• 27 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 12)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 12

گزشتہ کچھ اسباق سے وقت اور زمانے کا اردو زبان کے فقرات پراثر پڑھایا جارہا ہے۔ آج کے سبق میں ہم اس سلسلے کو عارضی طور پہ روک کر اردو زبان میں علم ریاضی یعنی میتھ یا حساب کی بعض چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اب دیکھے کہ اردو زبان میں کاؤنٹنگ کو گنتی کہتے ہیں۔ گنتی سے فعل بنتا ہے گننا یعنی کاؤنٹ کرنا۔ اسے اردو میں شمار کرنا بھی کہتے ہیں

گنتی:

1 ایک 2 دو 3 تین 4 چار 5 پانچ 6 چھ 7 سات 8 آٹھ 9 نو 10 دس 11 گیارہ 12 بارہ 13 تیرہ 14 چودہ 15 پندرہ 16 سولہ 17 سترہ 18 اٹھارہ 19 اُنیس 20 بیس

آج کے سبق میں بیس 20 تک گنتی پڑھنا اور لکھنا سیکھیں گے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ گنتی کا استعمال زبان میں اور کس طرح ہوتا ہے

اگر کوئی چیز نمبر ایک پر ہے تو اگر وہ چیز مذکر ہے تو اسے ’پہلا‘ کہتے ہیں۔ جیسے کہیں گے آج عید کا پہلا دن ہے، یہ میرا پہلا امتحان ہے۔ آج جلسہ سالانہ کا پہلا روز یا دن ہے۔ کل پہلا روزہ ہے وغیرہ۔ اگر کوئی چیز مؤنث ہے تو اسے ’پہلی‘ کہیں گے۔ جیسے پہلی تاریخ کا چاند۔ مہینے کی پہلی تاریخ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ یہ میری حضور انور سے پہلی ملاقات ہے وغیرہ

اسی طرح پہلی چیز کے لیے ’اوّل‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں یہ بچہ مقابلے میں اوّل آیا ہے۔

دوسرے نمبر والی چیز کے لیے لفظ ‘دوسرا’ استعمال ہوتا ہے یعنی اگر چیز مذکر ہے تو کہیں گے کہ آج جلسہ سالانہ کا دوسرا دن ہے۔ اور اگر چیز مؤنث ہے تو لفظ ’دوسری‘ استعمال ہوگا۔ وہ بچہ دودھ کے علاوہ دوسری چیزیں نہیں کھاتا۔ وہ بچہ اپنے دادا سے دوسری کہانی سن رہا ہے وغیرہ۔ دوسرے نمبر کے لیے ’دوم‘ یا ’دوئم‘ بھی استعمال ہوتا ہے

تین نمبر والی چیز کو ’تیسری‘ (مؤنث) اور تیسرا (مذکر) کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیسرے نمبر کو ’سوئم‘ بھی کہتے ہیں۔

چار کے عدد یا نمبر والی چیز کو ’چوتھی‘ (مؤنث) اور ’چوتھا‘ (مذکر) کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’چہارم‘ بھی کہا جاتا ہے

پانچ نمبر والی چیز کو ’پانچویں‘ (مؤنث) یا ’پانچواں‘ (مذکر) کہتے ہیں۔ اور بعض اوقات اسے پنجم بھی کہا جاتا ہے جو کہ فارسی لفظ ہے۔

چھ نمبر والی چیز کو ’چھٹا‘ (مذکر) اور ’چھٹی‘ (مؤنث) کہا جاتا ہے۔ جیسے کہیں گے فلاں کمرے کی الماری کے چھٹے خانے میں فلاں کتاب رکھی ہے۔ اسی طرح کہیں گے آج اسے گھر سے نکلے ہوئے چھٹا روز ہے۔ بعض اوقات چھٹی چیز کے لیے ’ششم‘ کا فارسی لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تاہم فارسی الفاظ کا استعمال بہت کم ہے۔ یہ زیادہ تر کتابوں کے چیپٹرز کے لیے اور سکول میں جماعتوں کے درجوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

سات نمبر والی چیز کو ’ساتویں‘ (مؤنث) اور ساتواں (مذکر) کہا جاتا ہے۔ جیسے کہیں گے کہ ہفتے کے ساتویں روز چھٹی ہوتی ہے۔ اُن کا ساتواں نمبر ہے۔ بعض اوقات اسے ’ہفتم‘ بھی کہا جاتا ہے جو کہ فارسی لفظ ہے۔

آٹھ نمبر والی چیز کو ’آٹھواں‘ (مذکر) اور آٹھویں (مؤنث) کہا جاتا ہے۔ جیسے کہا جائے گا کہ آٹھویں جماعت کے بچے۔ یا جیسے کہیں گے کہ وہ بچے جو آٹھویں سال میں ہیں۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ لفظ ’آٹھویں‘ جب کسی مذکر چیز کے لیے استعمال ہو تو اسے کم باریک آواز سے بولا جاتا ہے۔ جیسے وہ لڑکا جو آٹھویں سال میں ہے۔ یہاں سال مذکر ہے اس لیے اسے آٹھویں کہیں گے جبکہ ’آٹھویں جماعت‘ میں جماعت کیونکہ مؤنث ہے اس لیے اسے آٹھویں کہیں گے یعنی باریک آواز میں بولیں گے۔

نو نمبر والی چیز کو ’نواں‘ (مذکر) اور نویں (مؤنث) کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے ’نوواں‘ اور ’نوویں‘ بھی کہتے ہیں۔ فارسی میں اسے نہم کہا جاتا ہے۔

دس نمبر والی چیز کو ’دسواں‘ مذکر اور دسویں (مؤنث) کہا جاتا ہے۔ جبکہ فارسی لفظ ’دہم‘ بھی استعمال ہوتا ہے

مزید گنتی اگلے سبق میں دیکھیں گے اب ہم دیکھیں گے کہ وقت کو اردو میں کیسے بیان کیا جاتا ہے۔ وقت کو کئی اکائیوں یعنی ناپنے کے طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ جیسے سال یا برس، مہینہ، ہفتہ، دن، گھنٹہ، منٹ، سیکنڈ وغیرہ۔

سال: 12 مہینوں سے مل کر بنتا ہے اور عام طور پہ اس میں 365 دن ہوتے ہیں جیسے 2021ء ایک سال ہے

مہینہ: ہر سال میں 12 مہینے ہوتے ہیں جیسے جنوری، فروری وغیرہ اس کو ’ماہ‘ بھی کہتے ہیں اور مہینے سے اسم صفت بنانا ہو تو ماہانہ کہیں گے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آپ ماہانہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں۔ ایک انداز ’ماہ بہ ماہ‘ بھی ہے یعنی جیسے آپ نے کچھ خریداہے اور آپ ہر ماہ اس کی قیمت قسطوں میں ادا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ اتنے پیسے ماہ بہ ماہ ادا کرنے ہونگے۔ ایک اور انداز ’ماہوار‘ (مذکر) اور ماہواری (مؤنث) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وہ رسالہ یا میگزین جو ہر ماہ چھپتا ہے اسے ماہوار رسالہ یا جریدہ کہیں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
انسان پر قبض (بےدلی، بیزاری، سستی) اور بسط (خوب شوق اور دلچسپی، محبت کے جذبات پیدا ہونا) کی حالت آتی ہے۔ بسط کی حالت میں ذوق (بہت مزہ اور تسکین ملنا) اور شوق (دلچسپی، جوش) بڑھ جاتا ہے اور قلب (دل) میں ایک انشراح (روانی، عبادت میں دلچسپی) پیدا ہوتا ہے۔ خدا تعالی کی طرف توجہ بڑھتی ہے۔ نمازوں میں لذت اور سرور(مزہ) پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی (بوریت) کی سی حالت ہوجاتی ہے۔ جب یہ صورت ہو (جب ایسا ہو) تو اسکا علاج یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے (یعنی اپنی برائیوں کا جائزہ لے کر اللہ تعالی سے معافی طلب کرے) اور پھر درود شریف بہت پڑھے۔ نماز بھی بار بار پڑھے (یعنی نماز چھوڑ نہیں دینی کہ دل نہیں چاہتا بلکہ پوری کوشش سے پڑھے) قبض (بے دلی) کے دور ہونے کا یہی علاج ہے۔

(ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ جلد4 صفحہ110)

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2021