• 30 اپریل, 2024

حقیقی نجات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے ہی ملتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک شخص کو خود بخود خدا تعالیٰ سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے اس کے واسطے واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس واسطے جو آپ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی بامرادنہ ہوگا۔ انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ (الزمر:54) (یعنی کہہ دے اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔) فرمایا کہ ’’اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ سب حکموں پر کاربند رہو۔ جیسے کہ حکم ہے۔ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔ یعنی اگر تم خداتعالیٰ سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرمانبردار بن جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں فنا ہو جاؤ تب خدا تم سے محبت کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ321-322۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پس انتہائی گنہگار بھی استغفار کرنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اگر حقیقت میں اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنا چاہے تو پھر خدا تعالیٰ کا پیارا بن سکتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں۔ حالانکہ چاہئے کہ مُردہ کے حق میں دعا کریں۔ رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے۔‘‘ جو نئی نئی رسمیں پیدا کر لی ہیں یہ صرف آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لحاظ سے آپ کی ہتک ہے۔ اب جنہوں نے ہتک رسول کے قانون پاس کئے ہوئے ہیں وہ سب سے بڑھ کے ان بدعات میں ملوّث ہیں۔ یہ ہتک کس طرح کی جاتی ہے؟) آپ فرماتے ہیں کہ ’’…… گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی نہیں سمجھا جاتا اور اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ440۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پس ان لوگوں کو جو ہمارے خلاف کفر کے فتوے دیتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتّباع کرو۔ اس اِتّباع کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک انسان کامل مُتّبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور وہ معرفت اور بصیرت جو اس کی گناہ آلود زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ ہیں جو عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کے مفہوم کے اندر داخل ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ96-97۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

اگر نفسانی جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کی ضرورت ہے۔ آپ کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی معرفت اور بصیرت اللہ تعالیٰ کی حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے تو آپ کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہ آلود زندگی سے نجات پانی ہے تو آپ کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمّت کے علماء، بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔

(الموضوعات الکبریٰ از ملا علیٰ قاری صفحہ 159 حدیث 614 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

(خطبہ جمعہ 20؍ اکتوبر 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2021