معلوم اگرچہ ہے کہ موسم یہ کڑا ہے
دل پھر بھی گلابوں کے لئے ضد پہ اڑا ہے
یاد آئے ہیں پھر لوگ مجھے شہر جفا کے
اک تیر ستم یوں بھی میرے دل میں گڑا ہے
وہ جس سے عبادت کی طرح کی تھی محبت
وہ شخص زمانے کے لئے مجھ سے لڑا ہے
میت کو مری دیکھ کے بولا وہ ستم گر
اٹھ جائے گا پھر سے یہ اداکار بڑا ہے
جس موڑ پہ بدلی تھی ڈگر اس نے مبارکؔ
کہنا کہ اسی موڑ پہ دیوانہ کھڑا ہے
(مبارک صدیقی۔لندن)
جلسہ سالانہ
یوں ہی اک شان سے ہوتا رہے جلسہ اپنا
دل کی راحت کا یہ سامان رہے صدیوں تک
ہم پی مولیٰ کا یہ احسان رہے صدیوں
آسمانوں سے یوں ہی نور کے چشمے پھوٹیں
یہ سفر زیست کا آسان رہے صدیوں تک
تا قیامت رہیں ہم عشق محمد کے اسیر
ہم فقیروں کی یہی شان رہے صدیوں تک
یوں ہی رحمت کا شجر ہم پہ رہے سایہ فگن
یوں ہی ہر درد کا درمان رہے صدیوں تک
یوں ہی اک شخص لٹاتا رہے چاہت کے گلاب
یوں ہی وہ ہم پہ مہربان رہے صدیوں تک
ہم بھی ہوں اپنے سبھی قول نبھانے والے
ان کو بھی ہم پہ یوں ہی مان رہے صدیوں تک
ان کی خوشبو سے مہکتا رہے سارا عالم
جاری و ساری یہ فیضان رہے صدیوں تک
یہ گلستان سدا اس کی حفاظت میں رہے
ہاں خدا اس کا نگہبان رہے صدیوں تک
یوں ہی اک شان سے ہوتا رہے جلسہ اپنا
اس کی یہ اپنی ہی پہچان رہے صدیوں تک
(عبدالصمد قریشی)