• 27 جولائی, 2025

سورۃ الفاتحہ، البقرہ اور آلِ عمران کا تعارف

سورۃ الفاتحہ، البقرہ اور آلِ عمران کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

مؤقر جریدہ روزنامہ الفضل آن لائن لندن میں گزشتہ ایک سال سے قرآن کریم کی سورتوں کے تعارف کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ روحانی و علمی مائدہ ہمارے قارئین کے لئے مکرم ابو سلطان نے حضرت ملک غلام فرید صاحب کے ترجمہ قرآن بزبان انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر کے تیار کیا۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ خَیْرًا۔ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قارئین میں اس حد تک مقبول ہوا کہ ہر سورۃ کا تعارف اشاعت کے فوراً بعد ’’مقبول ترین‘‘ میں اپنی جگہ بنا لیتا رہا۔ جس سے احمدی احبا ب و خواتین کی اللہ کی کتاب قرآن کریم سے محبت اور عشق عیاں ہوتا ہے۔ اَللّٰہُمَّ زِدْ فَزِدْ۔

اس سلسلہ کے اختتام پر ادارہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ترجمہ قرآن میں بیان سورتوں کے تعارف کا آغاز کرنے کی سعادت پا رہا ہے۔ ان کی کمپوزنگ مکرمہ عائشہ چوہدری آف جرمنی کر رہی ہیں۔ سورتوں کے ان تعارف میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سائنٹفک طور پر آیات کو موجودہ ایجادات اور دیگر امور پر اطلاق فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو بھی مبارک فرمائے اور قارئین کو استفادہ کی توفیق دے۔ آمین

(ادارہ)

سورۃ الفاتحہ

یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ بعض مستند روایات کے مطابق یہ مدینہ میں دوبارہ نازل ہوئی۔ بسم اللہ سمیت اس کی سات آیات ہیں۔

یہ سورت قرآن کریم کے جملہ مضامین کا خلاصہ ہے۔ اسی لئے احادیث میں اس کا ایک نام اُمُّ الْکِتَابِ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اَور بھی بہت سے نام مذکور ہیں مثلاً فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ، اَلصَّلوٰۃُ، اَلْحَمْدُ، اُمُّ الْقُرْاٰنِ، اَلسَّبْعُ الْمَثَانِی،اَلشِّفَآءُ، اَلْکَنْزُ وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر اس سورت کی تفسیر کا علم دیا۔ چنانچہ حضور ؑ نے خاص طور پر اس سورت کی تفسیر عربی زبان میں رقم فرمائی۔

سورۃ البقرہ

یہ سور ت مدنی دور کے پہلے اور دوسرے سال میں نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی دو سو ستاسی آیات ہیں۔

اس سورت کی ابتداء ہی میں اللہ تعالیٰ، وحی و الہام اور آخرت پر ایمان جیسے بنیادی عقائد کا ذکر ہے۔ سورۃ فاتحہ میں انعام یافتہ، مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ اور الضَّآلِّیۡنَ تین گروہوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ سورۃ البقرۃ میں انعام یافتہ گروہ کا ذکر کرنے کے بعد مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِم گروہ کے بد عقائد، بد اعمال اور فسق و فجور کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔

یہ سورت ایک حیرت انگیز معجزہ ہے جس نے ابتدائے آفرینش کے ذکر سے لے کر حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر تک مختلف انبیاء کے واقعات پیش فرمائے ہیں اور قیامت تک کے لئے اسلام کو جو خطرات در پیش ہیں،اُن کی بھی نشاندہی فرمائی ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کے بعد مختلف عظیم مذاہب کے رسولوں کا ذکر موجود ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہیں۔ اس سورت کو پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا شریعت مکمل نازل ہوگئی ہے اور کوئی پہلو بھی اسلامی شریعت کا ایسا نظر نہیں آتا جو باقی رہ گیا ہو۔ اگرچہ بعد کی سورتوں میں کچھ اور پہلو بھی ملتے ہیں مگر اپنی ذات میں یہ سورت ہر مضمون پر حاوی نظر آتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کا چوٹی کا حصہ سورۃ البقرۃ ہے۔ اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کی سب آیات کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعجازی شان ہے کہ آپؐ کو یہ سورت عطا فرمائی گئی۔ اس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے مسائل بھی مذکور ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ و السلام کی ان دعاؤں کا خصوصیت سے ذکر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر نو کے وقت انہوں نے کیں۔

اسی سورت میں اس میثاق کا بھی ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ باندھا تھا اور جسے انہوں نے اپنی بد قسمتی سے توڑ دیا اور پھر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

اس سورت کے آخر پر ایک ایسی آیت ہے جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی دعاؤں کا خلاصہ بھی اس میں آگیا ہے اور گویا دعاؤں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ عطا کر دیا گیا ہے۔

سورۃ آلِ عمران

یہ سورت مدینہ میں ہجرت کے تیسرے سال نازل ہوئی۔

بسم اللہ سمیت اس کی دو سو ایک آیات ہیں۔

اس میں سورت فاتحہ میں مذکور تیسرے گروہ الضَّآلِّیۡنَ کا خصوصیت سے ذکر ہے۔ اور اس پہلو سے عیسائیت کے آغاز، حضرت مریم کی پیدائش اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اعجازی پیدائش کا ذکر ملتا ہے۔ اس سورت میں حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو غیر معمولی حسن و احسان کا سلوک تھا اور جس طرح اللہ تعالیٰ غیب سے انہیں رزق عطا فرماتا تھا اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں پاک اولاد کی جو غیر معمولی خواہش پیدا ہوئی وہ حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزگی پر غور کے نتیجہ ہی میں عطا ہوئی۔

اس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات کا بھی اس رنگ میں ذکر ہے کہ بائبل پڑھ کر انسان کو جو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ان سب کا ردّ قرآن کریم نے معجزات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرما دیا ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طبعی وفات کا بھی ذکر موجود ہے۔

اس سورت میں یہود کے میثاق کے مقابل پر مِیْثَاقُ النَّبِیِّیْن کا ذکر ملتا ہے جو سب نبیوں سے لیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمہارے بعد اللہ تعالیٰ کے ایسے رسول پیدا ہوں جو تمہاری نیک تعلیمات کی تصدیق کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں تو لازم ہے کہ تمہاری قوم اُن کی مدد کرے۔اور یہ میثاق وہ ہے جس کا سورۃ الاحزاب میں بھی ذکر ہے اور یہ کہ خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی میثاق لیا گیا تھا۔

اس سورت میں اَور امور کے علاوہ مالی قربانی کا فلسفہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب تک تم خدا کی راہ میں وہ خرچ نہ کرو جس سے تمہیں محبت ہو اور جو بہترین دکھائی دے اُس وقت تک تمہاری قربانی قبول نہیں ہو سکتی۔

اس سورت میں بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اعجازی فتح کا بھی ذکر ہے جس کے بعد اسلام کی عظیم الشان فتوحات کا دور شروع ہوتا ہے اور اُحد کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہوئےصحابہ بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑا۔

(باقی آئندہ جمعرات کو ان شاءاللہ)

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2021