کورٹ کے فیصلوں مین گیند کی طرح ادھر ادھر لڑھکتی رہتی ہے اور آخر کار دونوں سے ہی متنفر ہو جاتی ہے۔ تو خدارا اپنی اولادوں کی خاطر اپنے گھروں کو سکون و راحت کا گہوارا بنائیے۔ اس رشتے کو نبھائیے اور خاوندوں سے دوستانہ تعلقات بنائے رکھیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز بھی اسی طرف ہمیں توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’پس اے احمدی عورتو! تم اپنے اس اعلیٰ مقام کو پہچانواور اپنی نسلوں کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے ان کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کرواور اس طرح سے اپنی آئندہ نسلوں کے بچاؤ کی ضمانت بن جاؤ۔ اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اس کے احکام کو وقعت نہیں دیتے۔ اللہ آپ کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ اپنی آئندہ نسل کو سنبھالنے والی بن سکیں۔ آمین‘‘

(جلسہ سالانہ گھانا 2004ء)

اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کے لیے ہر کوشش کریں اس ودود و لطیف و کریم خدا سے ان صفات کا واسطہ دے کر اپنے جیون ساتھی کے لیے دعا کریں۔ تو وہ خدا یقیناً سب بہتر کر دے گا۔ ان شاء اللہ

رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

(الفرقان: 75)

خدا کرے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرنے والیاں ہوں اپنے خاوندوں کی فرمانبردار ہوں اور اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے والیاں ہوں۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ

(صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جولائی 2022