• 25 اپریل, 2024

گھروں کے مسائل اور شکایات

آجکل کئی گھروں کے مسائل اور شکایات سامنے آتی ہیں جہاں مرد اپنے آپ کو گھر کا سربراہ سمجھ کر، یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں گھر کا سربراہ ہوں اور بڑا ہوں اور میرے سارے اختیارات ہیں، نہ اپنی بیوی کا احترام کرتا ہے اور اسے جائز حق دیتا ہے، نہ ہی اولاد کی تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ صرف نام کی سربراہی ہے۔ بلکہ ایسی شکایات بھی ہندوستان سے بھی اور پاکستان کی بعض عورتوں کی طرف سے بھی ہیں کہ خاوندوں نے بیویوں کو مار مار کر جسم پر نیل ڈال دئیے یا زخمی کر دیا۔ منہ سُوجا دئیے۔ بلکہ بعض لوگ تو اِن ملکوں میں رہتے ہوئے بھی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں۔ پھر بچوں اور بچیوں پر ظلم کی حد تک بعض باپ سلوک کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی جاہل لوگوں کی طرح ہی رہنا ہے، ان مسلمانوں کی طرح رہنا ہے جن کو دین کا بالکل علم نہیں ہے، اپنے بیوی بچوں سے ویسا ہی سلوک کرنا ہے جو جاہل لوگ کرتے ہیں تو پھر اپنی حالتوں کے بدلنے کا عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیا مرد جو خدا کا حق ادا کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اور جو عملی حالت کے معیار بلند کرنے کی ان پر ذمہ داری ہے اسے ادا کر رہے ہیں؟ اگر وہ اسے ادا کر رہے ہوں تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی ان کے گھروں میں ظلم ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب سے پہلے گھر کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے توحید کے قیام کی اہمیت اپنے بیوی بچوں پر واضح فرما کر اس پر عمل کروایا لیکن یہ کام بھی پیار اور محبت سے کروایا۔ ڈنڈے کے زور پر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گھر کے سربراہ ہونے اور دنیا کی اصلاح اور شریعت کے قیام کی تمام تر مصروفیات ہونے کے باوجود اپنے گھر والوں کے حق ادا کئے اور پیار اور نرمی اور محبت سے یہ حق ادا کئے۔ گھر کا سربراہ ہونے کا حق اس طرح ادا کیا کہ پہلے یہ احساس دلوایا کہ تمہاری ذمہ داری توحید کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نفل کے لئے اٹھتے تھے اور پھر صبح نماز سے کچھ پہلے ہمیں پانی کے چھینٹے مار کر اٹھاتے تھے کہ نفل پڑھو۔ عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے وہ حق ادا کرو جو اللہ تعالیٰ کے حق ہیں۔

(بخاری کتاب الوتر باب ایقاظ النبی اھلہ بالوتر حدیث 997) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب قیام اللیل حدیث 1308)

پھر آپ اپنے گھر والوں کے حق ادا کس طرح فرماتے تھے؟ وہ کام جو بیویوں کے کرنے والے تھے ان میں بھی آپ ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ ہی فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ مسجد تشریف لے جاتے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلہ … الخ حدیث 676)

پس یہ ہے وہ اُسوہ جو ہم نے اپنانا ہے اور ہمیں اپنانا چاہئے۔ نہ کہ بیویوں سے ایسا سلوک جو ظلم کے مترادف ہو۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے گھریلو کاموں کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے مزید فرماتی ہیں کہ اسی طرح آپ اپنے کپڑے بھی خود سی لیتے تھے۔ جوتے ٹانک لیا کرتے تھے۔ گھر کا ڈول وغیرہ مرمت کر لیا کرتے تھے۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب من کان فی حاجۃ اھلہ … الخ حدیث 676جلد 5 صفحہ 298 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

پس ان نمونوں کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے خاوندوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اس پر توجہ دینی چاہئے کہ کیا ان کے گھروں میں یہ سلوک ہیں؟ یہ رویّے ہیں؟

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19مئی 2017)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2020