• 27 جولائی, 2025

حضرت مولوی فخر الدین رضی اللہ عنہ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت مولوی فخر الدین رضی اللہ عنہ۔ گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا

حضرت مولوی فخر الدین رضی اللہ عنہ ولد حضرت میاں قطب الدین صاحب گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد حضرت میاں قطب الدین ؓ (وفات: 29؍جنوری 1934ء) ایک علمی شخصیت تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے، ان کی اولاد میں آپ سب سے بڑے پھر حضرت میاں عبدالخالق صاحب اور حضرت میاں سلطان احمد صاحب (وفات: 1948ء) تھے۔ حضرت بابو فخر الدین صاحبؓ 1881ء میں پیدا ہوئے، حصول تعلیم کے بعد ملازمت کے سلسلے میں مشرقی افریقہ گئے جہاں سوا سال کام کرنے کے بعد واپس آگئے اور فوج میں ملازمت اختیار کی۔ اپنی قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں:
’’1898ء میں میری عمر اندازاً 17 سال کی ہو گی میرے والد بزرگوار مولوی قطب الدین صاحب ہمیشہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ذکر گھر میں کرتے رہتے تھے، ان کو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ جو ہمارے ہم وطن تھے اور والد صاحب مرحوم کے ان کے بڑے بھائی مولوی غلام احمد صاحب کے ساتھ پرانے تعلقات شاگردی کے تھے اس لئے حضرت نورالدین کے ساتھ بھی نہایت محبت اور اخلاص رہا اس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پتہ لگا والد صاحب بہت خوش ہوئے کہ امام مہدی ظاہر ہو گئے۔ مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور بغیر کسی قسم کے اغراض کے میں نے حضور کی غلامی 1896ء میں اختیار کر لی۔ بیعت کا ان دنوں علم نہ تھا کہ بذریعہ ڈاک بھی ہو سکتی ہے اس لئے 1898ء میں قادیان پہنچ کر بیعت کر لی اور طبیعت بحمد للہ بہت خوش ہوئی۔ قادیان میں مَیں چند روز ٹھہرا اور پھر واپس وطن کو چلا گیا اس کے بعد ہمیشہ قادیان میں آتا اور مہینہ مہینہ ٹھہرتا لیکن 1899ء کے اخیر افریقہ کا سفر اختیار کیا اور سوا سال کے بعد آیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات بعض یاد تو ہیں لیکن یہاں گنجائش نہیں، ایک خاص واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔ 1908ء کے ابتداء میں جب حضور لاہور تشریف لے گئے خاکسار چھاؤنی لاہور میں ملازم تھا۔ انہی دنوں …… فیلڈ فورس لگ گئی اور چونکہ میری ملازمت فوجی تھی اس لئے مجھے بھی سرحد پر جانے کا حکم ہوا جب سٹیشن پر آیا تو مغرب کے وقت علم ہوا کہ حضور لاہور تشریف لائے ہیں ہماری سپیشل ٹرین نے دوسرے روز 11 بجے روانہ ہونا تھا۔ میں لاہور پہنچا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لوں اور دعا کرا کر روانہ ہوں، جب میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچا تو حضور کو حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے ذریعے (جو آجکل ہمارے امام ہیں اور خلیفہ المسیح الثانی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دیر تک زندہ رکھے۔ آمین) اطلاع بھجوائی کہ اس طرح خاکسار جنگ پر سرحد کو جانے والا ہے حضور فوراً باہر تشریف لائے، میں نے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ حضور علاقہ سرحد میں گورنمنٹ کی پٹھانوں کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جنگ کی تکالیف سے بچائے۔ حضور نے فرمایا بہت اچھا میں آپ کے لئے دعا کروں گا لیکن جنگ کے حالات وہاں پہنچ کر ضرور مجھے لکھنا میں نے کہا بہت اچھا حضور لکھوں گا۔ حضور نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے دعا کروں گا لیکن خط مجھے ہر روز لکھتے رہنا میں آپ کے لئے دعا کروں گا اور مجھے روزانہ حالات سے اطلاع دیتے رہیں۔ پھر حضور نے فرمایا کہ کیا جنگ کے حالات لکھنے کی اجازت ہے میں نے کہا مجھے علم نہیں کہ اجازت ہو یا نہ۔ حضور نے فرمایا کہ اجازت نہ ہو تو خیر لیکن اجازت ہو تو ضرور حالات لکھنا میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ حضور نے تین دفعہ فرمایا کہ میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ چنانچہ حضور نے دعا فرمائی اور مجھے آفیسر کمانڈنگ نے حکم دیا کہ تم اس جگہ رہو ہیڈ کلرک کی ڈیپو میں ضرورت ہوتی ہے اس لئے میں دوسرے کلرک کو لے جاؤں گا تم یہیں رہو۔ حضور کی دعا کا نتیجہ تھا کہ جنگ کے بھیانک اور خوفناک نظارے کو دیکھنے سے بندہ بچ گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ

2۔ جب میں حضور کی اجازت سے 1899ء میں مشرقی افریقہ گیا وہاں نیروبی میں ہمارے معزز بھائی محمد افضل خاں مرحوم نے تجارت کی خاطر مجھے بلایا تھا جب میں یہاں سے روانہ ہونے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا وہاں جا کر ڈاکٹر رحمت علی صاحب سے ملنا ان کے ذریعہ آپ کے روزگار کی صورت بن جائے گی۔ میں نے ڈاکٹر رحمت علی صاحب کو دیکھا ہوا نہیں تھا لیکن افریقہ جب پہنچا تو محمد افضل خاں مرحوم کی تجارت کچھ کمزور ہو گئی اس لئے مجھے ڈاکٹر رحمت علی صاحب کی طرف توجہ کرنی پڑی۔ چنانچہ ان کے ذریعہ مجھے نہایت ہی معقول ملازمت مل گئی اور اس طرح میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات کو پورا ہوتے دیکھا۔

3۔ ایک دفعہ 1899ء میں جب میں قادیان آیا تو میں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کے کمرے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے ہیں اور کچھ …… کام کر رہے ہیں ان سے حضور باتیں کر رہے ہیں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی وہ بات جو اس وقت میں نے سنی یہی تھی کہ حضور اس ملاح کو فرما رہے تھے کہ ہمارا دل چاہتا ہے جہاں آجکل ہندوؤں کا مرگھٹ (مڑھیاں) ہیں وہاں مذبح بنایا جائے۔ حضور کی یہ خواہش اللہ تعالیٰ نے خلیفہ ثانی کے زمانہ میں پوری فرمائی کہ مڑھیوں کے قریب ہی مذبح بن گیا اور آج تک وہاں بنا ہوا ہے۔

والسلام
فخر الدین سیکرٹری امانت تحریک جدید

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 8 صفحہ 233)

آپ مارچ 1932ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوکر قادیان آگئے اور جماعتی دفاتر میں مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پائی۔ پہلے آپ آنریری طور پر اسسٹنٹ ناظر دعوۃ و تبلیغ کے طور پر کام کرتے رہے پھر آپ تین سال تک پرسنل اسسٹنٹ ناظر بیت المال کے طور پر کام کرتے رہے، 1934ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کا اجرا فرمایا تو آپ کو سیکرٹری امانت مقرر فرمایا، اسی دوران جب 1936ء میں حضورؓ کے مختار عام حضرت شیخ نور احمد صاحب کا انتقال ہوا تو حضور نے ان کی جگہ آپ کو اپنا مختار عام بھی بنا دیا اور آپ نہایت خوش اسلوبی سے اپنی وفات تک یہ کام سر انجام دیتے رہے۔ (الفضل 26؍جنوری 1961ء صفحہ3) وسط 1932ء میں نظارت بیت المال میں آئے اور جماعتوں کے کامیاب دوروں کا بھی موقع پایا، اس حوالے سے آپ کی ایک رپورٹ اخبار الفضل 28؍جولائی 1932ء صفحہ9 پر درج ہے جس میں آپ نے اپنے ایک ماہ کے دورے کا تذکرہ کیا ہے۔

آپ کے بھائی حضرت میاں سلطان احمد صاحب کا مختصر ذکر رجسٹر روایات صحابہ میں موجود ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
’’مجھے بڑے بھائی مولوی فخر الدین صاحب کی معرفت 1904ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی اس وقت میری عمر اندازاً 20 سال تھی اور بیعت کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی خاص واقعہ یاد نہیں میں وقتاً فوقتاً آتا رہا اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوتا رہا۔ کیا ہی مبارک ایام تھے اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر8 صفحہ237)

حضرت میاں سلطان احمد صاحب نے 1948ء میں وفات پائی اور اپنے گاؤں گھوگھیاٹ میں ہی اپنے والد صاحب کے قریب دفن ہوئے، ان کے متعلق صوبیدار ریٹائرڈ نذر حسین صاحب کا ایک مضمون اخبار الفضل ربوہ 28؍مئی 1994ء صفحہ 6 پر شائع شدہ ہے۔

آپ نے 1940ء میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ مولوی فخر الدین صاحب پنشنر مہاجر جن پر فالج کا نہایت سخت حملہ ہوا تھا، پونے دس بجے شب وفات پاگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے…. آپ نے 59 سال کی عمر میں وفات پائی۔‘‘

(الفضل 12؍نومبر 1940ء صفحہ2)

آپ کی اہلیہ حضرت صاحب بیوی صاحبہ موضع گڑھی کالا ڈاک خانہ مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا کی رہنے والی تھیں۔ 1888ء میں پیدا ہوئیں، 1905ء میں شادی کے تین سال بعد اپنے خاوند کے ساتھ قادیان حاضر ہوئیں اور بیعت کا شرف پایا۔ نہایت مخلص اور نیک خاتون تھیں، مؤرخہ 27؍جولائی 1959ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اولاد میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں: محمد اسحاق صاحب ہیڈ ماسٹر، مولوی محمد یعقوب طاہر صاحب انچارج شعبہ زود و نویسی، محمد ابراہیم ناصر صاحب مبلغ ہنگری، محمد یوسف صاحب، بابو محمد اسماعیل فوق صاحب واہ کینٹ، رضیہ بیگم اور ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک نواب خان صاحب لاہور

(غلام مصباح بلوچ۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2021