• 19 مئی, 2024

کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے

لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ
کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے

لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ

(الواقعہ: 80)

کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔

(از خلیفۃ المسیح الرابع)

اس (قرآن) کی حقیقت وہی لوگ پاتے ہیں جو مطہر ہوتے ہیں۔

(از تفسیر صغیر)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
اس جگہ اللہ جل شانہٗ نے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علوشان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ ان کو دیکھتے ہیں اور اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے قرآن کریم کے دقائق عالیہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے اور یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیو نکر مواخذہ ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کافر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا۔ مگر حقائق و معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان کے موجب ہیں اس لئے صرف خواص کو اس کوچہ میں راہ دیا کیونکہ وہ دراصل مواہب اور روحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں۔

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ53)

پھر آپؑ فرماتے ہیں۔
قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اورفرماتا ہے لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ یعنی قرآن کے حقائق و دقائق ان ہی پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں۔ پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی اور یہ کہنا کہ ابتدا میں تو حل مشکلات قرآن کے لیے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہوگئیں تو اب کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں ماسوا اس کے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہے اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زما نہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہوجائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زما نہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں۔ اور جس مجددکی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند الله اس رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ348)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں۔
ثابت ہوتا ہے ہے کہ زمانہ پاک میں اس (قرآن مجید) کے نسخے موجود تھے۔ اسی واسطے فرمایا لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ کیا مشہور قصہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے تو اس وقت آپ نے اپنی بہن کے پاس سے بیسویں سورۃ کی نقل لینی چاہی۔

(نور الدین طبع سوم235)

کوئی فرماں برداری بدون فرمان کے نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا۔ جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو۔ پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لیے کسی معلم کی ضرورت ہے اور الٰہی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزکی اور مطہر القلب کے کسی کو نہیں آتی۔ کیونکہ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس کیسی ضرورت ہے امام کی، کسی مزکی کی۔ میں تمہیں اپنی بات سناؤں۔ تمہارا کنبہ ہے۔ میرا بھی ہے تمہیں ضرورتیں ہیں۔ مجھے بھی آئے دن اور ضرورتوں کے علاوہ کتابوں کا جنون لگا رہتا ہے۔ مگر اس پر بھی تم کو وقت نہیں ملتا۔کہ یہاں آؤ۔ موقع نہیں ملتا کہ پاس بیٹھنے سے کیا انوار ملتے ہیں۔ فرصت نہیں۔ رخصت نہیں سنو تم سب سے زیادہ کمانے کا ڈھب بھی مجھے آتا ہے۔ شہروں میں رہوں۔ تو بہت سا روپیہ کما سکتا ہوں مگر ضرورت محسوس ہوتی ہے بیمار کو ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ کا زمانہ ہے۔ میرے لیے یہاں سے ایک دم بھی باہر جانا موت کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ تم شاید دیکھتے ہو گے کہ یہاں کھیت لہلہا رہے ہیں دنیا اپنے کاروبار میں اسی طرح مصروف ہے۔ مگر میرا ایک دوست لکھتا ہے کہ وبا کے باعث گاؤں کے گاؤں خالی ہو گئے ہیں۔

بے فکر ہو کر مت بیٹھو۔ خدا کے دردناک عذاب کا پتہ نہیں۔ کس وقت آپڑے۔ غرض تو اس وقت سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اس شخص کے پاس بار بار آؤ۔ جو دنیا کی اصلاح کے واسطے آیا ہے۔

تم نے دیکھ لیا ہے۔ کہ جو شخص اس زمانے میں خدا کی طرف سے آیا ہے۔وہ اَبْكَمْ نہیں ہے بلکہ علی وجہ البصیرت تمہیں بلاتا ہے۔ تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر اٹھا لو۔ اور انہیں ہی کافی سمجھو۔ میں سچ کہتا ہوں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں!کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز و اقارب کو چھوڑا تھا۔ پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے۔ کیا تم ہم کو نادان سمجھتے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا ہماری ضرورتیں نہیں؟ کیا ہم کو روپیہ کمانا نہیں آتا؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے؟ شاید اس لئے کہ میری بیماری بڑی ہوئی ہو؟

دعاؤں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے! مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا!مختلف اوقات میں آنا چاہیے! بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہےاس لیے وہ شخص جو اسی دن آ کر چلا گیا۔ وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصہ کر رہے ہوں گےاس وقت جو عورت آئی ہوگی۔ تو حیران ہی ہوکر گئی ہو گی۔ غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم یہاں بار بار آؤ اور مختلف اوقات میں آؤ۔

(الحکم 15 اپریل 1901 صفحہ3)

حضرت امام شافعی کا ایک شعر ہے

فَاِنَّ الْعِلْمَ نُـْوْرٌ مِنْ اِلٰهٍ
وَنُـْورُ اللّٰهِ لَا يُعْطَى لِعَاصِي

یہ دراصل تفسیر ہے۔ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ کی۔ پس قرآن مجید کے غوامض کی تہہ کو پہنچنے اور معضلات مسائل کے حل کے لیے پاک زندگی اور مطہر قلب ہونا چاہیے۔ ایک معمولی مہمان کے لیے مکان صاف کیا جاتا ہے۔ اور حتی الوسع کوئی ناپاکی و گندگی نہیں رہنے دی جاتی۔ تو خدا کے کلام کے معانی کے نزول کے لیے ایک مصفی دل کی کیوں ضرورت نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاملہ میں اگر لوگ اس اصل پر چلتے تو کبھی دھوکا نہ کھاتے اور نہ مستوجب وعید ہوتے۔ چاہیے تھا کہ وہ خدا کے حضور رو رو کر عرض کرتے کہ الٰہی ہم پر حق کھل جائے۔ استغفار کرتے صدقہ وخیرات دیتے اور پاک زندگی اختیار کرتے۔ انسان جو برے کام کرتا ہے۔ ان کی ابتداء ان وسوسوں سے ہوتی ہے۔ جو سینے میں اٹھتے ہیں۔ ان کا علاج یہ ہے۔ کہ جب ایسے خیالات کا سلسلہ اٹھنے لگے۔ تو اس جگہ کو بدل کر باہر چلا جائے۔ کسی سے باتوں میں لگ جائے۔ موت کو یاد کرے۔ ایک مشغلہ میں اگر یہ سلسلہ نہ ٹوٹے تو دوسرا مشغلہ اختیار کرے۔ تنہا نہ رہے۔ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردے۔ عام طور پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بہت پڑھے۔ الحمدللّٰہ پڑھے۔ استغفار کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کا ورد کرے۔

(حقائق الفرقان جلد4 صفحہ47-49 زیر آیت لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ)

اس جگہ مس کا لفظ ہے جس کے معنی چھونے کے ہیں لیکن محاورہ میں چھونے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی مضمون کی طرف انسان کا اتنا میلا ن ہو کہ اس کی باریکیاں اس پر ظاہر ہونے لگ جائیں جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو تاریخ سے مس نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تاریخ کا کوئی ایک مسئلہ بھی اسے معلوم نہیں، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا دل تاریخ کی طرف اتنا راغب نہیں کہ تاریخ کے تمام باریک مسائل اس پر روشن ہو جائیں۔اسی طرح آیت کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کریم کے علوم ایسے لوگوں پر ہی کھلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پاک قرار دیئے جاتے ہیں نہ کہ انسانوں کے نزدیک۔ ورنہ خدا تو جن کو بزرگ بنا کر بھیجتا ہے انسان ان پر اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔ مثلاً رسول کریمؐ پر عیسائی آج تک اعتراض کر رہے ہیں۔ اسی طرح محمد رسولؐ اللہ کے بعد جو بزرگ ہوئے ان پر بھی بعض لوگ آج تک اعتراض کرتے چلے آرہے ہیں۔

(تفسیر صغیر نوٹ زیر آیت لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ)

(ارسلان احمد منور)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ