• 5 مئی, 2024

مسلمان کی تعریف۔ اللہ اور رسول اللہؐ کیا کہتے ہیں

مسلمان کی تعریف۔ اللہ اور رسول اللہؐ کیا کہتے ہیں
جن باتوں سے حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مسلمان ہوئے کیا ہم نہیں ہو سکتے؟

مسلمان کہلانے کا بنیادی نکتہ، اللہ اور رسول پر ایمان ہے باقی سب تفاصیل اور اعمال صالحہ ہیں۔

عالم اسلام کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے ایک سوال یہ ہے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اور کون شخص مسلمان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیونکہ اسی تعریف کے فرق کے نتیجہ میں کفر کے فتاویٰ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جو تھمنے میں نہیں آتا۔ ہر فرقہ کے نزدیک دوسرا فرقہ کافر ہے اور اگر بعض فرقے مل کر کسی کو کافر کہتے ہیں تو دوسروں کے نزدیک وہ کافر ہیں۔ اور یہی بات فسادات پنجاب پاکستان 1953ء کی تحقیقاتی عدالت نے بڑے غور و فکر کے بعد لکھی اور یہ بھی ذکر کیا کہ اگر ہم کسی کو مسلمان کہتے بھی ہیں تو دوسروں کے نزدیک ہم خود کافر ہیں۔ پس تمام مسلمان فرقوں کا اندرونی رشتہ کفر کا ہی ہے۔ اس سوال کو حل کرنے کے لئے ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔

قرآن کس کو مسلمان کہتا ہے؟

قرآن میں رسول کریمﷺ کے لائے ہوئے دین کو اسلام کا نام دیا گیا ہے وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ: 4) (ترجمہ۔ میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کیا ہے) اور اس کے مادہ (س۔ ل۔ م) سے اسم اور فعل کے متعدد صیغوں میں اس کا ذکر آیا ہے۔ قرآن کریم اللہ اور رسولﷺ کو نہ ماننے والوں کو عمومی طور پر کافر قرار دیتا ہے جن میں اہل کتاب بھی ہیں اور مشرکین بھی۔ لیکن کافر کے مقابلہ پر قرآن دو اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ مسلم اور مؤمن۔ اسلام عمومی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے یعنی فرمانبرداری اور اطاعت جیسے مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ (البقرہ: 113) (ترجمہ۔ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو) اور ان معنوں میں اپنے وقت کے تمام نبیوں اور اور ان کے سچے متبعین کو مسلمان کہا گیا ہے۔ جیسے فرمایا هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا (الحج: 79) (ترجمہ۔ اس (یعنی اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا (اس سے) پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی) اور اصطلاحی معنوں میں بھی جیسے فرمایا إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ (الاحزاب: 36) (ترجمہ۔ یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں) رسول کریم ﷺ کے بعد صرف آپؐ کے ماننے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔

سورۃ الحجرات میں اسلام اور ایمان کے فرق کو خوب کھولا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک پہلو سے اسلام محض لفظی اظہار کا نام ہے اور ایمان دل کی کیفیت بیان کرتا ہے ۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ….. (الحجرات: 15) (ترجمہ۔ بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ۔ تو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے لیکن صرف اتنا کہا کرو کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں ۔ جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا) اگلی آیت میں فرمایا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا (الحجرات: 16) (ترجمہ۔ مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کبھی شک نہیں کیا) اس کے بعد جہاد کا ذکر ہے اگلی آیت میں فرمایا يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللّٰہُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ…. (الحجرات: 17) (ترجمہ۔ وہ تجھ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ تو کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتایا کرو بلکہ اللہ تم پر احسان کرتاہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف ہدایت دی) گویا دونوں کی بنیادی اکائی ایک ہی ہے اللہ اور رسول کی قبولیت کا زبانی اظہار اسلام ہے اور پھر یہ اسلام دلی کیفیت کے ساتھ مل کر ایمان میں تبدیل ہو جاتا ہے اس طرح پہلے مرحلہ میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے 2 نام ہیں۔ اسلام کے سچے اقرار کے بعد ایک شخص مؤمن کا نام پاتا ہے۔

قرآن سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اسلام کے مقابل پر ایمان قلبی واردات کا نام ہے اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ (المجادلة: 23) (ترجمہ۔ یہی وہ (باغیرت) لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ رکھا ہے) جو مسلسل ترقی پذیر رہتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں ایمان میں بڑھنے اور بڑھانے کا ذکر کم از کم 9 بار ذکر ملتا ہے مثلا۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ (الفتح: 5) (ترجمہ۔ وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت اتاری تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان میں مزید بڑھیں) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا (التوبہ: 124) (ترجمہ۔ پس وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انہیں تو اس نے ایمان میں بڑھادیا) اسی طرح مؤمنوں کو یہ بھی کہا گیا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ (النسا٫: 137) یعنی اے مؤمنو! اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ یعنی اپنے ایمان کو بڑھاتے چلے جاؤ۔

قرآن نے جہاں رسول اللہ ﷺ کی عالمگیر رسالت کا ذکر کیا ہے وہاں صرف ایمان باللہ اور اور ایمان بالرسول کا مطالبہ کیا ہے قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ (الاعراف: 159) (ترجمہ۔ تو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ۔ ۔ پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاجاؤ) اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیۡرًا ۙ﴿۹﴾ لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُعَزِّرُوۡہُ وَتُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَتُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّاَصِیۡلًا ﴿۱۰﴾ (الفتح: 9-10) (ترجمہ۔ یقیناً ہم نے تجھے ایک گواہ اور بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کے طور پر بھیجا۔ تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو) اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ (النور: 63) (ترجمہ۔ سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں ) اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ (الحديد: 8) (ترجمہ۔ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور خرچ کرو اس میں سے جس میں اس نے تمہیں جانشین بنایا)

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سارے قرآن میں مؤمنوں کو مخاطب کیا گیا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا۔ ۔ ۔ کہہ کر 89 دفعہ خطاب کیا گیا ہے۔ نیز أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ (النور: 32) بھی کہا ہے۔ مگر کسی جگہ بھی مسلمانوں کو خطاب نہیں کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بہت بڑے دائرہ کے اندر ایمان کے متعدد دائرے ہیں نچلے درجہ سے اسلام شروع ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی ایمان کی پہلی پرت کھلتی ہے اور یہی اسلام ایمان کی ساری پرتیں طے کرتے ہوئے اسلام کے آخری دائرہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (البقرہ: 209) (ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم سب کے سب اطاعت (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ) اس میں ایمان والوں کو کلی طور پر اسلام میں داخل ہونے کا حکم ہے۔ اسی لئے رسول کریمﷺ کو اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الأنعام: 163) (ترجمہ۔ مسلمانوں میں سب سے اول) کہا گیا ہے یعنی آغاز میں بھی اول اور آخری بلند ترین درجہ میں بھی اول۔ سورۃ البقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام ایمانیات کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ (البقرہ: 286) (ترجمہ۔ رسول اس پر ایمان لے آیا جو اس کے رب کی طرف سے اس کی طرف اتارا گیا اور مومن بھی۔ (ان میں سے) ہر ایک ایمان لے آیا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر) اور سورۃ النسا٫ میں ان کے انکار کا نام گمراہی رکھا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَالۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَالۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۳۷﴾ (النساء: 137) (ترجمہ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس کتاب پر بھی جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور اس کتاب پر بھی جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو اللہ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخر کا تو یقیناً وہ بہت ہی دُور کی گمراہی میں بھٹک چکا ہے۔)

قرآن کریم کی کئی آیات نیکو کاروں کی متعدد صفات اور مدارج کا ذکر کرتی ہیں اور نیکی کا آغاز ایمان سے کرتی ہیں مثلا لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَالۡمَغۡرِبِ وَلٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَۃِ وَالۡکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ (البقرہ: 178) (ترجمہ۔ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر) اس کے بعد نیک اعمال کا ذکر ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں بھی پہلے مسلمانوں اور پھر مومنوں کا ذکر کیا ہے اور پھر اعمال صالحہ کا۔ فرمایا۔ اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِیۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِیۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَالۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَالۡحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّالذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّاَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۶﴾ (الاحزاب: 36) (ترجمہ۔ یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کئے ہوئے ہیں)

قرآن میں مؤمنوں کی اور بھی بے شمار صفات بیان کی گئی ہیں اور اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا (الانفال: 5) (ترجمہ۔ یہی ہیں جو (کھرے اور ) سچے مومن ہیں) یعنی حقیقی مؤمن کہہ کر ان کے کردار کی نشان دہی کی ہے پس قرآن کی روشنی میں ایک شخص محض اللہ اور رسولﷺ کو قبول کر کے اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اللہ اسے مسلمان کہلانے کا حق دیتا ہے۔ قر آن تو یہاں تک کہتا ہے کہ کوئی سلام بھی کرے تو اس کو غیر مؤمن نہ کہو لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا (النساء: 95) (ترجمہ۔ جو تم پر سلام بھیجے اس سے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے)

اسلام اور ایمان پرقرآن جو تسلی بخش روشنی ڈالتا ہے اس کی عملی تائید سنت رسول ﷺ کرتی ہے

2۔ رسول کریمؐ نے اپنے قول وفعل سے
مسلمان کس کو کہا ہے؟

مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں وہ سب احادیث سے مستنبط ہیں جومختلف پس منظر رکھتی ہیں اور بعض تعریفیں نہیں صفات ہیں۔ تنبیہات ہیں۔ ان پر تعریف کا لفظ صادر نہیں آتا۔ ہمارا یہ مسئلہ سنت رسول حل کر دیتی ہےرسول اللہ ﷺکے دور کی تاریخ واضح طور پر یہ بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر لوگ کس طرح ایمان لاتے تھے اور کیسے مسلمان ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کس بات کا اقرار کراتے تھے کیا تلقین فرماتے تھے اس لحاظ سے یہ ایک کھلی تاریخ ہے جو امت کو بہت سے جھگڑوں سے نجات دلا سکتی ہے۔

حضرت خدیجہؓ، ابو بکرؓ اور علیؓ کیسے ایمان لائے تھے؟ یاد رہے کہ اس وقت تک ابھی صرف سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئی تھیں اور ان میں نبی یا رسول یا قرآن یا توحید کا کوئی لفظ نہیں تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں اور دشمنوں سب کی تفہیم یہ تھی کہ آپ نبی ہیں اور توحید کے منادی ہیں پہلی وحی کے بعد ورقہ بن نوفل سے جب رسول اللہ ﷺ کی پہلی ملاقات ہوئی تو ورقہ نے سارے حالات سن کر کہا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إنَّكَ لَنَبِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ (سيرة ابن هشام باب خَدِيجَةُ بَيْنَ يَدَيْ وَرَقَةَ (1جلد صفحہ238) ترجمہ۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے آپ ﷺ ضرور اس امت کے نبی ہونگے۔ اور حضرت خدیجہ نے بھی یہی کہا أَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ (السيرة النبوية لابن كثير جلد1 صفحہ408) ترجمہ۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ ﷺ اس امت کے نبی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علی ؓ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرمایا۔ فأدعوك إلى اللّٰه وحدهٗ وإلى عبادته، وكفر باللات والعزى (سيرة ابن اسحاق السير والمغازي صفحہ137) ترجمہ۔ میں تمہیں ایک اللہ کی عبادت کرنے اور لات و عزی کا انکار کرنے کی دعوت دیتاہوں۔

حضرت محمد ﷺ کو نبی ماننے کا مطلب ہی توحید کا اقرار تھا۔ اور توحید ماننے کا مطلب محمدﷺکی نبوت کا اقرار تھا چنانچہ جن لوگوں نے اس دعویٰ کو قبول کر لیا وہ مسلم کہلائے اور انکار کرنے والے کافر۔ اور یہ تفریق نبوت کے پہلے دن سے ہو گئی۔ مسلمین اور کافر کا لفظ پہلی دفعہ سورۃ القلم (آیت 36،52) میں آیا ہے جو نزول قرآن کی ترتیب سے دوسری سورۃ ہے رسول کا لفظ پہلی دفعہ سورۃ المزمل میں آیا ہے (آیت 16) جو نزول قرآن کی ترتیب سے تیسری سورۃ ہے۔

بعد میں جوں جوں قرآن مجید نازل ہوتا گیا اور مختلف صداقتوں مثلاً فرشتوں، نبیوں الہی کتب وغیرہ کا اضافہ ہوتا گیا نیز اعمال صالحہ کی تفصیل بیان ہوتی گئی تو وہ ایمانیات کا حصہ بنتی رہی۔ اسی لئے قرآن نے ہمیشہ ایمان کو اعمال صالحہ سے باندھا ہے اور 50 کے قریب آیات میں آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

مگر اسلام کی بنیادی شرائط اللہ اور رسول پر ایمان ہی ہیں۔ چنانچہ حضرت بلال کے تمام دکھوں کی وجہ آپ کا احد احد کہنا ہی تھا۔ کئی مکی صحابہ کو رسول اللہﷺ کی دعوت اسلام کا ذکر کرتے ہوئے سیرت کی کتب میں لکھا ہے قرأ عليهم القرآن، فأسلموا وشهدوا أنه على هدى ونور۔ (سيرة ابن اسحاق السير والمغازي صفحہ:143) ترجمہ۔ آپ ﷺ نے ان پر قرآن پڑھا تو انہوں نے اسلام قبول کیا اور گواہی دی کہ وہ ہدایت اور نور ہے۔

ابتدائی مسلمانوں کے بعد 6نبوی میں حضرت عمر اسلام لائے جب ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہوا تو انہوں نے اپنی مسلمان بہن اور بہنوئی سے پوچھا کہ اسلام کیسے قبول کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا تَشَهَّدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُہٗ ترجمہ۔ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور یہ کہ محمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور یہی فقرات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے دہرائے۔

(سيرة ابن اسحاق السير والمغازي صفحہ184،183)

رسول اللہ ﷺنے اپنے چچا حضرت ابو طالب کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرمایا أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللّٰهِ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قصۃ ابی طالب حدیث نمبر 3884) ترجمہ۔ اے میرے چچا ! ایک مرتبہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہہ دیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ کے حق میں اس کلمہ کو پیش کر وں۔

رسول اللہ ﷺ کا یہی پیغام حج کے موقع پر بھی ہوتا تھا ایک صحابی حضرت ربیعہ اسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلام لانے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو حج کے موسم میں قائم ہونے والے بازاروں میں یہ کہتے ہوئے سنا۔ أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا:لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ تُفْلِحُوا۔ ترجمہ۔ اے لوگو! اس بات کا اقرار کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں تو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ اور آپ کے پیچھے ابو لہب تھا جو کہتا تھا لوگو اس کی بات نہ سنو

(مسند احمد جلد25 صفحہ405 حدیث نمبر 16023)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور فرمایا يَا خَالِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ….. قَالَ:فَخَيْرٌ لِي أَنْ أَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:نعم (السيرة النبوية لابن كثير جلد2 صفحہ189) ترجمہ۔ اے خال! تم کہو لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ۔ اس نے کہا اگر میں لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہوں کو میرے لئے خیر ہو گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا! ہاں۔

حضرت ثمامہ بن اثالؓ نے جب اسلام قبو ل کیا تو کہا فَقَالَ:أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ حدیث نمبر 4372) ترجمہ۔ آپ نے کہا میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد(ﷺ)اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔

حضرت جریر کہتے ہیں کہ میں نے ان باتوں پر بیعت کی بَايَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ ترجمہ۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کی اس بات پر بیعت کی کہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔

نبوت کے 11 ویں سال مدینہ کے 12۔ آدمیوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی اس واقعہ کوبیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے جن الفاظ میں رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی وہ صحابہ کے الفاظ میں محفوظ ہیں۔ بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللّٰہِ شَيْئًا، وَلاَ تَسْرِقُوا، وَلاَ تَزْنُوا، وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلاَ تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب علامۃ الایمان حدیث نمبر18) ترجمہ۔ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کس کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ نہ ہی چوری کرو گے نہ زنا اور نہ ہی اولاد کو قتل کرو گے اور تم دیدہ دانستہ بہتان نہیں باندھو گے۔ اور نہ بھلی بات میں تم نافرمانی کرو گے۔

یہ الفاظ قرآن کی سورۃ الممتحنہ میں ہیں جوبعد میں مدینہ میں نازل ہوئی يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللّٰہِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ (الممتحنہ: 13) شاید یہ الفاظ وحی خفی کے طور پر پہلے نازل ہو چکے تھے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اقرار توحید و رسالت کا ہے اس کے بعد اعمال صالحہ کا ذکر ہے

اس آیت سے 2 آیات پہلے مومنات مہاجرات کے امتحان کا بھی ذکر ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ (الممتحنہ: 11) (ترجمہ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں مہاجر ہونے کی حالت میں آئیں تو ان کا امتحان لے لیا کرو۔ اللہ ان کے ایمان کو سب سے زیادہ جانتا ہے) یہ امتحان کیسے لیا جاتا تھا حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں كان امتحانهنّ أن يشهدن أن لا إله إلا اللّٰه وأن محمدًا عبده ورسوله (تفسیر طبری جلد23 صفحہ328) ترجمہ۔ ان کا امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ گواہی دیتے تھےکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔

یاد رہے کہ قرآن مجید میں کلمہ طیبہ کا اکٹھا ذکر نہیں ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الگ ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ الگ۔ مگر مسلمان ہونے کے لیے رسولِ کریمؐ اسی کا اقرار کراتے تھے کہیں صرف یہ کلمہ طیبہ ہے اور کہیں اس کے ساتھ اَشْھَدُ کے الفاظ ہیں یعنی میں گواہی دیتا ہوں۔ مضمون ایک ہی ہے۔ غالبا وحی خفی سے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائے ہیں۔ اور اس سے بہتر کلمات ہو بھی نہیں سکتے۔

ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اُكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلاَمِ مِنَ النَّاسِ فَكَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةِ رَجُلٍ (صحيح البخاري کتاب الجہاد باب کتابۃ الامام الناس حدیث نمبر 3060) ترجمہ۔ جن لوگوں نے اسلام کا زبان سے اقرار کیا ہے ان کے نام مجھے لکھ دو اور ہم نے ڈیڑھ ہزار مردوں کے نام لکھ کر آپ ﷺ کو دیئے۔

کچھ علما کا خیال ہےکہ یہ واقعہ جنگ احد کا ہے اور بعض کے خیال میں حدیبیہ کا ہے (فتح الباری شرح صحیح بخاری) اس سے واضح ہے کہ جو اپنے آپ کو منہ سے مسلمان کہتا ہے وہ ہمارے نزدیک مسلمان ہے۔

ایک صحابی نے جنگ میں ایک ایسے دشمن کو قتل کر دیا جس نے موت کے خوف سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ دیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دو گے۔

(صحيح البخاري کتاب المغازی باب بعث النبی اسامۃ حدیث نمبر 4269)

ایک اور صحابی نے پوچھا کہ اگر جنگ میں دشمن میرا ہاتھ کاٹ دے اور پھر میرے وار سے بچنے کے لیے دشمن اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ کہہ دےکیا میں اسے قتل کر دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد وہ مسلمان ہو کر مرے گا اور تو کافر ہو جائے گا۔ لاَ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ (صحيح البخاري کتاب المغازی غزوہ بدر حدیث نمبر4019) ترجمہ۔ اسے قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اس درجہ پر ہوجائے گا جو تم کو اس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا اور تم اس کے درجہ پر ہو جاؤ کے جو اس کو اس کلمہ کے کہنے سے پہلے حاصل تھا جس کو اس نے کہا۔

حضرت سعد بن معاذ مدینہ میں اسلام لائے تو اپنے قبیلہ سے کہا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے تم سے بات کرنا میرے لئے حرام ہے ان کی پارسائی کا اتنا اثر تھا کہ اسی روز ان کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔

(سیرت ابن کثیر جلد2 صفحہ184)

مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن سلامؓ حاضر ہوئے اور کہا أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّٰهِ حَقًّا (عيون الأثر جلد1 صفحہ238) ترجمہ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا اُدْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰهِ (صحیح البخاری کتاب الزکوۃ باب وجوب الزکوۃ حدیث نمبر 1395) ترجمہ۔ انہیں اس شہادت کی طرف دعوت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

فتح مکہ کے موقع پر ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے وہ بھی صرف توحید ورسالت کے اقرار سے ہوئے تھے۔

الغرض قرآن کی واضح ہدایات اور سنت رسول اور حدیث و تاریخ اسلام سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم کہلانے کے لئے اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان کا اقرار ہی کافی ہے باقی سب ایمان کے درجات اور مراتب ہیں جس قدر کوئی اعمال صالحہ میں ترقی کرے گا وہ ایمان میں بڑھتاچلا جائے گا اور کسی عمل کی کمی کی وجہ سے اسے کمزور ایمان تو کہا جا سکتا ہے اسے غیر مسلم یا کافر نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا کوئی ایسا قول یا عمل جس کے ذریعہ وہ اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہو اسے بھی قبول کیا جائے گا جیسے سلام کرنے کا ذکر گزر چکا ہے۔

ایک جنگ میں دشمنوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اَسْلَمْنَا (ترجمہ۔ ہم نے اسلام قبول کیا) کی بجائے صَبَأْنَا صَبَأْنَا (ترجمہ۔ ہم نے اپنا دین بدل ڈالا۔ ہم نے اپنا دین بدل ڈالا) کے الفاظ کہ دیئے مگر حضرت خالد نے ان کی بدنیتی پر محمول کر کے لڑائی جاری رکھی تو رسول اللہﷺ نے ان پر ناراضگی فرمائی۔

(صحيح البخاري کتاب المغازی غزوہ بعث النبی خالد حدیث نمبر 4339)

جنگ کے دوران اگر کہیں سے اذان کی آواز آتی تورسول اللہ اس قوم پر حملہ نہ کرتے فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ (صحيح البخاري کتاب الاذان باب ما یحقن بالاذان من الدما٫ حدیث نمبر 610) (ترجمہ۔ اگر آپ ﷺ اذان سنتے تو ان سے رک جاتے۔ اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے) اذان بھی توحید و رسالت پر ہی مشتمل ہے۔

رسول کریم ﷺ نے متعدد جگہوں پر اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کے حقوق و فرائض کا ذکر کیا ہے ان کی مختلف صفات بیان فرمائی ہیں بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس حدیث نمبر 8) (ترجمہ۔ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو سنوار کر ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا) ظاہر ہے کلمہ طیبہ کے بعد نیک اعمال کا ذکر ہے مشہور حدیث جبریل کے مطابق حضرت جبریل نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا مَا الإِسْلاَمُ؟ قَالَ: الإِسْلاَمُ:أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ، وَلاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا۔ (ترجمہ۔ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کا شریک نہ ٹھہرائے) اس کے بعد نماز، روزہ اور زکوۃ کا ذکر ہے۔

(صحيح البخاري کتاب الایمان باب سوال جبریل حدیث نمبر50)

اسی طرح فرمایا
مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللّٰہِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللّٰہَ فِي ذِمَّتِهِ (صحيح البخاري کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلۃ باب حدیث نمبر391) (ترجمہ۔ جو شخص ہماری نماز کی طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبح کردہ جانور کھائے۔ پس یہ وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ کی امان ہے اور اس کے رسول (ﷺ) کی امان ہے۔ سو اللہ سے عہد شکنی مت کرو اس امان کے متعلق جو اس نے دی ہے)

یہ سب مسلمان کی مختلف علامات ہیں۔ ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔ المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس حدیث نمبر10) (ترجمہ۔ اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامتی میں رہیں) پوچھا گیا أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ: إِيمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُولِهِ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب الایمان ھو العمل حدیث نمبر26) (ترجمہ۔ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا)

اسی طرح رسول کریم ﷺنے بعض ایسی ناپسندیدہ باتوں کا بھی ذکرکیا جن کے حاملین سے آپ نے لا تعلقی کا اظہار فرمایا۔ مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا (مسند الدارمی کتاب البیوع باب فی النھی عن الغش حدیث نمبر2583) (ترجمہ۔ جو ہمیں دھوکہ دے اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں) سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب خوف المؤمن حدیث نمبر48) (ترجمہ۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے)

مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَقَدْ كفر (صحيح ابن حبان جلد4 صفحہ323) (ترجمہ۔ جس نے نماز کو ترک کیا اس نے کفر کیا) مگر کبھی بھی رسول اللہ ﷺ نے ان کو عالم اسلام سے باہر قرار نہیں دیا اور امت مسلمہ کا تعامل بھی یہی ہے کسی فرقہ نے اپنے بے نمازی یا دھوکہ باز کو باہر نہیں نکالا۔ اس کی مثال بہت آسان ہے کسی بھی ادارے مثلا یونیورسٹی میں طالب علم بنیادی شرائط پوری کر کے داخل ہوتا ہے داخلہ کے بعد تعلیم بنیادی فرض ہے لیکن اس کے علاوہ بھی طالب علم سے بہت سی توقعات ہوتی ہیں اچھے کردار کا مظاہرہ کرے ڈسپلن کی پابندی کرے کھیلوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل ہو۔ نیک نامی کا موجب ہو۔ ان سب کو فرائض۔ واجبات مستحبات اور نوافل میں شمار کیا جا سکتا ہے وہ اعلی اور ادنی طالب علم ہو سکتا ہے مگر وہ اس ادارہ کا ممبر ضرور ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ عالم اسلام اختلافات کی جنگ میں الجھنے کی بجائے قدر واحد پر اکٹھا ہو۔ مسلمان ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ صرف اللہ اور رسول پر ایمان لانے کی تلقین کرتے تھے سارے صحابہ اسی طرح مسلمان ہوئے تھے تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے۔ کسی کودین میں اضافہ کی کیا ضرورت ہے یا کیاحق ہے۔ اگر اس بات پرسب فرقے اکٹھے ہو جائیں کہ جو اللہ اور رسولﷺ پر ایمان لاتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے اس کے بعد اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ تو کتنے ہی مسلمان گویا نئے سرے سے اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور عالم اسلام کتنی بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔ مگرآخری اور بڑا سوال یہ کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ واقعی آسان نہیں۔ مذہب کو اصلی اور سچی بنیادوں پر قائم کرنا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنا اور باہمی دشمنیوں کو ختم کرنا کسی عالم، فلاسفر اور دانشور کا کام نہیں سنت اللہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف اور صرف خدا کے مامور ہی کر سکتے ہیں۔

(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جولائی 2022